ملکعزیز کی آزادی اور تقسیم کے ۷۰؍برس بعدبھی ایسا لگتا ہے کہ ہم وہیں کھڑے ہیں۔ذہنی طور پر ہم نے کوئی ترقی نہیں کی ہے۔گزشتہ ۶۰۔۶۵؍ برسوں میں جو نہیں ہوا، وہ سب موجودہ مرکزی سرکار میں دھڑلے سے ہو رہا ہے۔اس کے کاموں اور اسکیموں کی اگر کوئی تنقید کرتا ہے تو مودی بھگت اسے غدارِ وطن شمار کرتے ہیں۔اسے ڈراتے دھمکاتے ہیں،مارتے پیٹتے ہیں۔اس سے بھی بات نہیں بنتی تو قتل تک کروا دیتے ہیں۔دابھولکر،پانسرے ،کلبرگی اورگوری لنکیش کی مثالیں سامنے ہیں ۔اس کے علاوہ بھی سیکولردانشوروں اور بے باک صحافیوں کو آئے دن دھمکیاں ملتی رہتی ہیں۔گائے کے نام پر جو غنڈہ گردی اور قتل و غارت گری بڑھتی جارہی ہے اسے پوری دنیا دیکھ رہی ہے ۔جو سلسلہ دادری کے محمد اخلاق کے گھرمیں گھس کر گائے کا گوشت رکھنے کے شبہ میںقتل سے چلا تھا ،اس میں جدید اضافہ راجستھان کا ہجومی قتل ہے ۔ اب تک پچاسوں لوگ اسی ذریعے مارے جا چکے ہیں۔اب بچہ چوری کے بہانے معصوم لوگوں کی زندگیاںختم کی جارہی ہیں اور یہ سب ہجومی تشدد کے ذریعے ہی ہو رہا ہے۔جان و مال قطعی محفوظ نہیں رہ گیا ہے اور وہ دن دور نہیں کہ ملک میں انارکی پھیل جائے۔یہ سب کس کے لئے ہورہا ہے؟کیوں ہو رہا ہے؟کیایہ بتانے کی ضرورت ہے؟
مودی کی کابینہ میںجینت سنہا ایک پڑھے لکھے وزیر مانے جاتے ہیں اور لائق باپ یشونت سنہا کے بیٹے ہیں۔باپ نے ہارورڈیونیورسٹی سے تعلیم دلوائی تاکہ بیٹاایک صالح فکر رکھنے والا انسان بن سکے۔شاید تھا بھی صالح فکر والا لیکن موجودہ’ مودی سیٹ اَپ‘ میںان کا یہ خواب پورا نہیں ہو سکا۔باپ نے تو بی جے پی سے رشتہ اب توڑ لیا ہے لیکن بیٹے کی ایسی کون سی مجبوری ہے کہ وہ نہ صرف پارٹی میں موجود ہے ،وزیر ہے بلکہ مزید پینگیں بڑھا رہا ہے۔اُسے یہ ادراک ہو گیا ہے کہ یہی سب کر کے الیکشن جیتا جا سکتا ہے جو گزشتہ دنوں اس نے انجام دیا ہے۔جب رانچی ہائی کورٹ سے ہجومی تشدد کے ملزمان کو ضمانت ملتی ہے(توکورٹ کااحاطہ جے شری رام کے نعروں سے گونج اُٹھتا ہے) اس کے بعد انہیں اپنے گھر بلا کر انہیں پھول مالا پہناتا ہے اور مٹھائی کے ڈبّے انہیں دیتا ہے۔وہ بی جے پی ہائی کمان بمعنیٔ دیگر مودی اور امیت شاہ کی خوشنودی حاصل کرنا چاہتا ہے تاکہ اگلے ٹرم کیلئے اسے ہزاری باغ سے پھر سے ٹکٹ مل جائے اور اپنی ایم پی (لوک سبھا) کی سیٹ وہ جیت سکے۔ہارورڈ کا تعلیم یافتہ شخص ایسا کرتا ہے!ہے نا،حیرانی اور شرمندگی کی بات!چاروں طرف سے مذمت ہونے کے بعد ویسے جینت سنہا نے اپنی اِس کارکردگی پرپشیمانی کا اظہار کیا لیکن یشونت سنہا نے یہ کہہ کر کہ ’’نالائق باپ کا لائق بیٹا تو سنا تھا ،یہ لائق باپ کا نالائق بیٹا ہے‘‘ اُس کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کی کوشش کی ہے لیکن یہ کوشش ناکام لگتی ہے کیونکہ بی جے پی کے لئے اسی طرح کی حرکتیں اُس کی ’’روزی‘‘(چارہ) ہیں اور کوئی بھی اپنی روزی کو بالائے طاق نہیں رکھ سکتا۔
