جشن کا موقع ہو یا احتجاج کا ،جموں میں ہتھیاروں کی نمائش ایک معمول بنتاجارہاہے، جس سے اقلیتی طبقہ میںزبردست تشویش پائی جارہی ہے ۔پچھلے کچھ عرصہ سے دائیں بازو کی جماعتوں اور انکے طفیلوں کی طرف سے موقع بے موقع کھلے عام ہتھیاروں کی نمائش کرنا ایک روز مرہ کی صورت اختیار کرتا جا رہا ہے، جس پر وقت وقت پہ سنجیدہ فکر سماجی حلقوں کی جانب سے تشویش کا اظہار کیا جارہا ہے، لیکن تازہ واقع سے ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ اسکے پس پردہ اُن لوگوں کو خوف زدہ کرنے کے ارادے ہیں، جو ان عناصر کے فکر ونظر سےمطابقت نہیں رکھتے۔ ان تنظیموں کی جانب سے نہ صرف تقاریب میں تیز دھار والے ہتھیاروں کی نمائش کی جاتی ہے بکہ اس کےلئے باضابطہ طو رپر نوجوان لڑکوں کوہی نہیں بلکہ لڑکیوں کو بھی تربیت دینے کا سلسلہ جاری ہے۔ ان تنظیموں کی طرف سے آتشیں اسلحہ اور دیگر ہتھیار چلانے کے لئے باضابطہ پروگرام منعقد ہوتے ہیں جس سے نہ صرف فرقہ وارانہ سطح پر اشتعال پید اکرنے کی کوشش کی جارہی ہے بلکہ یہ لوگوں کو ہراساں کرنے کا عمل ہے۔ سنیچر کے روز ریاست کے سابق مہاراجہ ہری سنگھ کے یوم پیدائش پر مختلف تنظیموں کی جانب سے جموں میں کئی ریلیوں کا بندوبست کیا گیا۔ جس میںآنجہانی مہاراجہ کو خراج عقیدت پیش کیا گیا۔ جموں کی متعدد تنظیموں کی طرف سے اس دن کی مناسبت سے حکومت سے سرکاری تعطیل کا اعلان کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا، جس پر مخلوط حکومت نے کوئی توجہ نہیں دی۔ چنانچہ اسی وجہ سے ان گروپوں میں زبردست غم و غصہ پایا گیا، حتاکہ ایک تقریب میں نائب وزیراعلیٰ کو بھی انکے غیض و غضب کا شکار ہونا پڑا۔ راجپوت سبھا اور ٹیم جموں کی جانب سے نکالی گئی ان ریلیوں میں شریک نوجوانوں نے بطور احتجاج سیاہ رنگ کی قمیضیں پہن رکھی تھیں۔ یہاں تک تو سب ٹھیک تھا،کیونکہ احتجاج کرنا ہر ایک کا حق ہے۔ لیکن گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں پر سوار نوجوانوں کی جانب سے بندوقوں، پستولوں ، تلواروں اور خنجروں کی کھلم کھلا نمائش کرکے شہر میں لوگوں کو کیا پیغام دیا جا رہا تھا، اس پر سنجیدگی کے ساتھ غور کرنے کی ضرورت ہے۔ اہم شخصیات کے جنم دن منانے کی روایت کوئی نئی بات نہیں ہے، لیکن اسلحہ کی نمائش کرنا نہ کہیں دیکھنے میں آیاہے اور نہ ہی سننے میں۔ یہاں ایسا کیوں ہو رہاہے؟ کیا کسی طبقے کو خوف و دہشت کا شکار کرنے کی کھلم کھلا کوشش کی جارہی ہے، یا پھر کسی بڑے فساد کی تیار ہو رہی ہے۔ ان سوالوں کےلئے حکومت عوام کے سامنے جواب دہ ہے۔ ماضی میں بھی ایسے واقعات پیش آئے ہیں لیکن انتظامیہ نے کسی سے کوئی جواب طلب نہیں کیا ۔ عوامی مقامات پر ہتھیاروں کی نمائش اور وہ بھی جارحانہ انداز میں قانون کی سریحی خلاف ورزی ہے، لیکن انتظامی ادارے ایسے عناصر اور ایسے اداروں کےخلاف خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔عوامی حلقوں کے ذہنوں میں یہ سوال اٹھتا ہے کہکہیں حکومتی حلقوں کے اندر ایسے عناصرتو نہیں جو خاموشی کے ساتھ یہ سب آگے بڑھانے میں تعاون فراہم کر رہے ہیں۔امن وامان کے حوالے سے جموںاور اطراف و اکناف کے اضلاع بہت زیادہ حساس ہیں جہاں انتظامیہ یا پولیس کی معمولی سی کوتاہی بھی حالات کی خرابی سبب بنتی ہے ۔ماضی میں بہت بار ایسا دیکھاگیاہے جب فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو نقصان پہنچا نے کی کوشش کی گئی اور فرقہ پرست عناصر نے مسلم آبادی کو خوف و حراس میں مبتلاءکر دیا ۔امن و قانون کی صورتحال پر قابو رکھنا حکومت کافرض ہے لیکن نہ جانے وی ایچ پی ، آر ایس ایس اوراس قبیل کی دیگر جماعتوںکی خلاف قانون سرگرمیوں کے سامنے انتظامیہ کی گھگھی کیوں بندھ جاتی ہے۔ انہیں ایسی گرمیاں جاری رکھنے کی اجازت کیسے دی جاتی ہے ۔ حالانکہ علاقے میں مقامی نوعیت کا ایسا کوئی بھی خطرہ درپیش نہیں جس کو دیکھتے ہوئے ایسے اشتعال انگیز اقدامات کا جواز بنتا ہو۔ فی الوقت روہنگیائی مہاجرین پر ملک بھر میں ماحول کو مشتعل کرنے کی کوشش ہو رہی ہیں اور مرکزی سرکار کے اکابرین کے بیانات سے اسکو انگیخت بھی مل رہی ہے اور مختلف حلقوں کی جانب سے ہندوستانی مسلمانوں کےخلاف مستقبل میں ایسے خطرات کا اظہار کیا جارہا ہے، جو روہنگیائی مسلمانوں کو درپیش ہیں۔ ایسے حالات میں حکومت کو اپنی خاموشی توڑتے ہوئے اس طرح سے کھلے عام ہتھیاروں کی نمائش کرنے والے عناصر کو کڑا جواب دینا چاہئے اور ایسے لوگوں کےخلاف قانونی کاروائی عمل میں لائی جانی چاہئے جو غیر قانونی طریقوں سے ہتھیاروں کی نمائش کرتے ہیں یا ہتھیاروں کی تربیت کا اہتمام کر رہے ہیں۔ ایسے کسی بھی اقدام کے فروغ پر قدغن لگا ئی جانی چاہئے جس سے دوسرے مذاہب و مکاتب کے ماننے والوں پر خوف طاری ہو۔