پانچ ریاستوں کے اسمبلی نتائج سامنے آنے کے بعد کئی ماہ سے چلی آ رہی قیاس آرائیوں اور تبصروں کادور تھم چکا ہے ۔ رائے دہی کے استعمال سے قبل پانچ صوبوں کے الیکشن کو ۲۰۱۹کے سیمی فائنل کے طور پر دیکھا جا رہا تھا۔یہ بات زبان زد عام تھی کہ جس پارٹی نے یہاں بازی مارلی، اس کے لیے دوہزار انیس کے میدان میں کھیلنا آسان ہوگا۔ الیکشن سے قبل وزیراعظم مودی کے تئیں میڈیا ہواکھڑی کر رہا تھا کہ وزیراعظم ایک کرشماتی شخصیت ہیں جن سے مقابلہ کوئی آسان کام نہیں ہے ۔ دوہزار چودہ کے بعد سے جس طرح سے بی جے پی کو پے درپے کامیابی ملی ،اس سے بی جے پی کے علاوہ عام لوگوں میں یہ تاثر راسخ ہوگیا تھا کہ وزیر اعظم مودی کی موجودگی میں بی جے پی ایک ناقابل تسخیر پارٹی بنی رہے گی ، لیکن پانچ صوبوں کے انتخابی نتائج نے جہاں ساڑھے چار سال میں پے درپے شکت سے لرکھڑاتی کانگریس میں ایک نئی توانی لائی،اسے حوصلہ دیا ، وہیں بی جے پی کا وہ بھرم ہوا میں تحلیل ہوا کہ مودی جی جادوئی شخصیت ہیں ۔ انہیں ایک قلعے کے طور پیش کر نے والا گودی میڈیا اب قدرے خاموش ہے۔ یہ ا س بات کی دلیل ہے کہ اس کی خوش فہمیاں عوام مسترد کر نے کی طاقت رکھتے ہیں ۔
پانچ ریاستوں میں بھاجپا کی خراب کارکردگی کا اصل سبب حکمران پارٹی کی غلط پالیسیاں ہیں ۔ مہنگائی ، بے روزگاری ، لوگوں میں عدم تحفظ ، غنڈہ گردی۔ ہجومی ہلاکتیں ، روشن خیال طبقات کی حکومت کے تئیں مایوسی ، نوٹ بندی اورجی ایس ٹی جیسی چیزوں کے علاوہ عوام الناس میں بے چینی اور کسانوں میں حکومت کے خلاف ناراضگی جلتی پر تیل کاکام دے گئی، جب کہ اقلیتوں میں سنگھ مخالف رجحانات سے الیکشن میں پانسہ پلٹا اور لوگوں میں تبدیلی کی خواہش کا بھر پور مظاہرہ ہو ا۔ اس سے قبل راجستھان اور مدھیہ پردیش میں مبصرین اور ایگزٹ پول کے مطابق صرف راجستھان کو بی جے پی کے ہاتھ سے نکلتا اور کانگریس کی نمایاں فرق کے ساتھ واپسی کی اُمیدیں ظاہر کر رہی تھی کہ ملک کا سیاسی سماں بدلنے والا ہے۔ اُدھر مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ میں بی جے پی اور کانگریس کے درمیان کانٹے کی ٹکر کے امکانات ظاہر کئے جارہے تھے اور وہاں بھی ہوا بدلی ہوئی ۔ میزورام اور تلنگانہ میں علاقائی پارٹیوں کی کامیابی سے صاف نظر آرہا تھا کہ قومی پارٹیوں کا سحر ووٹروں پرہمیشہ نہیں چل سکتا ۔ یہی نتائج اکثروبیشتر ایگزیٹ پول نے دکھلائے تھے۔ ایگزیٹ پول کے بعد وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ (جن کے تحت خفیہ ایجنسیاں کام کرتی ہیں) نے بیان دیا تھاکہ ان نتیجوں کو سیمی فائنل کے طور پر نہ دیکھا جائے۔ا س سے بھی معاملے کچھ حد تک صاف ہوگیا تھا کہ بی جے پی کی ہوا اُکھڑنے والی ہے۔میزوروم، تلنگانہ اور مدھیہ پردیش کے نتائج ایگزیٹ پول کے مطابق نظر آئے۔ راجستھان میں کانگریس کو جیسی کامیابی ملنے کی توقع تھی، ویسی کارکردگی کانگریس نہ دکھلا سکی ، پھر بھی حکومت سازی کے لئے آنکھڑے چھونے میں یہ جوں توں کامیاب رہی۔چھتیس گڑھ میں جس طرح دونوں پارٹیوں کے درمیان کانٹے کی ٹکر دکھلائی گئی تھی، اس کے برخلاف یہاں کانگریس نے زبرست کامیابی کا مظاہرہ کرتے ہوے ۶٨سیٹیں حاصل کیں اور بی جے پی کو محض ۱۵سیٹوں کے ساتھ اپنی پندرہ سالہ حکومت سے بے دخل ہونا پڑا۔ یقینی طور پر مدھیہ پردیش میں دونوں پارٹیوں کے درمیان اخیر وقت زبرست اُتار چڑھاؤ دیکھاگیا، لیکن یہاں بھی چند سیٹوں کے فرق کے ساتھ کانگریس کو کامیابی ملی اور بی جے پی کی پندرہ سالہ حکومت کا خاتمہ بالخیر ہوا۔