اسی طرح کا ایک اور واقعہ مودی کابینہ کے ایک اور وزیرگری راج سنگھ نے انجام دیا ہے۔ویسے یہ وہی گری راج سنگھ ہیں جواپنے اشتعال انگیز بیان کے لئے بدنام ہیں اور ان کی شناخت تمام کی تمام مسلم دشمنی پر قائم ہے۔یہ بار بار مسلمانوں کو پاکستان بھیجنے کی بات کرتے ہیں۔یہ ہجومی تشدد کے الزام میں قید ملزموں سے جیل میں جا کر ملتے ہیںاور انہیں عزت اور وقار بخشتے ہیں۔گاؤں والوں سے کہتے ہیں کہ اِن کا کچھ نہیں بگڑے گا اور یہ تمام چھوٹ کر آجائیں گے۔جب مودی کی کابینہ کے وزرا ہی ہجومی تشدد انجام دینے والوں کی حوصلہ افزائی کریں تو اسی سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ملک کس جانب رواں دواں ہے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ مودی اِن واردات کا کوئی نوٹس نہیں لیتے بلکہ اپنے لوگوں کو کھُلا چھوڑ دیتے ہیں تاکہ وہ جو چاہیں کریں۔گزشتہ دنوں یوپی کے باغپت ضلع کے ایک جیل کے اندر ایک ملزم کا دن دہاڑے قتل کر دیا جاتا ہے۔یوپی ہی میں ایک برس کے اندر ہزاروں کی تعداد میں انکاؤنٹر ہوئے ہیں اور ہنوز جاری ہیں ۔خواتین کے خلاف تشدد اور ریپ کی وارداتیں جس تناسب میں یوگی کے وزیر اعلیٰ بننے کے بعدیوپی میں بڑھی ہیں ،اس کی مثال دنیا بھر میں نہیں ملتی اور جہاں جہاں بھی بی جے پی کی حکومت ہے وہاںلِنچنگ(ہجومی تشدد) اور رجنسی تشددکے معاملات سامنے آرہے ہیں ۔
یہ سب دیکھتے ہوئے کانگریس کے ایک دانشور لیڈر ششی تھرورجب یہ کہتے ہیں کہ ’’اگر ۲۰۱۹ء کے عام چناؤ میں بی جے پی پھر سے اقتدار میں آتی ہے تو اسے ’’ہندو پاکستان‘‘ بننے سے نہیں روکا جا سکتا‘‘ ، بی جے پی کا آگ بگولہ ہونا فطری تھا،ساتھ ہی ملک کا مین اسٹریم میڈیا اس اصطلاح کو لے اُڑا اور دن رات اسی ’’ہندو پاکستان‘ ‘پر چرچا کرنے لگا۔ششی تھرور نے بعد میں یہ بھی کہا کہ ہندوستان ایک ایسا ملک ہے جہاں مختلف مذاہب کے ماننے والے رہتے ہیں ،یہ پاکستان کی طرح نہیں ہے جہاں ایک ہی مذہب کے لوگ رہتے ہوں۔اِس تناظر میں پاکستان میں جو کچھ بھی آج تک دیکھنے کو ملتا ہے وہ ایک طرح سے مذہبی شدت پسندی کیبالا دستی کی وجہ سے ہے اور بی جے پی اور اس کی سرپرست تنظیم آر ایس ایس ویسا ہی چاہتی ہے جس انداز سے ملک میں واردات انجام دئیے جا رہے ہیں۔بی جے پی صرف ہندوؤ ں کا ہندوستان بنانا چاہتی ہے جس میں دوسروں بالخصوص مسلمانوں کا گزر نہیں۔اگرچہ یہ بات ’سب کا ساتھ‘ کا کرتی ہے لیکن اس کی نیت میں کھوٹ ہے۔یہ مسلمانوں کو دیوار سے لگانا چاہتی ہے بلکہ بہت حد تک لگا بھی دیا ہے۔ان کے خاص خاص کاروبار کو برباد کر دیا ہے اور مسلمان لِنچنگ کی وجہ سے خود کو غیر محفوظ سمجھنے لگے ہیں۔
