غوثیہ خان
آج بھی میں تیز رفتار کار چلا رہی تھی۔ ابا کے انتقال کے بعد میرے حصے میں کچھ خزانے آئے تھے جن میں کچھ قرض اور اسپتال کے بل اور ابا کی پرانی کار۔ سردی کی وجہ سے سڑک پر کہیں کہیں کوئی راہگیر نظر آ جاتا تھا۔ شام گہری ہو چلی تھی، سرد موسم میں جی کرتا ہے کہ گرم کافی کی چسکیاں لیتے ہوئے لحاف میں دبکے رہیں لیکن قسمت میں یہ سکون کہاں، میں آج بھی دفتر سے دیر سے نکل پائی تھی، ماما کا بار بار کال آ رہا تھا، میں نے ڈرائیو کرتے ہوئے ان سے بات کی…
”السلام علیکم جی ماما، میں آپ کی دوائیاں لیتی آؤں گی۔”
انہوں نے کہا، ”آج دوائیاں رہنے دو بیٹا، تمہیں دیکھنے کچھ لوگ آ رہے ہیں، گھر جلدی آ جاؤ اور تھوڑا بہت ناشتے کا سامان لیتی آنا۔”
میں نے غصے میں بغیر خدا حافظ کئے کال کاٹ دیا۔ روزانہ کوئی نہ کوئی آ دھمکتا تھا، اب تک نہ جانے کتنی رقم ان لوگوں کے ناشتے پہ برباد ہو چکی ہے اور کوئی کام ہی نہیں، گھر گھر گھومتے پھرتے ہیں لڑکیاں دیکھنے کے بہانے سے، فضول لوگ۔
لیکن آج پھر میں دیر سے جا کر ماما کی نافرمانی کرنے والی تھی، ہمیشہ کی طرح آج بھی وہی ناٹک جو پچھلے دو برس میں کئی بار کھیلا جا چکا تھا۔ ناٹک کے کردار ہر دفعہ بدل جاتے تھے لیکن مرکزی کردار ایک ہی ہوتا تھا۔ یعنی میں۔ دیکھتے ہیں آج کیا ہوتا ہے۔
گھر کے ڈرائنگ روم میں مہمانوں کے بیٹھنے کا انتظام تھا، شانتابائی نے سندھی کڑھائی اور پلکاری سے سجی چادریں اور صوفے کے کَور لگا دیئے تھے۔ دادا جان کی شیروانی والی تصویر کی دھول صاف کر دی گئی تھی۔ سب کی سب ترتیب اور انتظام ماما کے مطابق کر دیا گیا تھا۔ وہ سوچتی تھیں کہ خاندان، شان اور شوکت کا شادی بیاہ کے معاملے میں بڑا دخل ہوتا ہے لہٰذا بکھرے ہوئے اور شکستہ حال خاندان کو مہمانوں کے سامنے سجا سنوار کر پیش کرنا تھا۔
لڑکا دبئی میں رہتا تھا۔ شادی کے بعد بیوی کو بھی ساتھ لے جائے گا، ایسا بھی بتایا گیا تھا۔ اگلے روز خبر بھی آ گئی تھی کہ انہیں لڑکی پسند ہے۔ لیکن لڑکا، جس کا نام شاہور تھا، مجھ سے ملنا چاہتا تھا۔ گھر والوں نے جھٹ سے ہاں کر دی اور ماما نے آج صبح دفتر جاتے وقت حکم دے دیا کہ شام کو شاہور سے مل لینا، اس سے فون پہ بات بھی کر لینا۔
وہ مجھ سے پہلے اس جگہ پہنچ چکا تھا جہاں اس نے مجھے ملنے کیلئے بلایا تھا۔ دیکھنے میں سادہ سی شخصیت کا مالک تھا۔ میں اس کے سامنے میز پہ بیٹھی تھی۔ باتوں کا سلسلہ جاری تھا، اس نے بتایا کہ وہ ایک ہوٹل میں شیف ہے، مزے مزے کے کھانے بناتا ہے، ویک اینڈ میں کچھ پارٹ ٹائم کام بھی کرتا ہے۔ اب تو روز باتیں ہونے لگیں، کئی بار دیر رات اس کا کال آ جاتا۔ یہی سوچ کر اس سے بات کر لیتی کہ اگر یہ رشتہ بھی ہاتھ سے گیا تو اٹھتے بیٹھتے ماما مجھے خوب کھری کھوٹی سنائیں گی کہ کیسی بدنصیب لڑکی ہے، ساری زندگی کنواری ہی بیٹھی رہے گی۔
آج باتوں کے دوران شاہور نے ایک فرمائش کر ڈالی۔ وہ دبئی جانے سے پہلے ایک شام میرے ساتھ گزارنا چاہتا تھا۔ میں بھی چاہتی تھی کہ کچھ دیر اس کے ساتھ وقت گزاروں، اس سے باتیں کروں۔ مجھے اچھا لگنے لگا تھا، میں خوش تھی، اس کے ساتھ آنے والی زندگی کے خواب سجانے لگی تھی۔
