سید مصطفیٰ احمد
دورِ حاضر میںجہاں بھی نظر دوڑائی جائے،مسیحائوں کے روپ میں ہر سُو چوروں کی ریل پیل دکھائی دیتی ہے،جو ہمارا منہ تکتے ہیں۔ بغیرِمذہب و ملت کے جب ہم اپنے اندر بھی گہرائی سے جھانکتے ہیں تو چوری کی گند ہر ایک کی روح کو پراگندہ کرچکی ہے۔ بات کہاں سے شروع کروں اور کہاں ختم؟ کن کن کا نام لوں اور کن کو چھوڑوں، مجھے کچھ بھی سمجھ میں نہیں آرہاہے۔ ہر کوئی بڑے مہذب انداز میں چوری کررہا ہے ،جن میں،میں بھی شامل ہوں۔ہر کوئی جھوٹا مکھوٹا پہن کر ایک دوسرے کے سامنے تہذیب یافتہ ہونے کا ڈھونگ رچاتے ہیں۔ایسی ہزاروں مثالیں ہیں، جن سے یہ بات اظہر من الشمس ہوجاتی ہے کہ ہر جگہ،ہر مقام اور ہر سطح پر یہاں چوروں کی رکھوالی ہورہی ہے۔اے انسان! مجھے تجھ سے کوئی شکایت نہیں ہے،البتہ ایک شکایت ضرور ہے کہ تو نےکیسے ملاوٹ کےسنگین گناہ کا ارتکاب کیا، جب تو کھانے پینے کے اشیاء میں زہر ملا رہا تھا، اُس وقت تیرے من میں کیا چل رہا تھا؟تیرے ضمیر نے تجھےکیسے یہ اجازت دی کہ تو ضروریات زندگی کی بنیادی چیزوں میں ملاوٹ کرکے معصوم لوگوں کو آہستہ آہستہ موت کے منہ میں دھکیل دیں۔سڑا ہوا گوشت لوگوں کو کھلانے کے وقت تجھے اُس پروردگارِ عالم کی پکڑ کا کوئی احساس نہیں تھا ،جس کے سامنےروزِ قیامت تجھے کھڑا ہونا ہے اور اپنی ان کالی کرتوتوں کا حساب دینا ہوگا۔بے شک دنیا کے معیارات لوگوں کے بنائے ہوئے ہیں،جن کی کوئی گارنٹی نہیںہےاوران معیارات پر کھرا اُترنے کے لیے جائز اور ناجائز کی حدود کو پھلانگ کر چار روز کی عارضی خوشی کے لیے اللہ کے غصے کا شکار ہونا ذلالت کی انتہا ہے۔کیا ابھی تک تو یہ سمجھ نہیں پایا کہ ترقی کس چیز کا نام ہے؟ رحم کسے کہتے ہیں؟ زندگی جینے کے لیے کونسی چیزیں ضروری ہیں؟ کیا اونچا مکان ہی ترقی کی جامع تفسیر ہے؟ کیا اپنی اولاد کو حکومت کا غلام بنا کر ان کے لئے جھوٹے خواب دیکھنا ترقی ہیں؟ کیا ہے اصل زندگی؟ نفسیاتی خواہشات کو پورا کرنے کے لئے جھوٹی رسموں میں بندھنا ترقی نہیں ہے۔ اگر یہ ترقی ہے تو ہم سب اُس مغالطےمیں ہیں،جس مغالطے نے ہم سب کو چوروں کے کٹھہرے میں لاکھڑا کر دیاہے۔کسی اور سے پوچھنے کی ضرورت ہی نہیں،ہر کوئی اپنے آپ سے خود پوچھے کہ اُس نے کیا کیااپنی زندگی میںکیا ہے؟ وہ کہاں کھڑا ہے اوراُس نے کتنے لوگوں کے ساتھ دھوکہ بازی کی ہے اورنام نہاد شائستگی کے ساتھ کتنے لوگوں کو موت کی دہانے تک پہنچا دیا ہےاور معصوموں کے ساتھ وشواس گھات کرکے اُن سے ناجائز فائدہ اٹھایا ہے؟ کسی مولوی یا پادری سے پوچھنے سے بہتر ہے کہ تو خود سے یہ سوال کر؟ جس دن تجھے اپنی گندگی کی بدبو آنے لگے، اُس دن تو اپنے سارے کپڑے تار تار کرکے بےبسی کےساتھ روئے گا، لیکن اُس دن خدا تیری بےبسی پر مسکرائے گا اور تجھے ایسی سزا سنائے گا کہ ہر سو تیری بےعزتی کے چرچے ہونگے۔
در حقیقت کئی وجوہات کے باعث ہمارے یہاں ایسی بُرائیوں اور کالی کرتوتوں کا آغاز ہوا ہے۔پہلی وجہ ہے دنیا کی اندھی محبت :لوگ دنیا کی محبت میں اتنے اندھے ہوگئے کہ اُن میں سچ اور جھوٹ کی تمیز ہی ختم ہوکر رہ گئی ۔دنیا کی ناپائدار چیزوں سے دورِ حاضر کے انسان کواتنا لگاؤ ہوگیاہے کہ ایک ساعت کی جدائی اُسے برداشت نہیں ہوپاتی ہے۔دن رات اِسی فکر میں گزر جاتے ہیں کہ کیسے پوری دنیا پر قبضہ کرکے شانت اور سکھی ہوجائے۔ لیکن Leo Tolstoy کو آج کے انسان نے اگر پڑھا ہوتا تو وہ اندھوں کی طرح کھرے اور کھوٹے میں فرق کرنا بھول نہیں جاتا۔ دوسری وجہ ہے جھوٹی اَنّا : اس بُرائی نے انسان کو حیوانیت کا چولا پہننے کے لیے مجبور کیا ہے،اپنی جھوٹی اَنا کی تسکین کے لئے، ہر ناجائز چیز اورغلط کام کو گلے لگانے سے اس egoistic شخص کو اتنا سکون ملتا ہے کہا کہ اُس کی نظر میں’’ بھاڑ میں جائیں اصولوں کے خوشنما مجسمے‘‘اور وہ اس فتور میں مبتلا ہوجاتا ہے کہ میں فقیروں کی موت کیوں مروں،اگر دوسرے لوگ گاڑیوں اور بنگلوں میں عیش کوشی کرتے پھریں تو میں کیوں سڑا پڑا رہوں۔شادی شدہ اور غیر شادی شدہ دونوں قسم کے لوگ اپنی ہوس کے لیے غیر محرم لڑکیوں کا استعمال کرتےہیں،تو میں کیوں پیچھے رہوں۔اسی لئےوہ ناجائز طریقوں سے حرام کی دولت اکٹھا کررہے ہیںاور پھر اسی حرام دولت کے سہارے اپنی تمام ناجائز خواہشات کی تکمیل کرتے ہیں۔ تیسری وجہ ہے دین سے دوری : میں اُس دین کی بات کر رہا ہوں جو حقیقی دین ہے۔دورِ حاضر میںہم سب نے دین کے نام پر گمراہی کو گلے لگایا ہے۔ایک انسان کو لگتا ہے کہ میں حق پر ہوںاور دوسرے لوگ گمراہ ہیں۔اس جھانسے میں آکر ایک نام نہاد دیندار نے اپنے آپ کو اتنا نقصان پہنچایا ہے کہ ہر طرف چوریوں کا بازار کا گرم ہوا ہے۔دین ،دیانتداری کا نام ہے۔دین مخلص ہونے کا نام ہے۔لیکن دین کی ہی آڑ میں ایک دوسرے کوحسین دھوکہ دیا جاتا ہےاور دین دار دِکھنے والا شخص بڑی نزاکت کے ساتھ چوری اور جعلسازی سے کام لیتا ہے۔چوتھی اور آخری وجہ ہے دیکھا دیکھی : اس خرابی نے تو ہمارےتابوت میں آخری کیل کا رول ادا کیا ہے۔