گزشتہ دنوں دلی میں ایک ہی شریف وسنجیدہ متوسط ہندو کنبے کے گیارہ افراد ِ خانہ کی بیک وقت پُراسرار’’خودکشی‘‘ پر تمام لوگ دم بخود بھی ہیں اور انگشت بدنداں بھی ۔ اسی دوران ایک آٹھ سالہ بچی کی دلخراش اجتماعی آبروریزی کی سرگزشت ، آسام، مہاراشٹر، اورنگ آباد ، چھتیس گڑھ میں یکے بعد دیگرے بچوں کی اغواء کاری کے الزام میں ہجومی قتل کی متعدد ہولناک وارداتیں بھی باضمیر لوگوں کو نیم جان کر کے چھوڑ چکی ہیں ۔ یہ چند ایسے داغِ نہاں ہیں جن کے باعث ملک بھر میں انسانیت سہمی ہوئی ہے اور آدمیت ہرا سان وپریشان ہے ۔ یقیناً اس نوع کے ناقابل برداشت المیوں پر عام آدمی عدم تحفظ کے شکار ہیں ، وہ سینہ کوبی کر تے ہوئے زمانے کے ناخداؤں سے یہ تیکھے سوال پوچھ رہے ہیں کہ یہاں قانون کی حکمرانی ہے یا جنگل راج ہے؟ یہاں جمہوری نظام اس قدر بے بس وبے حس کیوں کہ غنڈے موالی کھلم کھلا انسانی زندگیاں المیوںکی بھینٹ چڑھا رہے ہیں؟ یہاں عدل وانصاف کا سر شتہ اتنا بے دست وپا کیوں کہ انسانیت کے مجرموں کی گردنیں ناپنے کے بجائے آئین کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیںاور قانون کی آنکھوں پر پٹیاں ہیں؟اگرچہ ان سوالوں کا اربابِ اقتدار کے پاس کوئی تسلی بخش جواب نہیں مگریہ ناگفتہ بہ صورت حال چیخ چیخ کر بتا رہی ہے کہ ملکی عوام حالات کے رحم وکرم پر ہیں اور جب قانون اُن کی محافظت کا حق ہی ادا نہ کر ے تو اُنہیں جان ومال اور عزت وآبرو کی کون سی ضمانت حاصل ہوگی؟ بالفاظ دیگر عام لوگ ایک ایسی جان گسل فضا سے گزر رہے ہیں جس کا لیکھا جوکھا یہ ہے کہ اگر انسانیت کے باغی بدقماشوں کے ہاتھوں آئین،قانون،تہذیب، شرافت،صداقت اور انسانیت کی مٹی پلید بھی ہو تو بھی ہمارے کرم فرما حکمرانوں کے ماتھے پر کوئی شکن پڑے گی نہ نظم ونسق چلانے والوں کی نیندیں حرام ہوں گی ۔ وجہ یہ ہے کہ حکمرانوں میں احساسِ ذمہ داری کی کوئی رمق بھی باقی نہیں بلکہ ان کے قلب وجگر میںاپنے منصب کی چاہ سے بڑھ کر کوئی اور کعبہ ٔ مقصود بھی نہیں، اُن کا معبود صرف ووٹ بنک ہے جس کی پو جا پاٹھ میں انہیں اپنے چہیتے ووٹروں کی ہر غلطی کا بھونڈادفاع کر ناپڑتا ہے، ان کے ہر گناہ کا جواز تراشنا پڑتا ہے ، ان کی خوشنودی میں ہر قاعدے ضابطے کی گردن مروڑنا پڑتی ہے ۔ نتیجہ صاف ہے کہ عدلیہ عضوئے معطل ہے ، مقننہ مفادات کا غلام ہے ،انتظامیہ مفلوج ہے ۔اس صورت حال میں اگر انسانی جان کی قدرقیمت گھٹ جائے ، اخلاقیات کا جنازہ اُٹھے ، بدیوں اور برائیوں کا بول بالا تو کسی کو کوئی اچنبھا نہیں ہونا چاہیے ۔ اس حقیقت سے انکار کی مجال نہیں کہ گزشتہ کئی برس سے بھارت کی مختلف ریاستوں میں آبروریزیوں کے ساتھ ساتھ ہجومی قتل کے دردناک واقعات بھی مسلسل رونما ہورہے ہیں۔ ان کے چلتے اب خد شہ یہ ظاہر کیا جارہاہے کہ جنونیوں کے ہاتھوں ہجومی تشد د اور بھڑکائی جائے گی کیونکہ پیش آئندہ الیکشن میں متحارب انتخابی پارٹیوں میں باہم دگرگھمسان کا رَن پڑنے کا امکان بڑھ رہا ہے ۔ اس سلسلے کا افسوس ناک پہلو یہ بھی ہے کہ ہجومی ہتھیاؤں کے ذمہ دارمجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانے میں قانون کے رکھوالے اپنے فرائض سے کھلے بندوں آنا کانی کر رہے ہیں۔ جنوینوںکے ہاتھوں ہجومی تشدد کے بارے میں خون کے آنسو رُلا دینے والی جو تفصیلات اب تک میڈیا کی وساطت سے منظر عام پر آچکی ہیں ،وہ یہ بتانے کے لئے کافی ہیں کہ ان میں ملوث وحشیوں میں نہ تکریم ِ بشر کا کوئی تصور پایا جاتا ہے ، نہ انہیں قانون کا ڈر ہے، نہ ان کی کسی رَگ میں جوابدہی یا مواخذے کا احساس موجود ہے ۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ حکومت بھی اس کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت کر تی ہے۔ لہٰذایہ صورت حال ہراعتبار سے طوائف الملوکی کی چغلی کھاتی ہے جو شیطان کی آنت کی طرح بڑھتی ہی جا رہی ہے ۔ واضح رہے کہ پہلے پہل ہجومی قتل کا ہدف زیادہ تر مسلم اقلیت بنائی گئی ۔ چنانچہ اس درندگی کا آغاز داردی اُترپردیش میں اُس وقت کیا گیاجب یہاں کے ایک رہائشی اخلاق احمد پر گئو رکھشکوں کی بھیڑ نے یکایک دھاوا بولا ۔ کالی بھیڑیوں کی یہ بے قابو بھیڑ اخلاق احمد کے گھر کے سامنے جمع ہوئی، اسے گھر سے باہر نکالا اور بلا تکلف اس مظلوم پر ہجوم پل پڑا ، لاتیں مکے مار مار کر جب تک اس کی جان نہ لی ، دم نہ لیا ۔ ہندوتو کے حامی اس قاتل ہجوم کو صرف شک تھا کہ اخلاق احمد کے گھر میں گائے کا گوشت فرج میں ذخیرہ کیا گیا ہے ۔ اس الم ناک واقعہ کا یہ رُخ بھی کتنا دلدوزہے کہ جب اخلاق احمد کو جرم بے گناہی کی سز ادی جارہی تھی اُس وقت مقتول کا ایک بیٹا انڈین ائر فورس میں ملک وقوم کی حفاظت پر مامور تھا؟ اس قتل ناحق کی دھوم مچ گئی تو مسلمان ملک بھر میں خوف زدہ بھی ہوئے اور نفسیاتی طور پسپا بھی۔ آج تک اخلاق احمد کے قاتلوں میں سے کسی ایک کوبھی از رُوئے قانون سزا نہ دی گئی ۔چونکہ نریندرمودی کی وزارت ِعظمیٰ شروع ہوتے ہی گائے کا ذبیحہ ممنوعہ قرار دیا گیا ،اس لئے دنگائیوں ، بلوائیوں اورشر پسندوں کے حوصلے یک بہ یک اتنے بڑھ گئے کہ وہ گائے ماتا بچاؤ کے نام پر چاہے کسی بھی مسلمان پر دھاوا بولیں ، کسی کی بھی جان لیں ، کسی کا بھی زدوکوب کریں، کوئی ان کا بال بیکا نہیں کر سکتا ، خاص کرامن وقانون کے محافظ ان کے سامنے بھیگی بلیاں بنتے ہیں ۔ آج تک اکثر وبیشتر یہی دیکھا گیا کہ جہاں کسی نہتے مسلم شہری کو ہجومی قتل کا ہدف بنایا گیا ، پولیس والے خاموش تماشائی بنے رہے ۔ اس سے ناقدین یہ مطلب نچوڑرہے ہیںکہ اغلب یہی ہے کہ وردی پوشوں کو غیر تحریری ہدایات دی گئی ہیں کہ وہ ان حوالوں سے قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے والوں کو چھوئیں تک نہیں۔ اس حزنیہ کہانی کے کئی ایک کردار پہلو خان، حافظ جنید ، افراز الاسلام ،قاسم ، علیم الدین انصاری وغیر ہ ہیں جن کو جرم بے گناہی کی پاداش میں ایک ہیpattern سے قتل پر آمادہ جنونی ہجوم نے سر راہ پکڑ کر اتنا مارا پیٹا کہ وہ موقع ٔ واردت پر ہی اللہ کو پیارے ہوگئے۔ ان میں مرحوم قاسم کے سنگ دل قاتلوں کے بغیرکسی اور قاتل کو تادم تحریر قانون کی کوئی خوراک نہ پلائی گئی ۔ نوبت بہ ایں جا رسید کہ ایسی غیر انسانی حرکات کے تواتر پر وزیراعظم ہند نے بھی اپنی فکر وتشویش ظاہر کرکے گئو رکھشکوں کی مذموم حرکات کے خلاف قانونی کارروائی کے آدیش دئے بلکہ یہ تک بتایا کہ قتل کی ان وارداتوں میں ملوث لوگوں میں ستر فی صد لوگ بدمعاش ہوتے ہیں جو اپنے غیر قانونی دھندوں کو چھپانے کے لئے اس طرح کی قانون شکن حرکات کی آڑ لیتے ہیں ۔ نیزایوان ِ عدل نے بھی گئو رکھشا کی آڑ میں ان وحشیانہ حرکات پر عدالتی انتباہ جاری کیا مگر اس سب کے باوجود ماورائے عدالت قتل کے یہ بدنما قصے کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی صورت میں رونما ہو کر ملکی قانون اور سماجی انصاف کا مذاق اُڑا تے جارہے ہیں ۔ ہجومی قتل کے اندوہناک واقعات میں ملوث مجرموں کو جلدازجلد قانو ن کے کٹہرے میں لایا جائے تاکہ ان غیر انسانی کا موثر سدباب ممکن ہو ، بصورت دیگر تاریخ ایسے واقعات کی آئندہ بھی عینی گواہ بنتی رہے گی ۔