مانا کہ ابھی الیکشن کی گرما گرم ہوائیں دلی د ربار کی انتخابی دھوئیں والی اخراج نلی سے نکل کر بانہال درے کو پار کرنے نہیں پہنچیں تاکہ بندوں کو تولنے سے گریز کرکے گنا جائے اور جمہوریت نام کی سون پری کے چہرے مہرے پر رنگین غازے کی لیپا پوتی ہو پر اپنے سیاسی مداری نئے جمورے لے کر میدان عمل میں اُتر کر نت نئے کرتب دکھانے میں مشغول لگتے ہیں۔ ڈگڈگی بجا کر اچھل کود میں جمورے کافی مست دکھ رہے ہیں۔پہلا کرتب تو یہ کہ ہر مداری کے مدار میں نئے جمورے ناچ نغمہ کرنے پہنچے ہیں بلکہ ایک دوسرے سے سبقت لینے میں تگ و دو کرنے لگے ہیں ۔اپلم چپلم چاپلوسی کا کھیل بھی عروج پر ہے،زندہ باد مردہ باد کا شور شرابہ جاری ہے ،کہیں ہریسہ زعفرانی کا دستر خوان بچھا ہے کہ ہر الیکشن کا راستہ بھرے پرے پیٹ سے ہی ہو کر گزرتا ہے اور سارے سیاسی مداری اور ان کے چیلے جموروں کی مالا پہنی تصاویر کے ساتھ ایڈیٹ بکس پر براجمان دکھتے ہیں کیونکہ اگر شام کی خبروں میں جمورے نہ دِکھیں تو وہ فوراً دوسرے مداری کے مدار میں پرویش کرتے ہیں اورپہلا مداری بے چارہ اپنی قسمت کو ہی روتا رہتا ہے ۔ شام کی خبروں میں دکھ جانے کے سبب کاغذی پھولوں کی قیمتیں بڑھی ہیں مانا کہ الیکشن کے اختتام پر یہ گندی نالیوں میں دکھتی ہیں لیکن ان ہی پھولوں سے سیاسی جموروں کے لئے مالائیں تیار ہوتی ہیںاور کئی جمورے تو اس قدر چالاک کہ دو دو تین تین سیاسی مداریوں کے حلقے میں نظر آتے ہیں ۔ ایک مدار میں گھوم کر ہریسہ کھایا، دوسرے میں ناچ کر رستہ گوشتابہ سے پیٹ بھرا تو کہیں کیک بسکٹ کی مٹھاس چکھ لی۔ان کی سوچ خوب ہے کہ کیا پتہ کون مداری دلچسپ تماشہ دکھا کر لوگوں کا من موہ لے اور وہ اسی مداری کے اوپر پھول پتیوں ، مٹھائی، شیرینی کی بارش کردیں تو کل کو اپنے حصے کا کیک کیلا کھانے میں آسانی پیدا ہو۔ بلکہ یہ بھی کہہ دیں ؎
کوٹ اور پتلون جب پہنا تو مسٹر بن گیا
جب کوئی تقریر کی جلسے میں لیڈر بن گیا
اور مداریوں کو بھی معلوم ہے کہ اپنے اہل کشمیر تو اللہ میاں کی گائے ہیں۔ سیدھے سادھے، ہر کسی مداری کا کھیل دیکھنے جاتے ہیں ۔کچھ کا کھیل پسند کرتے ہیں، دوسروں کا بھلے اچھا نہ بھی لگے پھر بھی یہ کہہ کر دیکھنے جاتے ہیں کہ اب بے کار گھر بیٹھنے سے کیا فائدہ چلو اسے بھی خوش کردیں۔ اور پھر جموروں کے ناچ نغمے کی رنگینی میں پھنس کر ان کے ہی گیت گاتے ہیں۔