آج میں اس سے پہلے اس خوبصورت جگہ پہنچ چکی تھی، وہی ریسٹورنٹ جہاں ہم پہلی دفعہ ملے تھے۔ سرمئی شلوار قمیض میں ملبوس وہ دل فریب معلوم دے رہا تھا۔ ہم ڈنر کر چکے تھے، رات گہری ہوتی جا رہی تھی۔ ہلکا سا میوزک فضا کو اور رومانوی بنا رہا تھا۔ شاہور کی نظریں میرے چہرے سے نہیں ہٹ رہی تھیں اور اس کی نظروں کی تپش سے میرے عارض زرد ہوتے جا رہے تھے۔ میں نے گھبراتے ہوئے کہا کہ اب مجھے گھر جانا چاہیے، بہت دیر ہو رہی ہے۔ اس نے میرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا اور مجھے بانہوں میں بھرنے کی کوشش کرنے لگا۔ تھوڑی دیر میں نے یہ سب برداشت کیا، میں نہیں چاہتی تھی کہ کئی رشتوں کے بعد کوئی ایک ڈھنگ کا رشتہ آیا تھا، میری کسی حرکت کی وجہ سے وہ بھی ختم ہو جائے۔ لیکن شاہور بھوکے بھیڑئیے کی طرح مجھے بانہوں میں کستا جا رہا تھا، اس کے ہاتھ میرے جسم پہ رقص کر رہے تھے اور یہ سب میری برداشت کے باہر تھا۔ میں نے خود کو پیچھے کھینچتے ہوئے کہا، ”ابھی یہ سب نہیں، ابھی ہماری شادی نہیں ہوئی ہے۔”
اس نے ایک جھٹکے سے مجھے دور ہٹا دیا۔ غصے سے مجھے دیکھتے ہوئے کہا، ”یار یہ سب تو آج کل عام ہے، تم نے میرا موڑ خراب کر دیا۔ ایک دو بار قریب آنے سے کچھ نہیں بگڑتا، پھر تو ہمیں زندگی بھر ساتھ ہی رہنا ہے، مجھے معلوم بھی تو ہو کہ تم کتنی ہارنی ہو، تم کس دنیا میں جیتی ہو یار، تمہیں کچھ نہیں معلوم، حد ہے یار تم نے مجھے ایک کس بھی نہیں کرنے دی۔ میں پوری زندگی اس لڑکی کے ساتھ کیسے گزار سکتا ہوں جس کے بارے میں مجھے پتہ ہی نہ ہو کہ وہ میری جسمانی ضرورت پوری کر بھی پائے گی یا نہیں؟”
ہارنی… میں حیران تھی اس عجیب سے لفظ کو سن کر، میرا چہرہ سفید پڑ چکا تھا۔ میں 35 سال کی لڑکی آج تک اس طرح کا لفظ ہارنی نہ پڑھا تھا اور نہ ہی سنا۔ لیکن سمجھنے میں دیر نہ لگی، میں نے جھینپتے ہوئے کہا، ”اس سب کی جلدی کیا ہے، یہ سب بھی ہو جائے گا وقت آنے پر۔”
لیکن وہ میری باتوں پر دھیان دیئے بغیر غصے میں بولتا جا رہا تھا، ”تم تو اولڈ فیشن ہو یار، تم سے تو اچھی میری فرینڈز ہیں جو اپنی ضرورت اور ہماری نیڈ بھی پوری کرتی ہیں اور مست بھی رہتی ہیں، تم کس دنیا کی ہو، بوڑھی ہو گئی ہو، بالکل کولڈ۔”
یہ سب کہتے ہوئے شاہور نے دوبارہ میرا ہاتھ زور سے پکڑ لیا اور بولا، ”یار، میں نے دو گھنٹوں کے لیے یہاں روم بک کیا ہے، چلو نا ہم کچھ دیر سکون سے محبت کی باتیں کریں گے۔”
میری برداشت ختم ہو چکی تھی، میں نے اپنا ہاتھ چھڑاتے ہوئے اسے زوردار تھپڑ رسید کیا اور کہا، ”تو کیا مجھے ہارنی ہونے کا سرٹیفیکیٹ دینا ہوگا کہ میں تمہاری نیڈز پوری کر پاؤں گی یا نہیں؟ تمہارے پاس تمہاری گرل فرینڈز کی لمبی فہرست ہے جو تمہاری نیڈ پوری کرتی ہیں، تو شادی کی کیا ضرورت ہے؟ جاؤ ان کے پاس، مجھے تم جیسے شخص کی ضرورت نہیں ہے۔” کہتے ہوئے میں تیز قدموں سے وہاں سے نکل آئی۔
���
ہارنی (horny) لفظ استعمال ہوتا ہے تاکہ طاقتور جنسی خواہش یا اشتہار کی حالت کو ظاہر کیا جائے۔ یہ ایک غیر رسمی لفظ ہے جو عام طور پر جنسی بھوک یا جنسی سرگرمی کی خواہش کو بیان کرنے کے لئے استعمال ہوتا ہے۔
<[email protected]