ہر تعلیم یافتہ شخص کا با شعور ہونا لازمی !

Mir Ajaz
9 Min Read
محمد شبیر کھٹانہ
با شعور کا مطلب ہے احساس رکھنے والا۔ سادہ الفاظ میں شعور ،اپنے آپ اور اپنے ماحول سے با خبر رہنے کو کہا جاتاہے اور انگریزی میں اس کو Conscious کہتے ہیں۔ طب نفسیات میں اس کی تعریف یوں کی جاتی ہے کہ شعور اصل میں عقل(mind) کی ایسی کیفیت ہے، جس میں ذاتیت یعنی اپنے بارے میں پوری طرح با خبر ہونا دانائی اور آگاہی کی خصوصیات پائی جاتی ہیں اور ذاتی اور مالی حالتوں میں ایک رابطہ موجودہو، حق و باطل میں تمیز کرنے کے لئے شعور و بصیرت کی راہ ﷲ تبارک تعالیٰ نے انسان کو عنایت کی ہے۔
اگر عقل و شعور کی آنکھیں کھول کر انسان دیکھے تو پھر ہی اسے مقصد حیات سمجھ میں آئے گا۔ احساس ،حِس اور ضمیر کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔ ان میں سے ایک بھی غائب تو دوسرے کو بھی خطرہ ہو جاتاہے۔ ضمیر صحیح اور غلط میں تمیز کرنے کی اخلاقی حس،بَد کا احساس اور نیکی کا جذبہ ہے۔ شعور کا مطلب احساس ہونا اور محسوس کرنا بھی ہے ،یہ سب تب ممکن ہے جب حواس خمصہ درست طور پر کام کرتے ہوں۔ اگر کسی انسان کے اندر محسوس کرنے کی حس ہو گی تب ہی وہ دوسروں کی خوشی اور غم کا احساس کر سکتا ہے۔
اگر ایک انسان کی زندگی میں احساس موجود ہے ،تب ہی وہ زندوں میں شمار ہوتا ہے۔ احساس در اصل ایک خوبصورت اور معصوم سا جذبہ ہے اور یہ ہی ایک انسان کی خوبصورت زندگی کی پہچان ہے، ہم اپنے بھائی بہنوں ماں باپ سے محبت کا اظہار کرتے ہیں، ان کا خیال بھی رکھتے ہیں، در اصل یہ سب احساس کی وجہ سے ہے۔ احساس ہی کی بدولت ہمارے دل میں ان سب کے لئے محبت پیدا ہوتی ہے۔ اب یہ بھی لازمی ہے کہ جس کا جتنا علم زیادہ ہے، اُس کا ضمیر اتنا ہی پختہ اور احساس زندہ ہونا لازمی ہے ،ثابت ہوتا ہے کہ تمام اساتذہ اکرام کا ضمیر زندہ اور تمام اساتذہ کو ہر ایک سب سے زیادہ احساس ہونا چائیے۔
انسان کے وجود میں اگر حقیقت میں دیکھا جائے تو پوری کائنات بسی ہوتی ہے۔ ہمارا جسم حواس خمصہ کی بدولت ہی قریب کی اشیا اور تقاضوں سے با خبر ہوتا ہے لیکن اس کو مستقبل کے تقاضوں کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ حقیقت ہےکہ اگر انسان کے جسم کے تمام اعضاصحیح کام کرتے ہیں تو دنیا میں اس سے بڑھ کر شاید ہی کوئی دوسری نعمت انسان کے لئے موجود ہے یعنی تندرست توانا جسم ہی انسان کے لئے اللہ تبارک تعالیٰ کی طرف سے سب سے بڑی نعمت ہے۔ ٹھیک ایسی ہی نعمت احساس شعور اور ضمیر بھی ہے مگر ان سب کی اہمیت معلوم نہ ہونے کی وجہ سے ہی انسان ان کو اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش ہی نہیں کرتا۔
احساس کی بدولت ضمیر زندہ ہوتا ہے اور زندہ رہ بھی سکتا ہے، اگر احساس باقی نہ رہے تو ضمیر نام کی کوئی چیز انسان کے پاس باقی نہ رہے گی۔