یہ باتیں ہندوستان بھر میں چل ہی رہی تھیں اور انہی کے بیچ سپریم کورٹ لِنچنگ سے متعلق فیصلہ سنانے والا تھا،ٹھیک اسی روز جھارکھنڈ میں سوامی اگنیویش کے ساتھ مار پیٹ اور لِنچنگ جیسی واردات انجام دی گئی اور بی جے پی کا صوبائی صدر اور ایک مرکزی وزیر پریس کے سامنے آکر بیان دیتے ہیں کہ جو کچھ بھی سوامی کے ساتھ ہوا وہ اچھا ہوا،سوامی بھگوا لباس میں ہندوؤں کا دشمن ہے،اسے تو اس سے بھی سخت طریقے سے ذلیل کرنا چاہئے تھا وغیرہ وغیرہ۔اس کی مذمت نہیں کی جاتی ،نہ ہی وزیر اعظم کی جانب سے اور نہ ہی وزارت داخلہ کی طرف سے۔مودی چھوٹی چھوٹی بات پر ٹویٹ کرنے کے عادی ہیں ۔ان کے نزدیک اس طرح کی واردات کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔دراصل پی ایم مودی اور بی جے پی کیلئے یہ واردات (وہی)چارہ کا کام کرتے ہیں اور یہ سب ان کی روزی ہیں۔
اورابھی حال ہی میں کٹھوعہ ریپ کیس میں ملوث ملزمان کا دفاع کرنے والے وکیل کو جموں میں سرکاری وکیل بنا دیا گیاہے۔اِس سے کیا سگنل دینا چاہتی ہے بی جے پی؟آج چونکہ جموں کشمیر میں گورنر کی حکومت ہے اور ایسی تقرریاں گورنر ہی کرتا ہے اور گورنر جو کچھ کرتا ہے وہ مرکزی حکومت کے مشورے بلکہ ایما پر کرتا ہے۔اِس کا سیدھا مطلب ہے کہ مودی جی کے کہنے سے ایسا ہوا ہوگا۔کیا ایسا ممکن ہے کہ یہ بات ان کے علم میں نہ ہو؟بی جے پی اور پی ڈی پی کی اتحاد والی حکومت سے بی جے پی کی اپنی حمایت واپس لینے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کیونکہ بی جے پی کے ۲؍وزیروں نے جنسی زیادتی کے ملزموں کی حمایت میں نکلے جلوس کی قیادت کی تھی اور’ بھارت ماتا کی جے ‘کے نعرے بھی لگائے تھے ۔اس سے پہلے بھی گجرات میں فسادات میں ملوث افسران کو مودی جی نے ان کے عہدوں میں ترقی دی تھی یعنی ملزمان کو نوازنا ان کی پرانی عادت ہے۔ اِن سب واقعات سے کیا یہ نہیں لگتا کہ بی جے پی ملزموں کی حمایت کرنے والی پارٹی ہے؟کیااِس طرح سرکاری وکیل بناکر مودی جی جنسی تشدد کوبڑھاوانہیں دے رہے ہیں؟
ششی تھرور نے جو کہا ہے وہ بالکل صحیح ہے۔خدانخواستہ بی جے پی اگر ۲۰۱۹ء میں ملکی اقتدار میں آجاتی ہے تو گنگا جمنی تہذیب کادلداہ ملک’’ہندو پاکستان ‘ ‘بننے سے روکا نہیں جا سکتا اور ممکن ہے کہ یہاں خانہ جنگی ہو جائے کیونکہ جو بھی ایجنڈے آر ایس ایس کے ہیں،اسے بی جے پی بصد شوق پورا کرے گی اور جمہوریت اور آئین کی دھجیاں اُڑ جائیں گی۔اس کے نزدیک سیکولر ازم کی کوئی اہمیت نہیںہے۔حد ہے کہ ’’ہندو پاکستان‘‘ والی بات پر ششی تھرور پر مقدمہ درج ہو جاتا ہے اور امیت شاہ بہار کے اسمبلی الیکشن کے وقت جب یہ کہتے ہیں کہ اگر بی جے پی کی بہار میں شکست ہوتی ہے تو پاکستان میں پٹاخے پھوڑے جائیں گے،تواس پر نہ کوئی پکڑ ہوتی ہے اور نہ ہی کوئی مقدمہ درج ہوتا ہے۔
نوٹ :مضمون نگار ماہنامہ تحریرِ نو، نئی ممبئی کے مدیر ہیں
رابطہ9833999883