ایک دور تھا جب صبح کا آغاز بہت میٹھے اندزا میں ہوتا تھا۔ امی جب جگاتیں تو ناشتہ تلاوتٍ قرآن کے ساتھ کیا جاتا اور پھر تیار ہو کر خراماں خراماں اسکول کو چل پڑتے۔ واپسی پر بھاگم بھاگ کپڑے تبدیل کر کے سپارہ پڑھتے، اسکول کا کام کرتے کیونکہ پھر عینک والا جن اور کھل جا سم سم بھی تو دیکھنا ہوتا تھا۔ جس کے بعد محلے کے بچوں کا کرکٹ اور فٹ بال کا دور چلتا، جس کے ریفری محلے کے بزرگ حضرات ہوا کرتے تھے۔کیا خوب زندگی تھی جب مغرب کی نماز کے بعد بچوں کی رات ہو جایا کرتی تھی۔ کھانا کھا کر ایک بار پھر کتابوں کا جائزہ لیا کرتے اور پھر کہانی کی کتابوں کے سنگ نیند کی وادی میں پرواز کر جاتے جب کہ دادا،دادی، امی، ابو مل بیٹھ کر حالات و واقعات کا جائزہ لیتے کیونکہ نو بجے کا خبرنامہ سنے بغیر انہیں نیند کہاں آتی تھی؟ عجیب زمانہ تھا جہاں گھر والوں کے لیے بھی بے تحاشہ وقت تھا اور ہمسایوں اجنبیوں کے لیے بھی۔
لیجیے! ہم بھی بات کر تے کرتے کہاں نکل گئے؟ ہم تو اپنے ننھے منھے نونہال کی بات کر رہے تھے جن کی زندگی نہایت ہی سادہ تھی۔ چاچا، چاچی،دادا، دادی کے پیار و محبت میں بڑے ہونے والے یہ بچے ماں باپ کی بھی پوری توجہ حاصل کرتے تھے۔ اماں کو پورے دن کی روداد سنانا اور رات کو بابا کے ساتھ کسی نہ کسی موضوع پر تفصیلاً بات چیت جہاں ان کی ذہنی نشونما کرتی تھی، وہیں گلی محلے میں کھیلے جا نے والے درجنوں کھیل ان کو صحت مند و توانا رکھتے تھے۔ کبھی جو جھگڑا ہوتا تو گھروں میں لانے کی بجائے محلے کے بزرگوں کے ساتھ مل کر حل کرلیا جاتا اور پھر سے سب دوست بن جاتے۔ان سب کے ساتھ ساتھ ننھے فرشتوں کا ایک بہترین دوست بھی ہوتا تھا جس کے ساتھ وہ پوری دنیا کی سیر کرتے، کبھی پریوں سے ملتے اور کبھی دیو انہیں ڈراتے تھے۔ ارے نہیں نہیں! آپ کمپیوٹر سمجھے؟ اس زمانے میں تو کمپیوٹر کا نام بھی کسی کو معلوم نہ تھا۔ کیسے معصوم بچے تھے جو کتابوں کو اپنا دوست سمجھتے تھے۔ کہنے کو تو کتاب بہترین دوست ہے لیکن یہ عظیم دوست ہم سے ناراض ہو گیا ہے۔ جس کو منانے کی کوشش ہم میں سے کسی ایک شخص نے نہیں کی۔
کہتے ہیں مشین کا کام انسانی زندگی کو آسان بنانا ہوتا ہے لیکن کچھ مشینیں اتنی ہی مشکلات پیدا کرتی ہیں۔ جیسے ہر چمکتی چیز سونا نہیں ہوتی ویسے ہی ہر پر کشش چیز انسانی زندگی کو خوبصورت نہیں بنا سکتی اور اسی نا سمجھی نے آدمی کو کہیں کا نہیں چھوڑا۔ پہلے جو جگہ کتابوں کی تھی وہ آج موبائیل، ٹیب اور آئی پیڈز نے لے لی ہے۔ پہلے صبح کا آغاز قرآن کی آیات سن کر ہوتا تھا لیکن اب بچے جب تک ٹیڑھی میڑھی شکلوں والے کارٹون نہ دیکھ لیں اٹھنے پر آمادہ نہیں ہوتے۔ دن میں گھر سے باہر میدان میں جا کر کھیلنے کے بجائے ان اسکرینوں پر ہی الا بلا دیکھتے ہیں اور مائیں بھی پر سکون رہتی ہیں کہ بچہ آنکھوں کے سامنے تو ہے۔ لیکن تحقیق یہ بات ثابت کر چکی ہے کہ زیادہ وقت کمپیوٹر اور موبائل استعمال کرنے سے ذہن کند ہو جاتے ہیں اور ان کے دماغ پر مضر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔والدین بچوں کو کارٹون لگا کر دے دیتے ہیں اور خود بے فکر ہو جاتے ہیں۔ مگر یہ بھولے نونہال چلتے چلتے کہاں نکل جاتے ہیں، وہ سب کچھ دیکھتے سنتے ہیں جو ان کی سمجھ سے باہر ہوتا ہے۔ ننھے فرشتے معصوم ذہنوں میں یہ باتیں بٹھا لیتے ہیں اور پھر وہ نونہال اپنی عمر سے کئی گنا بڑی باتیں کرتے ہیں۔ چاہے بات ان کی سمجھ سے بالاتر ہو لیکن سب کو بتانا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ ایسے حالات میں ماں باپ کی جھاڑ محض انہیں سرکش بنانے کا کام سر انجام دیتی ہے۔ کیونکہ ”سمجھنے سمجھانے“ کا مرحلہ تو بہت پہلے گزر چکا ہوتا ہے۔
خدارا! اپنے ننھے فرشتوں کی معصومیت کو وقت سے پہلے ختم نہ ہونے دیں۔ ان بھولے بھالے ذہنوں کو اپنے ہی ہاتھوں اتنا بڑا مت کریں کہ بعد میں صرف پچھتاوا ہی ہاتھ آئے۔