بلال احمد پرے
تواریخ اسلام میں سانحہ کربلا سے دنیا کا ہر فرد بخوبی واقف ہے ۔ جس میں نواسہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم، فرزند ارجمند باب العلم و النساءِ جنت سیدنا امام حسینؓ کو شہید کیا گیا ۔ نواسہ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم، جگر گوشۂ علی مُرتضیٰ رضی اللہ عنہ، دِل بندِ فاطِمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا، سلطانِ کربلا، سید الشہداء، امامِ عالی مقام حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کی ولادتِ با سعادت 5 شعبانُ المعظم سنہ 4 ھ کو مدینۂ منورہ میں ہوئی ۔
واقعہ کربلا جہاں تاریخ کے صفحات میں ثبت ہو کر رہ گیا ہے ۔ وہی اس عظیم شہادت کی یاد میں محبینِ اہل بیت آج بھی آنسوؤں کے سمندر بہا رہے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ مورخین، مصنفین، ادیب و شعراء نے اس پیش آئے ہوئے واقعے پر ہزاروں صفحاتِ قرطاس سیاہ کر ڈالے ہیں ۔ آخر کار یہ حسینیت کیا ہے؟
یہ لڑائی صرف حق اور باطل نظام کے بالمقابلہ نہیں تھی، بلکہ تقویٰ پسند نفوس اور من چاہی نفوس کے درمیان تھی ۔ یہ حسینیت اور یزیدیت کے مابین امتیازی لکیر کھینچی جانے والی شہادت تھی ۔ جس کے بعد حسینیت ہمیشہ کے لئے ہر دل میں زندہ ہو کر رہ گئی ۔ اس دلدوز واقعہ کے بعد اسلام کو مسلمانوں کے اندر دین کے تئیں ایک نئی روح پیدا ہوئی ہے ۔ جس کے بعد بے شمار کتابیں رقم طراز ہوکر رہ گئی ہیں ۔
حسینیت یہی ہے کہ کتاب اللہ و سنتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو مضبوطی سے پکڑ کر رکھا جائے ۔ جب کہ یزیدیت یہی ہے کہ دین اسلام کے نظام کے خلاف زندگی گزاری جائے ۔ حسینیت یہی ہے کہ عدل و انصاف ہر شعبے میں منسلک افراد کے نمایاں جھلکتا ہوا نظر آتا ہو ۔ رشوت و بدعنوانی سے کام کرنا یزیدیت کے سوا کچھ نہیں ہے ۔
حسینیت یہی ہے کہ حلال کمائی پہ اکتفا کیا جائے جب کہ یزیدیت یہی ہے کہ رشوت کو پروفیشن بنا کر خوب دولت جمع کی جائے ۔ غریبوں، محتاجوں، مسکینوں اور ضرورت مندوں کے خاطر دوڈ دھوپ کرنا حسینیت ہے ۔ جب کہ مزدوروں، غریبوں، محتاجوں اور مسکینوں کا خون چوسنا یزیدیت ہے ۔
حسینیت کی فکر یہی ہے کہ اقامت دین قائم کیا جائے جب کہ یزیدیت یہی ہے کہ دین اسلام کے ستون کو منہدم کیا جائے ۔ حسینیت یہی ہے کہ مہمان کو رب العالمین کی رحمت سمجھ کر مہمان نوازی کے ساتھ ساتھ عزت و اکرام کیا جائے جب کہ یزیدیت یہی ہے کہ مہمان کو پانی کا قطرہ تک بھی نہ دیا جائے ۔
حسینیت یہی ہے کہ بھوکوں کو کھلایا جائے، ننگے کو پہنایا جائے اور بیماروں کو دوا فراہم کی جائے، جب کہ یزیدیت یہی ہے کہ صرف اپنے نفس کی فکر کرتے ہوئے انسانیت کو بے دردی سے قتل کیا جائے ۔