انتخابی نتائج کو اگر مودی حکومت کے خلاف عوامی ریفرنڈم کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔کم ازکم ان سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ مودی کا جو طلسم تھا وہ ضرور ٹوٹ کر رہا اوربی جے پی جو ہمیشہ خود کو ہر جگہ فاتح اور ناقابل تسخیر سمجھنے کی غلطی کر رہی تھی وہ محض اس کا پر وپگنڈ اتھا۔ ایک موقع پر عوامی بیزاری کا نوٹس لینے کے بجائے بے جا خود اعتمادی کے شکار بی جے پی صدر امیت شاہ نے یہاں تک کہاتھا کہ ہماری یہ حکومت محض پانچ سالہ نہیں بلکہ پچاس سال کے لیے ہے، لیکن محض ساڑھے چار سالہ دور حکومت میں اپنی ناعاقبت اندیشیوں اور غلط پالیسیوں کی وجہ سے سیمی فائنل کہلا نے والے اس چناوی مقابلے میں یہ پارٹی چارو ں شانے چت ہوگئی۔ دوہزار چودہ میں بی جے پی کو عوام کا منڈیٹ سب کا ساتھ سب کا وکاس ، خوشی کے دن آئے، ہر کاؤنٹ میں پندرہ لاکھ روپے، ترقی کے دعوے، بے روزگاری کے خاتمے، کسانوں کی قرضہ معافی جیسے سنہرے سپنوں کی وجہ سے ملا تھا ۔ ان سنہرے خوابوں کے علاوہ اگرچہ اکثریتی طبقہ کے جذبات سے کھلواڑ کرتے ہوئے رام مندر کی تعمیر کے کو بھی اُچھالاگیا تھا، لیکن عوام نے بھاجپا کو محض روزی روٹی ،ا من شانتی ،ترقی اور تبدیلی کے نام پر ووٹ دیا تھا مگر حکمران ٹولہ عوام سے کئے گئے وعدوں کو پورا کرنے کے بجائے ہمیشہ غیر ضروری مدعوں کو اُچھال اُچھال کر ملک میں بے چینی، بدامنی ،بے روزگاری اور فرقہ پرستی کو ہوادیتا رہا ۔
اب جب کہ دوہزا اُنیس کا الیکشن سر پر ہے اور مدھیہ پردیش راجستھان اور چھتیس گڑھ ہندی بیلٹ ہونے کے ساتھ ساتھ ملک کے نقشہ میں بالکل سنٹر میں ہیں، اسی لئے ان ریاستوں کو عام انتخابات میں فیصلہ کن فیکٹر ماناجاتا ہےا س لئے بی جے پی نے اس خیال سے کہ اس کا پچاس سالہ حکومت کرنے کا خواب کہیں ادھورا نہ رہ جائے گا، پارٹی نےپانچوں ریاستوں میںانتخابات کی تشہیری مہم میںاہم کابینی وزیروں اور بڑے بڑے سنگھ سورماؤں کے علاوہ سٹارکمپینر کہلانے والے یوپی کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کو بھی جھونک دیا تھا ۔آر ایس ایس نے وزیر اعظم مودی کے ساتھ ہندوتوا کا سخت گیر چہرہ مانے جانے والے، ہمیشہ فرقہ پرستی کوہوا دینےوالے، مسلم دشمنی اور اپنے زہریلے بیانات سے ہمیشہ سرخیوں میں رہنے والے یوگی آدتیہ ناتھ کو اس چناؤی میدان میں بڑی امیدوں کے ساتھ اُتارا تھا۔ مقصد یہی تھا کہ اصل مدعوں سے عوام کا ذہن پھیر کر ہندوتوا کا کارڈ کھیلتے ہوئے سادہ لوح رائے دہند گان کی حمایت حاصل کرکے کرسیٔ اقتدار کو بچالیا جائے مگر تبدیلی کی آندھی کے سامنے یہ سب لوگ یوگی سمیت پھپھسے ثابت ہوئے۔ وجہ یہ ہے کہ زمانہ بہت بدل گیا ہے اور لوگ اقتصادی ترقی ، روزگار ، مساوات ، تعلیم ، صحت، امن وامان اور تحفظ کے پیمانوں سے حکومتوں کی کار کردگی جانچتے پرکھتے ہیں نہ کہ عوام کو مسجد ، مندر ، گرجا ، گردوارہ کے نام پر منقسم کرنے سےمگر بی جے پی کو یہ نوشتۂ دیوار پڑھنا نہ آیا ۔اسے یہ نوشتہ پڑھنا آ ئے گا بھی نہیں کیونکہ اس کا وجود ہی تعصب ، تنگ نظری، تنفر اور جذباتی نعروں اورآگ کے شعلے بھڑکانے پر منحصر ہے ۔ اس کے پاس نہ کوئی معاشی پروگرام ہے نہ کوئی سماجی بہبود کا منشور ۔ اس نےالیکشن سے عین قبل رام مندر کے مسئلے بھی خوب اُچھالا تاکہ عوام کی آنکھوں میں دھول جھونک کر اپنی عدم کاردگی کو چھپا سکے۔ اس نے یہ ناکام کوشش بھی کی کہ رام مندر کی تعمیر کو لے کر خود حکومتی طبقہ ہی حکومت اور عدلیہ پر بے جا دباؤ بنانےکا ڈھونگ رچا ئے، جب کہ یہ ٹھوس حقیقت سب کو معلوم ہے کہ رام مندر کی تعمیر حکومت کے اختیار میں نہیں ہے۔ اگر یہ کام حکومت کے بس میں ہوتا تو یہ مندر کب کا تعمیر ہو چکا ہوتا جب کہ مرکز کے علاوہ یوپی میں بھی ابی جے پی کا راج تاج ہے۔ رام مندرکا مدعا بھی بھاجپا کے لئے کوئی جادو نہ کر سکااور رائے دہندگان نے حکومتوں کی کارکردگی کو ہی بنیاد بناکر اپنا فیصلہ پولنگ بوتھوں پرس نایا کہ وہ تبدیلی کے خواہاں ہیں ۔
الیکشن کے نتائج سے صاف ہوا کہ بی جے پی اور آرایس کا ہندوتوا کارڈ چلا ہی نہیں، حد یہ کہ ہندوتوا کا پوسٹر بوائے یوگی آدتیہ ناتھ کم وبیش ۶۶ ؍ اسمبلی حلقوں میں تشہری مہم کا حصہ بنا مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ جہاں جہاں یوگی نے الیکشن مہم چلائی ،ان میں سے اکثر جگہوں پر بی جے پی جے پی کے ہاتھ ناکامی ہی لگی، خاص طور پر چھتیس گڑھ کی وہ تمام سیٹیں بی جے پی کے ہاتھ سے نکل گئیں جہاں یوگی گئے تھے۔
مطلب صاف ظاہر ہے کہ عوام نے تبدیلی اور ترقی کو ووٹ دیا، ہندوتواور فرقہ پرستی کویکسر مسترد کردیا۔ خاص کر کسانوں کی قرضہ معافی کو اپنے منشور میں خاص جگہ دینے والی کانگریس کو کامیابی سے ہمکنار کرایا ۔اس سیمی فائنل میچ میں کا نگریس کی جیت اور بی جے پی ہار سے واقعی پے درپے شکست سے دوچار نا اُمیدی کی شکار کانگریس کو حوصلہ ملا۔ اب بی جے پی کے خلاف آنے والے قومی انتخا بات میں کامیابی کے لئے اپویشن کا مہا گھٹ بندھن یاعظیم اتحاد بنے تاکہ تبدیلی کے امکانات مزیدروشن ہوں ۔ پوری قوم کے حق میں بہتر نتائج کی خاطر عظیم اتحاد کے ساتھ ساتھ عام انتخابات کے چناؤی میدان میں کانگریس مضبوط لائحہ عمل کے ساتھ اگر اُترتی ہےتو یقینی طور پر فرقہ پرستی اور ہندوتو کو شکست دی جا سکتی ہے۔اس موقع پر کانگریس کو یہ بھی سمجھ لینا چاہیے کہ عوام نے ہندوتوکے خلاف ووٹ دیا ہے۔کانگریس جتنی جلدی یہ سمجھے اتنا ا س کے لئے بہتر ہے کہ حالیہ الیکشن میں سافٹ ہندوتواُس کی کامیابی کا کوئی زینہ بنا، جیسا کہ بی جے پی سے مرعوب ہوکر کئی بار اس نے وہیں طور طریقے اپنا نے کی کوشش کی جو بھاجپا کا ٹریڈ مارک ہواکرتے ہیں ۔حق یہ ہے کہ جہاں بھی کانگریس اور بی جے پی کے متبادل کے طور مضبوط پارٹی بن کر ایک معاشی اور سماجی سیکولر پروگرام لئے کھڑی ہوئی، عوام نے اس کا ہاتھ تھاما ۔ اس کاواضح نمونہ میزوروم اور تلنگانہ اور اس سے قبل بہار اور دہلی کے نتائج ہیں۔