ہو نہ ہو اسی وجہ سے کہیں موسیقار تو کہیں گلو کار،کہیں قلم کار تو کہیں ساہوکار میدان سیاست میں آ دھمکے، البتہ سیاسی مداری خود سب سے بڑے کلا کار ہیں اسلئے ان کے لئے کسی پارٹی میں کوئی پوسٹ خالی نہیں۔اپنے اہل کشمیر کسے نہیں معلوم کبھی تو من شدی میں اَشدھ ہوگئے ۔پھر کوہستانی نمک چکھ کر سبز رومال کے دلگیر ہوئے ۔اندرونی خودمختارری اور ۳۷۰؍ کی زلف کے اسیر ہو گئے۔ گولی نہیں بولی کے فتویٰ میں بولی کہنے والے ہکلا گئے اور گولیاں چلتی رہیں۔ کچھ نہ بنا تو سیلف رول کے ساتھ سیلفی لیتے ہوئے لدر نالے میں اُچک کر گرے کیونکہ ناگپوری بھگوا رنگ آنکھوں پر گرا تو کچھ دکھائی نہ دیا اور بھگوا رنگ کے ساتھ پیلٹ کا بے شمار تھیلا گرتا ہی چلا گیا جبھی تو ہبہ اور انشاء بھی دہشت گردوں کی فہرست میں ننھی رنگروٹ بنا دی گئیں یہ اور بات یہ ننھی جانیں قطبین کے ملاپ کے سبب دہشت زدہ رہ گئیں۔
نئے الیکشن میں بھلے مداری پرانے بھی ہیں اور نئے بھی ، مگر دونوں نئے کھیل تماشے کے ساتھ کمر بستہ ہوگئے ہیں ۔نیشنل والے قائد ثانی اپنے مدار کے اندر کئی جموروں کو چمبک کی طرھ کھینچنے میں باقی لوگو ں پرسبقت لئے ہیں ۔اب کی بار وہ Truth and Reconciliation (ٹی آر سی) نامی نیا کھیل دکھانے والے ہیں ۔ اس کھیل کی بابت قائد ثانی نے نیلسن منڈیلا کی زبانی سنا تو اس کے کان کھڑے ہوگئے کہ ہم بھی اپنے لوگوں کو نیا کھیل دکھا کر ان کی آنکھیں چندھیا دیں گے ،پھر وہ ادھ کھلی آنکھوں سے ہل کا پھل قبول کرلیں گے۔اگرچہ اپنے اہل کشمیر اسے ٹرتھ (Truth)کے بدلے ’’ترتھ‘‘(دل بہلانے والا سفید جھوٹ) کہتے ہیں کیونکہ اس قسم کے کئی ترتھ قائد ثانی کئی بار کہہ گئے ہیں ۔ان میں آٹونامی ریزولیشن ، اسٹیٹ سبجیکٹ قانون جیسے منہ میں پانی لانے والے چاکلیٹ اب چونکہ باسی ہو گئے ہیں، اس لئے تازہ بہ تازہ،مٹھاس سے بھرپور، چاشنی سے لبریز’’ ترتھ کمیشن ‘‘نئے دلکش ریپر میں بندھا بازار میں اُتارا ہے ۔شاید اسی لئے سنگیت کی لے کے ساتھ وحید بھائی گائوں گائوں، قریہ قریہ گھومتے پھریں ؎
یہ دو دیوانے دل کے، لے کے پھل ہل کے
کمیشن والے ترتھ کے ، آٹونامی پرِتھ کے
انکوئری تماشے کے، سیاسی بتاشے کے
چلے ہیں چلے ہیں چلے ہیں گپکار
اور سنگیت کی مدھر لے پر تھرکتے اپنے مدار کے اندر جو نئے جمورے لے کر ہل والے بلیوں اُچھل رہے ہیں اور اس اُچھل کود میں ان کی نظر سنہ سولہ تک ہی جاتی ہے جس میں قلم کنول برادری نے نو جوانوں کو کافی پھول سنگھائے اور خود ہل والے نیشنلیوں کا سنہ دس کاریکارڈ توڑا۔