حسینیت یہی ہے کہ اہل و عیال، ہمسایوں اور رشتہ داروں کی فکر کی جائے، جب کہ یزیدیت یہی ہے کہ چوری ڈکیتی کرکے بینک بیلنس بنایا جائے ۔ حسینیت یہی ہے کہ ہمیشہ دیانتداری سے کام کیا جائے جب کہ یزیدیت یہی ہے کہ بے ایمانی، خیانت اور دھوکہ دہی کو اپنا شیوہ بنایا جائے ۔ الغرض یہی حسینیت کا اصل پیغام بھی ہے ۔ ؎
اے حافظ ناموس دین آپ پر سلام
اے لخت جگر رسول امین آپ پر سلام
حق اور باطل کے اس جنگ میں امام عالی مقام حضرت حسینؓ سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح کھڑے رہ گئے ۔ آپ ؓ موت سے نہیں گھبرائے، بلکہ کربلا کی تپتی ہوئی دھوپ، گرم ریت اور پیاسے ہو کر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرح جامِ شہادت کی سعادت کی طرف مع اپنے اہل وعیال کے بلا خوف و خطر کود پڑے ہیں ۔ اور اس عظیم سفر کے دوران ہر مرحلے پر عزم و استقلال کے غیر متزلزل پہاڑ ثابت ہوئے ۔ آپ ؓ نے موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر صبر و ثبات، شجاعت و بہادری، حوصلہ و ہمت، توکل الی اللہ اور غیرت و جرأت کا بے نظیر اور بے بدل کردار پیش کیا ۔ جو رہتی دنیا تک تمام حق پرستوں کے لئے رہمنائی کا بلند مینار کی حیثیت رکھتا ہے۔
بالآخر یوم عاشورہ 10 محرم الحرام 61 ھجری کو امام عالی مقام سیدنا حسینؓ اور اُن کے بہتر (72) پاکباز ساتھیوں و معصوم بچوں نے شہادت پائی ۔ اور آپؓ نے اپنے اہل وعیال کے ہمراہ صبر آزما آزمائش میں اپنا گرم مقدس خونِ اطہر کربلا کی تپتی ہوئی ریتلی زمین پر دینِ اسلام کی سربلندی کے خاطر اور حق و باطل میں تمیز کرنے کے لئے بہا دیا ۔
حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ دونوں نواسے حسن و حسین رضی ﷲ عنہا دنیا میں میرے دو پھول ہیں ۔ (صحیح البخاری؛ 3753)
بقول شاعر
شاہ است حُسینؑ بادشاہ است حُسینؑ
دین است حُسینؑ دین پناہ است حُسینؑ
سر داد ندادست در دستِ یزید
حقّا کہ بنائے لا الآہ است حُسینؑ
(یعنی ۔شاہ بھی حسینؑ ہے بادشاہ بھی حسینؑ ہے،دین بھی حسینؑ ہے دین کو پناہ دینے والا بھی حسینؑ ہے،سَر دے دیا مگر دیا نہیں اپنا ہاتھ یزید کے ہاتھ میں،حقیقت تو یہ ہے کہ لا الآ الا اللہ کی بُنیاد ہی حسینؑ ہے)
یہ تاریخ ساز واقعہ آج بھی 1447 ھ میں بالکل تازہ دم ہے ۔ آج بھی دنیا کے گوشے گوشے میں حسینؓ کی حیات و خدمات سے عوام الناس کو اجاگر کیا جا رہا ہے ۔ آپؓ کی شہادت کا مقصد واضح اور سبق آموز ہے کہ اُن مفاسد اور خرابیوں کو روکنا ہوگا جو اُمت مسلمہ کے اجتماعی ڈھانچے میں داخل ہوکر بگاڑ پیدا کرے ۔ ہمیں چاہئے کہ حسینؓ کے عظیم اور مقدس مشن کی آبیاری کرے اور آپؓ کے سکھلائے ہوئے دائمی اصولوں کو اپنی زندگی میں لانے کی کوشش کرے جس سے سماج میں ظلم و جبر، فتنہ و فساد، بے شرمی و بے حیائی، لوٹ و کھسوٹ کے بجائے امن، عدل و انصاف، حیا و پاکدامنی اور محبت و اخوت پیدا ہو سکیں ۔ بقول شاعر
گرچہ وہ جوش و جذبہ ہے امت میں ابھی بھی
پر وہ صبر و غیور کا کاروانِ حسینؓ کہیں نہیں
رابطہ ۔ 9858109109
[email protected]>