ریاست جموںوکشمیرمیں سڑکوں پر دوڑنے والے ٹریفک میں جس پیمانے پر اضافہ ہو رہا ہے، اس سے صاف لگ رہا ہے کہ آنےو الے ایام میں راہ چلنے کےلئے شاید ہی راستہ دستیاب ہو،ا لاّ یہ کہ سڑکوں کی وسعت میں اضافہ ہو اور اگر سڑکوں میں توسیع نہیں ہوتی ہے تو بظاہر ایک ترقی یافتہ سماج کی تصویر دکھانے والی یہ صورتحال ہمارے اقتصادی محاذ کےلئے زبرست نقصان کا باعث بن سکتی ہے کیونکہ روزانہ سڑکوں پر لگنے والے ٹریفک جام کے بہ سبب ہزاروں گھنٹوں کے اوقات کا ر کے زیاں کا اگر باریک بینی کے ساتھ تجزیہ کیا جائے تو یہ آسانی کے ساتھ کروڑوں روپے کا حامل ہوسکتا ہے۔ خاص کر وادی کشمیر میں صوتحال نہایت ہی تشویشناک بنتی جارہی ہےا ور اس میں دیہی و شہری علاقوں کی کوئی تخصیص نہیں بلکہ ہر جگہ طوفان بدتمیزی کا عالم برپا ہے۔ دراصل حالیہ برسوں میں سڑکوں پر ٹریفک میں کئی گنا اضافہ ہو اہے فی الوقت کشمیر صوبہ کی سڑکوں پر 7لاکھ گاڑیاں، جن میں ٹووہیلر اور تھری وہیلیر بھی شامل ہیں، دوڑ رہی ہیں اور ہر سال اس میں30فیصد کا اضافہ دیکھنے کو ملتا ہے ۔ اطلاعات کے مطابق ہر ماہ اس میں7سے دس ہزار تک اضافہ ہوتا رہتا ہے۔رواں برس کے گزرنے دس مہینوں کے دوران60ہزار نئی گاڑیوں کی رجسٹریشن ہوئی ہے۔ اس ساری صورتحال کےچلتے دو اہم باتیں توجہ طلب ہیں جنکی جانب نہ تو سرکار کی اور نہ ہی سماج کی توجہ مبذول ہو رہی ہے۔ ایک یہ کہ نئی گاڑیوں میں80فیصد گاڑیاں پرائیوٹ ہوتی ہیں جبکہ صرف20فیصد ایسی ہوتی ہیں جنکا تعلق تجارتی شعبوں سے ہوتا ہے۔ا س طرح ظاہر بات ہے کہ یہ عمل ہماری اقتصادیات پر بھی مجموعی طور پر منفی اثرات کے حامل بنتا جا رہا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ گاڑیاں تیار کرنے والے اور بینکنگ کے کارپوریٹ اداروں کو اس کا براہ راست فائدہ ملتا ہے، لیکن عام لوگوں کےلئے اس کی وجہ سے جو مشکلات پیدا ہوتی جارہی ہیں، انکی جانب توجہ مبذول کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ بات عالمی سطح پر تسلیم شدہ ہے کہ گاڑیوں کی تعداد میں اضافہ ماحولیاتی تباہی کی بھی ایک اہم وجہ ہے جس سے بچنے کےلئے سنجیدگی کے ساتھ اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ٹریفک جاموں میں وقت ضائع ہونے کے بعد اپنے کام پر پہنچنے کی جلدی ہمیشہ حادثات کا سبب بنتی رہتی ہے ، لیکن ہم ہیں کہ نہ توسماجی سطح پر اور نہ ہی انتظامی سطح پر مسئلے کا حل تلاش کرنے میں کامیاب رہے ہیں ۔ ٹریفک جاموں کے اس سلسلہ سے عام لوگوں کے زندگی کے معمولات بُری طرح متاثر ہونے کی وجہ سے نہ صرف معیشی نقصان کا سامنا کرنا پڑرہا ہے بلکہ لوگ بُری طرح نفسیاتی دبائو سے دو چار ہور ہےہیں۔ سنیچر کی سہ پہر اور سوموار کی صبح کو شہر کی غالباً ہی کوئی ایسی سڑک رہی ہو گی جس پر بدترین جامنگ کے بہ سبب سفر کرنے والے گھنٹوں اس طرح اٹکے رہتےہیں کہ کہیں سےکسی کو نکلنے کی جگہ بھی میسر نہ آتی۔ ظاہر ہے جب ہزاروں کی تعداد میں سفر کرنے والے جامنگ کا شکار ہو جائیں تو سینکڑوں کی تعداد اُن میں مریضوں اور جسمانی طور پرکمزور لوگوں کی بھی ہوسکتی ہے۔ مگر جس عنوان سے یہ مصیبت ایک قیامت کی صورت اختیار کرنےلگی ہے، اُس سے یہی لگتا ہے کہ حکومت میں عوام کی مشکلات کے تئیں ذمہ داری کی رمق تک بھی نہیں دکھائی دے رہی ہے، ورنہ آئے روز میڈیا کے توسط سے ان جاموں کی وجہ سے لوگوںکو پیش آنے والی مشکلات کا بار بار خلاصہ کیا جارہا ہے، مگر متعلقہ ذمہ داروں کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔اس پر طرہ یہ کہ ٹریفک قواعد کی خلاف ورزیاں اس پیمانے پر عروج پکڑ چکی ہیں جسکی ماضی میں شاید ہی کوئی مثال موجود ہو۔آئے روز کے ٹریفک جاموں کی وجہ سے سے صرف شہر سرینگر کی اقتصادیات پر پڑھنے والے منفی اثرات کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ صرف ایک ماہ میں سرینگر ضلع میں ایام ِ کار کےلاکھوں گھنٹے ضائع ہوجاتے ہیں۔2011مردم شماری کے مطابق سرینگر کی آبادی 12لاکھ36ہزار829نفوس پر مشتمل تھی اور اگر ایک دہائی میں آبادی میں23فیصد اضافہ کی شرح کو مدنظر رکھ کر حساب کتاب لگایاجائے تو اس وقت شہر کی آبادی13.5لاکھ ہوگی۔ماہرین اقتصادیات کے ایک جائزے کے مطابق اگر فرض کیاجائے کہ شہر میں صرف40فیصد کامگر ہوںتو ان کی تعداد5لاکھ40ہزار بنتی ہے اور اب یہ بھی مان لیاجائے کہ 40فیصد کی اس آبادی کو روزانہ ٹریفک جام کی وجہ سے ایک گھنٹہ ضائع ہوجاتا ہے تو یہ مجموعی طور روزانہ 1.10لاکھ گھنٹے اور ماہانہ33لاکھ گھنٹے بن جاتے ہیں۔جس شہر میں کامگر طبقہ کو ماہانہ 33لاکھ گھنٹے ٹریفک جام کی وجہ سے ضائع کرنے پڑیں،اُس شہر کی اقتصادیات کا خدا ہی حافظ ہوگا۔یہ ایک سرسری انداز ہ ہے جس میں کم و بیش کا فرق ہوسکتا ہے لیکن حقیقت کہیںاسکے آس پاس ہی ہوگی ،اس سے انکار کی گنجائش نہیں۔یہ تو کشمیر میں ابھی وقت کی اتنی قدر نہیں ہے ،لہٰذا لوگوں کو ٹریفک جام کی وجہ سے ضائع ہونے والے قیمتی وقت کا احساس نہیں ہوتا ہے ورنہ ترقی یافتہ ممالک میں وقت کو سرمایہ کہتے ہیں اور وہاں پیسے سے زیادہ وقت کی اہمیت ہے ۔ٹریفک جام کی وجہ سے سڑکوں پر وقت کا یہ زیاں یقینی طور پر ریاستی معیشت پر بھاری پڑ رہا ہے لیکن شاید حکام کو اس کا احساس نہیں ہے کیونکہ اگر احساس ہوتا تو اس کے تدارک کیلئے ٹھوس اقدامات کئے جاتے ۔یہ تو اس صورتحال کا ایک منفی پہلو ہے ۔اب اگر اس صورتحال کی وجہ سے دیگر اہم شعبوں پر پڑنے والے منفی اثرات کا جائزہ لیاجائے تو صفحوں کے صفحے بھر جائیں گے لیکن پھر بھی بات مکمل نہ ہوگی اور وجوہات کا پٹارا ختم نہیں ہوگا۔لہٰذا زیادہ طویل بحث میں جائے بغیر ارباب بست و کشاد سے یہی امید کی جاسکتی ہے کہ وہ گہری نیند سے جاگ جائیں اور اہلیانِ شہر کو اس درد مسلسل سے نجات دلانے کی کوئی مستقل سبیل پیدا کریں تاکہ پہلے سے ہی بدحال معیشت اب مسلسل ٹریفک جاموں کی وجہ سے مزید لرزہ بر اندام نہ ہوجائے کیونکہ وہ ریاست کیلئے کوئی اچھی خبر نہیںہے۔