ڈاکٹر آزاد احمد شاہ
انسان دل کا مسافر ہے، محبت کا راہی، اخوت اور انسیت کا متلاشی۔ زندگی کی پگڈنڈیوں پر جب کسی کا ہاتھ تھامتا ہے تو امید باندھتا ہے کہ یہ ساتھ ہمیشہ کا ہوگا، یہ وفا کبھی شکست نہ کھائے گی۔ مگر حقیقت کی ہوائیں خوابوں کے چراغ بجھا دیتی ہیں اور ہم دیکھتے ہیں کہ ہر تبسم سچائی کی خوشبو نہیں لاتااور ہر مصافحہ دل کی گہرائیوں کا آئینہ نہیں ہوتا۔ ابن الجوزیؒ کی نگاہِ حکمت ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ ہر تعلق کو ایک جیسا نہ پرکھو، ہر رشتے کو ایک ہی ترازو میں نہ تولو۔دوستی ایک نعمت ہے، مگر جب اس نعمت میں بے قدری گھل جائے تو یہ زہر بن جاتی ہے۔ جب دوستوں سے وفا کی امید ہو اور وہ جفا کریں، جب اخوت کی چاہ ہو اور وہ بے اعتنائی برتیں تو دل کی بستی ویران ہو جاتی ہے۔ دل چاہتا ہے کہ شکوہ کرے، ملامت کرے یا قطع تعلق کرلے۔ مگر ابن الجوزیؒ نے دل کی اس فریاد کا جواب نہایت محبت اور دانائی سے دیا۔ وہ فرماتے ہیں کہ دوستوں کو تین خانوں میں تقسیم کرلو۔ عام جان پہچان والے، ظاہری دوست اور باطنی دوست۔ جو جس مقام کا اہل ہو، اُسے اسی مقام پر رکھو۔
یہ اصول محض ایک حکمتِ عملی نہیں بلکہ دل کی تربیت کا ایک انداز ہے۔ اگر کوئی دوست اخوت کا حق ادا نہ کرے تو اس پر طعن و ملامت کرنا لاحاصل ہے۔ کیونکہ ملامت سے اگر تبدیلی بھی آئے تو وہ محض شرمندگی کا لبادہ ہوگا، دل کی دُرستی نہ ہوگی اور ایسی دوستی جس کی بنیاد خوف پر ہو، محبت کی مہک سے خالی ہوتی ہے۔ اس لئے مناسب یہ ہے کہ ایسے شخص کو محبت کے بلند مقام سے ظاہری تعلق کے عام زمرے میں منتقل کر دیا جائے اور اگر وہ اس کے بھی لائق نہ ہو تو پھر اسے محض جان پہچان کی صف میں شامل کر لیا جائے۔
یہ انداز ہمیں غصے اور انتقام کی آگ سے بچاتا ہے، دل کو سکون عطا کرتا ہے اور تعلقات میں توازن برقرار رکھتا ہے۔ محبت کا یہ دستور ہے کہ دلوں کی حویلیوں میں ہر شخص کو اس کی اہلیت کے مطابق جگہ دی جائے، نہ کہ محض امیدوں کے بوجھ پر۔ ہر شخص کی روح کا موسم الگ ہوتا ہے، کچھ لوگ بہار بن کر آتے ہیں، کچھ خزاں بن کر بچھڑتے ہیں اور کچھ صرف گزرنے والی ہوائیں ہوتے ہیں۔ ان سب کے ساتھ نرمی اور وقار کا سلوک کرنا ہی دانش مندی ہے۔آج جب ہم اپنے تعلقات کا جائزہ لیتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ دل کو سب سے زیادہ اذیت انہی توقعات نے دی جنہیں ہم نے خود پروان چڑھایا تھا۔ ہم نے ہر مسکراہٹ میں خلوص تلاش کیا، ہر سلام میں وفا ڈھونڈی اور ہر ساتھ میں اخلاص کی امید باندھی۔ مگر انسان کمزور ہے، خواہشوں کا اسیر ہے، مصلحتوں کا غلام ہے۔ اس سے کامل محبت کی امید لگانا خود فریب ہے۔ دلوں کی دنیا میں وفا کی شمعیں کم ہیں اور خود غرضی کی ہوائیں تیز ہیں۔
ابن الجوزیؒ کی تعلیم ہمیں اس تلخ حقیقت کے سامنے سرنگوں ہونے کا حوصلہ عطا کرتی ہے، مگر یوں کہ دل کڑوا نہ ہو، آنکھیں شکوہ نہ کریں، زبان شکایت سے آلودہ نہ ہو۔ تعلقات میں درجہ بندی اختیار کرنا نہ تو غرور ہے نہ بےوفائی، بلکہ یہ دل کی حفاظت اور عقل کی علامت ہے۔ ہر تعلق کو اس کی قدرتی جگہ پر رکھنا اور ہر شخص سے اس کی استعداد کے مطابق امید رکھنا ہی سچی دانائی ہے۔ایسا نہیں کہ دل محبت سے خالی ہو جائے یا اخوت کی طلب مٹ جائے بلکہ اصل حسن یہ ہے کہ محبت ہو مگر فہم کے ساتھ، اخوت ہو مگر ہوش کے ساتھ، تعلق ہو مگر عزتِ نفس کے ساتھ۔ انسان کو چاہیے کہ اپنے دل کا مرکز اللہ کی محبت کو بنائے کہ وہی وفا کرنے والا ہے، وہی سچا رفیق ہے، وہی ہے جو مایوس نہیں کرتا۔
جو لوگ راستے میں ساتھ چلیں مگر وفا نہ نباہ سکیں، انہیں خاموشی سے پیچھے چھوڑ دینا بہتر ہے، بجائے اس کے کہ ان کی بےوفائی پر دل کو گھائل کیا جائے اور جو لوگ سچے دل سے جڑے رہیں، ان کی قدر کرنی چاہیے، ان کی دعاؤں میں خود کو شامل سمجھنا چاہیے۔
زندگی کے سفر میں ہر ملاقات ایک سبق ہے، ہر جدائی ایک نصیحت۔ کچھ چہرے مسرتوں کی یاد بن جاتے ہیں کچھ غم کی داستان، مگر ہر تعلق اللہ کی تقدیر کا ایک باب ہے، جسے شکایت کے بغیر پڑھنا ہی بندگی ہے اور ہر وہ تعلق جو ہمیں اللہ کی طرف نہ لے جائے، وہ خواہ کتنا ہی خوشنما کیوں نہ ہو، انجام میں بوجھ ہی ثابت ہوتا ہے۔