اس بیچ پیپُل کے بغیر پیپلز کانفرنس کے سیاسی مداری بھی روز نئے جموروں کی ٹولیاں ایڈیٹ بکس پر دکھا کر اور Achievable CM ship کی ڈفلی بجا کر اہل کشمیر کی گردن پر سواری کا سامان پیدا تو کرتے ہیں ۔ساتھ میں ناگپوری چڈی داروں کو باور کراتے ہیں کہ اگر کوئی ملک کشمیر ان کے لئے میدان جنگ سے جیت کر لائے گا تو وہ ہندوارہ بریگیڈ ہی ہے جس نے انصاری سلطنت جیسے کئی چھوٹے راجواڑے اپنے ساتھ الحاق کروائے ہیںاور ناگپوری چڈی دار بھی خوش کہ بھلے ہی باقی ہندوستان ہاتھ سے نکلے پر ایک ودھان ایک پردھان اور ایک مشران کا خواب شرمندہ تعبیر ہوگا ؎
لیڈروں کی دھوم ہے اور فالووَر کوئی نہیں
سب تو جنرل ہیں یہاں آخر سپاہی کون ہے
ابھی تو ہم سیاسی مداریوں کے نئے کھیل اور نئے جموروں کی اچھل کود میں ہی محو تھے کہ راج بھون مکین نے نیا اعلان جاری کردیا کہ اپنے یہاں کوئی آل آوٹ آپریشن نہیں۔ہم تو ان سے بالکل متفق ہیں کیونکہ ہم نے آل آؤٹ فقط کرکٹ میں سنا ہے۔فلان ٹیم دو سو پر آل آوٹ ہو گئی، فلان ٹیم کو آخری کھلاڑی نے آل آؤٹ ہونے سے بچایا۔خود سوچو جب آل آؤٹ گیند اور بلے بازی میں ہے تو بھلا سرنو پلوامہ میں سات کیسے مرے۔حبہ اور انشاء جیسوں کی آنکھیں کیسے زخمی ہو گئیں۔ہم تو کہتے ہیں کہ کوئی سرفراز یا وِراٹ گیند بلے سے بیگناہوں کو مار نہیں سکتا، اس لئے اس بات کی تحقیقات ضروری ہے کہ جب فوجی آل آؤٹ ہے ہی نہیں ، جب کرکٹ آل آؤٹ سے مارے نہیں جاتے پھر بھلا یہ درجنوں لوگ کیسے زندگی سے ہی آل آؤ ٹ ہو کر ہزاروں لوگوں کو جنازہ پڑھنے پر مجبور کرتے ہیں۔ اپنے اہل کشمیر کو سیاسی مداریوں کی بات اور کشمیری تحقیقات پر ایک جیسا بھروسہ ہے اور راج بھون مکین نے تو ملک کشمیر کے بچوں کی بچگانہ حرکتوں پر بھی ستیہ کہنے کی کوشش کی۔یہ جو بچے ہیں انہیں کھلونے چاہیئں جو یہاں ملتے نہیں اس لئے بندوق اٹھاتے ہیں اور کھیل کھیل میں وردی پوشوں کو للکارتے ہیں۔وہ جب ہتھیار ڈالنے کی بات کرتے ہیں تو یہ بچے انجانے میں اپنے کھلونوں سے آگ اگلتے ہیں ۔خیر یہ تو بچوں کے کھلونوں کی بات تھی پر بقول رائے بہادر گورنر صاحب مسلہ کشمیر تین سے تئیس برس والوں کے لئے ہے۔جبھی تو ہم سوچتے تھے کہ نوجوانوں پر ہی راست گولیاں کیوں چلتی ہیں اور نو عمر بچیوں پر پیلٹ کیوں چلتا ہے ۔