اب اگر مقصد حیات کو سمجھ جائے اور انسان کو پوری طرح یہ معلوم ہو جائے کہ انسان کے جسم میں جو سانس چل رہی ہے، جس کی بدولت انسان زندہ ہے اور جب سانس بند ہو گئی تو قصہ تمام ہو جائے گا اور پھر یہ سانس بطور امانت دینے کا ایک خاص مقصدہے، وہ یہ کہ جب تک انسان زندہ ہے ،وہ اللہ تبارک تعالی کی عبادت کرے ،اپنے افراد کنبہ کی ضروریات زندگی پوری کرے اور پھر جو بھی علم، ہنر ، دولت ، طاقت ، قابلیت اللہ تبارک تعالیٰ نے انسان کو عنایت کی ہے، اس کا مقصد قانون شریعت کے مطابق زندگی بسر کرنے کے ساتھ ساتھ اللہ کی مخلوق کی بہترین خدمت کرنا مطلوب ہے۔
اب اس تمام خدمت خلق میں ایک انسان کے راستے میں روکاٹ کیا بنتی ہے۔ انسان نے کبھی اس پر غور نہیں کی اور نہ ہی اس حقیقت کو کبھی سمجھنے کی کوشش کی یا پھر اس خدمت خلق کا ایک انسان کی اپنی ذات کو کیا فائدہ ہے ،اس کی کیا اہمیت ہے۔ آج تک ہر انسان کو معلوم ہی نہیں اگر یہ بھی معلوم ہو جائے تو پھر کمی یہ ہے کہ انسان اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کی کوشش نہیں کرتا یعنی اپنے اندر خود اعتمادی پیدا نہیں کر سکا، جب ہر انسان کے اندر خود اعتمادی پیدا ہو گئی، احساس اور ضمیر زندہ ہو گئے اور انسان نے پوری محنت ، لگن اور ایمانداری سے کام کرنا شروع کرلیا پھر حضرت انسان کچھ بھی کر سکتا ہے۔
اب ایک اور معاملے پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ اگر ایک انسان ایک وقت میں دو کام اکھٹے کرنے کی کوشش کرے تو وہ کبھی بھی کامیاب نہیں ہو سکے گا ۔اس کا مطلب یہ ہواکہ ایک انسان کو شاندار کامیابی حاصل کرنے کے لئے ایک وقت میں ایک ہی کام جو سب سے اچھا اور زیادہ فائدہ مند ہو، وہی کرنا چاہئے۔اب واضح ہو جاتا ہے کہ اچھے کام کے ساتھ غلط کام انسان کو کبھی بھی نہیں کرنا چاہئےاور غلط ہمیشہ نہیں کرنا کیونکہ اس کا انسان کو نقصان ہی ہوتا ہے، فائدہ کچھ بھی نہیں ہوتا، یہاں مذہب کے ایک بہترین اصول لاگو کرنا ہر انسان کے لئے ضروری ہے،وہ ہے اللہ تبارک تعالیٰ نے واضح فرما یا ہے کہ آپ کسی بھی دوسری شخص کے لئے وہی کام کرو، جس سے اس کو فائدہ ہو بلکہ وہ کام مت کرو، جس سے اس کو کسی بھی طرح کا ایک بال کے برابر بھی نقصان ہو۔ اس کا مطلب ایک انسان کو با شعور بننے کےلئے تمام منفی خصلتوں کواپنے اندر سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ترک کرنا ضروری ہے۔ مثال کے طور پر حسد ، بخیلی اور غصہ وغیرہ کسی بھی دوسرے انسان کا غلط مقابلہ کرنا بھی منفی سوچ میں آتا ہے، جس سے دونوں کا قیمتی وقت برباد ہوتاہے اور پھر وہ ایک درست اور جائز کام کرنے میں پیچھے رہ جاتے ہیں ،وہ منزل جس کی طرف سفر کرنے سے فائدہ ہونے والا تھا، اس سے پیچھے رہ گئے اور ساتھ ہی مذہب کے ایک بہترین اصول کی خلاف ورزی کر کے اپنے آپ پر گناہ سر زد کیا دوسرے پر ظلم ہوا جب ایک شخص دوسرے پر ظلم کرتا ہے۔ ضروری نہیں کہ مظلوم خاموش رہے بلکہ وہ سماج کے اچھے افراد کی مدد سے معاملہ حل کروا سکتا ہے نہ کہ اس کےساتھ غلط مقابلہ ۔جب ایک انسان کسی بھی معاملے کو حل کرنے میں دوسروں کی مدد حاصل کرے گا تو اس کا قیمتی وقت بچ جائے گا اور وہ یہ وقت اچھے کام میں صرف کرے تو اس کو فائدہ ہو گا۔اب ان منفی خصلتوں کی مختصر تعریف کرنا مناسب ہو گا جن کی تفصیل حسب ذیل ھے:   ۔۔۔۔     (جاری)
(رابطہ۔ : 9906241250)
Share This Article