دکھاوے کی خاطر آج کا انسان کسی بھی حد تک جاسکتا ہے۔ اپنی جھوٹی شان و شوکت کو برقرار رکھنے کے لئے آج کا انسان قتل و غارت گری کی حدود کو بھی پارکرنے میں کوئی جھُجھک محسوس نہیں کرتا ہے۔گویا جھوٹےمعاشرے میں اپنی ناک اونچا رکھنے کی خاطر وہ اپنی قبرخود کھودتا ہے۔ ہر وقت اُس پر یہ دُھن سوار رہتی ہے کہ کیسے وہ سماج کو دکھادے کہ بس میں وہ ہوں جو دراصل ،میں نہیں ہوں۔اُس میں ایک ہی بات کا جنون طاری ہوتا ہے کہ کیسے جھوٹی عظمت کا پرچار کرتا پھروں تاکہ سماج کی نظروں میں قابل قدر انسان سمجھا جاسکوںاور زبانِ زد عام رہوں۔
ابھی بھی وقت ہے کہ دورِ حاضر کاانسان ہوش کا ناخن لیں۔ جن کی زندگیاں اُجھاڑنی تھی وہ اجڑ گئی ہیں،جو مہلک بیماریوں میں مبتلا ہوگئے ہیں ان کا اب خدا ہی حافظ ہے۔ جعلساز اور منافق انسان خدا کے حضور معافی ظلب کریں،ملاوٹ اور دھوکے بازاپنے گناہوں سے توبہ کرلیں۔حقوق العباد کا معاملہ بہت سنگین معاملہ ہے،حقوق اللہ کی تعظیم کے ساتھ ساتھ حقوق العباد بھی تعظیم کے زمرے میں آتے ہیں ،لیکن شائد ہم سب اپنے حقوق جاننے سے ناخواندہ ہیں۔چنانچہ میں بھی اسی معاشرے کا فرد ہوںتوغوروفکر کے بعداس نتیجے پر پہنچا ہوںکہ میں بھی نجات کا طلب گار ہوں۔ جوکوئی حرام چیز پیٹ میں چلی گئی ہے اور خون میں تبدیل ہوکر مجھے زندگی فراہم کرتی ہے، اُس کو بدن سے کیسے نکال باہر کرسکوں؟ دین کا کونسا کام کرسکوں، جبکہ میرابدن اور میری روح بھی ملاوٹ شدہ غلیظ اشیاءاور گندگی کی بھینٹ چڑھ گیا ہے۔رہی ہماری توبہ کی بات، تو میں پھر سے اس بات کو دہراتا ہوں کہ اس خام خیال کے پیچھے بھاگنے کی بےکار کوششوں سے ہم سب کو باز آنا ہوگا۔میرے پاس الفاظ ہی نہیں کہ میں کیا لکھو ںاور کیا نہیں۔ جب جب اپنی پراگندگی پر جب نظر پڑتی ہے، تب تب احساس ہوتا ہے کہ ہم کتنی ذلالت سے اَٹے پڑے ہیں۔انسانیت کے روپ میں ہم نے حیوانوں کو شرمسار کرنے والے کارنامے انجام دئیے ہیں۔ میں کسی بھی قسم کی نصیحت کرنے کی حالت میں نہیں ہوں۔اس مضمون کو لکھنے کا خاص مقصد نہیں ہے۔ اگر ہے بھی تو بس یہی کہ میں اپنے اعمال پر شرمندہ ہوں۔دوسروں کا بھروسہ توڑ کر خوبصورت کپڑے زیب تن کرکے مجھے خود سے ہی نفرت ہونے لگی ہے۔اب بس زندگی کی رَو میں بہتا جارہا ہوں اور اس کھوج میں ہوں کہیں کوئی ایسا سراغ ملے جو میری نجات کا باعث بن سکے۔
رابطہ۔7006031540
[email protected]>