سپریم کورٹ میں جس وقت چیف جسٹس دیپک مشرا، جسٹس اے ایم کھنولکر اور جسٹس ڈی وائی چندرچوڈ کی بنچ ہجومی تشدد پر اپنا پروچن سنا رہی تھی فرقہ پرست بلوائیوں کا ہجوم سوامی اگنویش کو زدوکوب کررہا تھا ۔ایک دن قبل یہ تشددپسند ہجوم ایک رُکن پارلیمان کے دفتر کی توڑ پھوڑ کر کے اس پر ہندو پاکستان کا بورڈ آویزاں کرچکا تھا ۔ایسے میں چیف جسٹس دیپک مشرا نے کہا کہ ایوانِ پارلیمان ہجومی تشدد کے لئے علیحدہ سے قانون بنانے پر غور کرے۔جسٹس مشرا جی نے ریاستی حکومتوں کو نصیحت کی کہ ہجومی تشدد کو روکنا ان کا فرض ہے۔ کسی بھی شخص کو قانون ہاتھ میں لینے کا اختیار نہیں ہے۔ خوف اور بدنظمی کا ماحول پیدا کرنے والوں کے خلاف ریاست کارروائی کرے۔ تشدد کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔سوامی اگنویش نہ تو حامد انصاری کی طرح مسلمان ہیں اور نہ ششی تھرور کی مانند کانگریسی بلکہ وہ تو آریہ سماج کے دھرم گرو ہیں ۔ ۸۰ ؍سالہ سوامی اگنویش نے ۲۸ ؍سال کی عمر میں کولکاتہ کے لاء اور مینجمنٹ کالج سے پروفیسر کی ملازمت کو تیاگ کر اپنی زندگی سماجی خدمت کے لیے وقف کردی۔ بندھوا مزدوری کے خاتمہ میں ان کی خدمات کو ساری دنیا میں سراہا جاچکا ہے۔ ۱۹۹۴میں انہیں اقوام متحدہ کے عصری غلامی کے انسداد فنڈ کا سربراہ بنایا گیا ۔ آپ کو ۲۰۰۴میں متبادل نوبل انعام (ذریعہ معاش کے حق کا انعام) سے نوازا گیا۔۲۰۰۴ میں ہی وہ عالمی آریہ سماج کے صدر منتخب ہوئے۔ سوامی اگنویش بھی گیروا لباس پہنتے ہیں لیکن ان کے خیال میں’ ’ہمارا اصل مسئلہ غربت اور سماجی و معاشی عدم مساوات ہےجس کی جانب فوری توجہ کی ضرورت ہے‘‘ ۔ سوامی اگنویش کی ثقہ رائے ہے کہ تمام مذاہب کی مشترک اقدار کو نظر انداز کردیا گیا ہے اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے خلاء کو فرقہ پرستانہ سیاست سے پُر کردیا گیا ہے۔ وہ سنگھ کےہمیشہ سے ناقد رہے ہیں ۔ سوامی جی جھارکھنڈ کے پاکوڑ کے تقریب میںگئے تھے۔ وہ جسےد ہی ہوٹل سے نکلے ، بلوائی ان کے خلاف نعرے بازی کرنے لگے اور ان کا گھیراؤ کیا گیا۔ اس دوران حملہ آوروں نے ان کے ساتھ مار پیٹ کی اور گالیاں دیں ۔بعد میں سوامی اگنی ویش اسپتال میں لے جائے گئے۔بلوائیوں کا الزام ہے کہ سوامی جی عیسائی مشنری کے اشارے پر آدیواسیو ں کو بھڑکانے کے لئے پاکوڑ آئے تھے۔سوامی اگنویش نے این ڈی ٹی وی کے نامہ نگار سے کہا کہ وہ امن پسند ہیں اورتشدد کے خلاف ہیں ۔ وہ نہیں جانتے کہ یہ حملہ کیوں کیا گیا؟ اس لیےمعاملے کی جانچ ہونی چاہیے ۔ جہارکھنڈ کے وزیر اعلیٰ رگھوور داس نے معاملے کی جانچ کا حکم بھی دے دیا لیکن ایسی سرکاری تفتیشوں پر سے اب عوام کا اعتماد اٹھ چکا ہے۔ پولیس تفتیش سےعوام کی نظروں میں دھول جھونکنے کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ مدھیہ پردیش کے اندر مندسور کے کسانوں کو گولیوں سے بھون دیا گیا اور تفتیشی کمیٹی نے سارا الزام کسانوں کے سرمنڈھ دیا۔ گورکھپور نے بچوں کی موت کے لیے سرکاری کوتاہی کو کلین چٹ دے دی ،نیز اسپتال کے انتظامیہ کو قصوروار ٹھہرا کر ۹ ؍ڈاکٹروں کو جیل بھیج دیا۔ گجرات میں گھوڑا رکھنے کے سبب ایک دلت کی موت واقع ہوئی تو پولیس تفتیش میں پتہ چلا وہ ذاتی دشمنی کے سبب قتل ہوا ۔ ہاپوڑ میں گئوکشی کی افواہ پھیلانے والی تشدد کی وارادت موٹر سائیکل کا تنازعہ قرار دے دیا گیا۔ ایسے میں جہارکھنڈ کی اس تفتیش سے کیا توقع کی جائے ؟ کوئی بعید نہیں کہ سوامی جی کو ہی الٹاموردِ الزام ٹھہرا دیا جائے۔ قانون کا نفاذ کرنے والا انتظامیہ اگر اس قدر جانب دار ہو تو قانون بنانے کا کیا فائدہ؟
سوامی اگنویش سے قبل کانگریس کے رہنما ششی تھرور کے دفتر پر بی جے پی والوں نے حملہ کردیا ۔ ان کا قصور صرف یہ تھا کہ انہوں نے کہہ دیا اگر مودی دوبارہ منتخب ہوگئے تو ہندوستان ہندو پاکستان بن جائے گا ۔ اس پر تشدد پر آمادہ ہجوم نے ان کےدفتر کو توڑنے پھوڑنے کے بعد اس پر ہندو پاکستان کا بورڈ چسپاں کردیا۔ اس طرح انہوں نے پورے ہندوستان کو نہ سہی کیرالا میں ششی تھرور کے دفتر کو ہندو پاکستان بناکر ان کی پیش گوئی کو سچ ثابت کردی ۔ ہندوستا ن میں عدم رواداری کی شروعات گئوماتا کی عقیدت سے ہوئی اور پھر بچوں سے دکھاوے کی شفقت تک پہنچ گئی۔ ہجومی تشدد کے حالیہ واقعات کے پس پشت بچوں کی ’’چوری‘‘ سے متعلق افواہیں(fake news) کارفرما رہی ہیں ۔ کرناٹک کے بیدر میں گوگل کے اندر کام کرنے والا ایک پیشہ ور انجنیٔر کو ہلاک کر دیا گیا اور اس کے ساتھ ایک قطری شہری بھی تشدد کا شکار ہوا ۔ اس کے سبب یہ’’ نیک نامی‘‘ ساری دنیا میں پھیل گئی لیکن اب تو یہ معاملہ بچے سے آگے بڑھ کرمرغی تک پہنچ گیا ہے۔ کیرالا ہی کے اندر ایک ۲۴ سالہ بنگالی مزدور مانک رائے کو گزشتہ ماہ لوگوں نے مرغی ہاتھ میں لے کرجاتے ہوئے دیکھا تو اس کو مرغ چور سمجھ لیا ۔ بس پھر کیا سارا ہجوم اس پر پل پڑا اور مارپیٹ کرنے لگا۔ کچھ دیر میں وہ شخص بھی وہاں پہنچ گیا جس نے اسے مرغی دی تھی لیکن تب تک بہت دیر ہوچکی تھی۔ مانک رائے کو زخمی حالت میں اسپتال لے جایا گیا اور بعد میں علاج کے بعد وہ گھر بھیج دیا گیا۔ وہ مزدور اس واقعہ کے تین ہفتہ بعد اپنے سر میں لگی اس چوٹ کا علاج کرانے کے لیے جب دوبارہ اسپتال پہنچا تو ڈاکٹروں نے اس کوسی ٹی اسکین کے لیے سرکاری اسپتال روانہ کیا لیکن وہ بے چارہ راستے ہی میں فوت ہوگیا ۔ جس کثیر الثقافت اور کثیر المذہب گنگا جمنی ملک میں انسانی جان کی قیمت ایک مرغی چوری کی افواہ سے بھی کم ہو، اس میں سوامی اگنویش اور ششی تھرور جیسے لوگ کیسے محفوظ رہ سکتے ہیں ؟ ایسے ملک کے بارے میں یہ دعویٰ کہ یہ بہت جلد عالمی رہنما بن جائے گا ،ایک دیوانے کا خواب نہیں تو کیا ہے؟ بقول شاعر؎
دن میں بھی حسرتِ مہتاب لیے پھرتے ہیں
ہائے کیا لوگ ہیں کیا خواب لیے پھرتے ہیں