بھلا جب اعلیٰ منتظم نے نشاندہی کر دی ہے کہ اصل دشمن کون ہے پھر اس پر گل بوٹوں کی نہیں پیلٹ کی ہی بارش ہو گی مگر وہ جو کبھی وزیر داخلہ نے حریت کے دروازے پر سوال اٹھا یا تھا کہ اگر وہ دروازہ بند نہیں کرتے تو ہمارے ساتھ وارتا لابھ شروع ہو اہوتا بلکہ نہ جانے ہم کتنی دور تک ہاتھ میں ہاتھ ملائے چلتے اور ملک کشمیر کا فیصلہ کردیتے ۔لگتا ہے وائسرائے کشمیر ملک صاحب ستیہ پال نے یہ کام اپنے ہاتھ میں لیا کہ وہ کھل جا سم سم کا ورد کرتے حریت کا دروازہ کھول کر ہی دم لیں گے۔جبھی تو حیدرپورہ، نگین اور مائسمہ میں دروازوں پر ٹک ٹک کی آواز سے اہل حریت کے کان کھڑے ہوگئے ،یہ سوچ کر کہ کال کوٹھڑی میں پرویش کرنے کا وقت آگیا کیونکہ سالہا سال سے یہ عادت سی بن گئی ہے۔پر دروازوں پر ستیہ پرش نے مخاطب کرتے ان سے کہا کہ وہ ظلم و جبر کی داستان انہیں براہ راست سنائیں ۔ جانے یہ نا انصافی کی باتیں اپنے حاکموں کو سنانی کیوں پڑتی ہیں ؟اس کا مطلب ہے کہ یہ لوگ اَن پڑھ ہیں جبھی تو اخباروں میں چھپی داستان جبر کی انہیں خبر نہیں ہوتی ۔نہ ہی ریڈیو، ٹی وی پر نشریات کے لئے ان کے پاس وقت ہے ۔اپنے یہاں تو ہر گلی ہر کوچے، ہر شہر ہر قصبے ،ہر کھیت ہر کھلیان میں ظلم و جبر کی داستانیں رقم ہیں البتہ دیکھنے کے لئے شفیق آنکھیں چاہیں، سننے کے لئے قوت سماعت ہو، پھر بھلا حریت کی زبانی سننے کی کوئی ضرورت کہاں؟
مانا کہ یوگی راج میں گئو ماتا خون مسلم سے کہیں زیادہ قیمتی ہے اور بے چاری گائے اس خبر سے بے خبرکہ اس کے نام پر کنول بردار سیاسی مداری جموروں کی نئے بیل بھینس میدان میں اُتار رہے ہیں، دودھ دئے جا رہی ہے ۔ یوگی پردیش کے نویڈا علاقے میں کسانوں نے پچاس گایوں کو اسکول میں بند کردیا،اس لئے نہیں کہ یوگی راج میں گائیں بھی ناگپوری سبق حاصل کرنا چاہتی ہیں بلکہ مسلٔہ یہ تھا کہ یہ گائیں بے چارے غریب کسانوں کے کھیتوں میں بے خوف داخل ہو کر فصل چٹ کر جاتی ہیں۔ کسان تو پہلے ہی مودی راج میں پریشان ہیں ،اب یوگی راج کی گایوں کو کہاں تک برداشت کرتے۔اسکول میں اس لئے شاید بند کیا ہو کہ پڑھائی کے ڈر سے دودھ زیادہ دیں اور فصل کھانے نہ دوڑ یں۔یا ہو نہ ہو یوگی راج کے جموروں کی عقل پر پڑا پردہ ہٹانے کے لئے بے بس کسانوں نے نیا طریقہ ڈھونڈھ نکالا کیونکہ ان کے جادوئی کارناموں سے تو شیطان بھی پناہ مانگے ؎
وہ سمجھتا تھا کہ یہ بھی اشرف المخلوق ہے
آدمی کو دیکھ کر شیطان آدھا رہہ گیا
رابط ([email protected]/9419009169)