مسلم دنیا کی کل آبادی کا تقریباً نصف حصہ ۲۵؍سال سے کم عمر کے نوجوانوںپر مشتمل ہے۔ قوموں کا مستقبل نوجوانوں سے وابستہ ہوتا ہے۔ نوجوان ہی قوم وملت کا اصل سرمایہ ہوتا ہے۔ دوسرے اقوام کے مقابلے میں مسلم دنیا میں نوجوانوں کی تعداد زیادہ ہے۔ اگر اعداد و شمار کے اعتبار سے دیکھا جائے تو پھر ترقی کے اعلیٰ ترین مقام پر مسلم دنیا کو فائز ہونا چاہیے ، کیونکہ نوجوان صلاحتیں اُن کی جولی میں ہیں۔ اس کے برعکس یورپ اور مغرب میں نوجوانوں کی تعداد کم ہونے کے سبب وہ مسلمانوں سے کافی پیچھے ہونے چاہیے۔ لیکن اصل صورتحال اس کے بالکل برعکس ہے۔ بوڑھوں پر مشتمل اور آبادی کے لحاظ سے تعداد میں کم ہونے کے باوجود مغرب ظاہری ترقی کے منازل بڑی تیزی کے ساتھ طے کیے جارہا ہے اور آبادی کے لحاظ سے پچاس فیصد نوجوانوں پر مشتمل مسلم قوم کو ابھی اُس مقام پر کھڑا ہونے کے لیے ایک صدی کا سفر طے کرنا ہوگا جہاں مغرب آج کھڑا ہے۔ ہزار اخلاقی و روحانی خامیوں کے باوجود دنیا کی دیگر اقوام دنیا کی امامت کے منصب پر فائز ہونے کے لیے وہ سب کچھ کررہی تھی جو مسلم قوم کو کرنا تھا۔ آخر کون سے ایسے وجوہات ہیں، جو موجودہ زمانے میں مسلم نوجوانوں کو اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانے نہیں دیتے ہیں؟ ایسی کون سی رکاوٹیں ہیں جو سد راہ بن جاتی ہیںا ور اُمت مسلمہ کی پچاس فیصد آبادی کو صحیح نہج اور صحیح ڈگر پر گامزن نہیں ہونے دیتی ہیں؟ہماری نوجوان نسل کے سامنے ایسے کون سی چلینج ہیں جن سے نبردآزما ہوکر وہ تاریخ کے اس نازک ترین موڑ پر اُمت مسلمہ کواپنی صلاحیتیں دے سکیں گے اور قرونِ اولیٰ کی یاد تازہ کرکے ایک مرتبہ پھر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت منصب ِ امامت پر فائز کرسکیںگے؟یہ وہ سوالات ہیں جن کے جوابات تلاش کرنے میں ملت اسلامیہ کو کافی محنت درکار ہوگی۔
سائنس اور ٹیکنالوجی میں ترقی کے بعد مغرب بالخصوص امریکہ نے اپنی ثقافت، معاشرت اور معیشت کو عالمی سیاست کے لیے لائحہ عمل قرار دیا ۔ یہ ایک طرح سے اپنی تہذیب کو دنیا پر تھوپنے کی کوشش ہے۔ طاقت کے نشے میں مست مغرب نوے کی دہائی سے ہی تہذیبوں کے تصادم کا شوشہ چھوڑ کر مسلم ورلڈ کو زیر نگین بنانے کی کوششوں میں لگا ہوا ہے۔ مشہور یہودی مستشرق برنارڈ لیوس نےA Middle East Mosaic نامی کتاب میں تہذیبوں کے تصادم کے حوالے سے عالم اسلام کے خلاف نفرت کو ابھارنے کی کوشش کی ہے۔ برنارڈ لیوس کے تہذیبوں کے تصادم کے فلسفیانہ خیالات کو پروفیسر سیمویل پی ھنگٹن نے سادہ اور سہل طریق پر پیش کرنے کی کامیاب کوشش کرتے ہوئے ایک کتاب ہی Clash Of Civilaization and New world Order کے نام سے لکھ ڈالی۔برناڈ لیوس نے’’تہذیبوں کا تصادم‘‘ کی یہ اصطلاح سب سے پہلے The Economist کے اگست 1994 کے شمارے میں استعمال کی۔ اس سوچ نے مغربی ممالک کو اُمت مسلمہ کے خلاف محاذ کھولنے کی ترغیب دی اور گزشتہ دو دہائیوں سے مغرب ہر سطح پر اُمت مسلمہ کو کمزور کرنے کے لیے اپنے تمام تر وسائل کو بروئے کار لارہا ہے۔سب سے بڑی یلغار اُمت مسلمہ کی نوجوان نسل پر ہورہی ہے۔ مغرب مسلمان نوجوانوں کو اپنی ملی ذمہ داریوں کے تئیں غفلت میں مبتلا کرنے کے لیے ہر طرح کا ہتھکنڈا استعمال کررہا ہے۔ اُنہیں الجھا کر، جدید یت کی گولیاں کھلا کر، جنس اور شکم کا غلام بناکر مصروف رکھا جارہا ہے اور جہاں یہ محسوس کیا جاتا ہے کہ اُمت کے نوجوان حساسیت کا مظاہرہ کرکے دام فریب میں آنے والے نہیں ہیں وہاں اسلام کے نام پر مختلف گروہوں کو جنم دیا جاتا ہے اور دین پسند مسلم نوجوانوں کو اُن کے ساتھ بڑی ہی شاطرانہ طریقے سے منسلک کرکے اُنہیں ایک دوسرے کا گلا کاٹنے کے کام پر لگا دیا جاتا ہے۔بڑی ہی شرمندگی کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ مغرب اور اُس کے حلیف تمام باطل طاقتیںتاحال اپنی تمام سازشوں کو کامیابی کے رنگ سے رنگ رہی ہیں اور اس کامیابی کا راز اُن کی چالاکی سے زیادہ ہماری سادگی میں ہے۔تہذیبوں کے اس تصادم نے مسلم نوجوانوں کو ذہنی طور مفلوج کرکے رکھ دیا ہے۔ اُن کی سمجھ میں ہی نہیں آتا کہ وہ کیا کریں، کہاں جائیں اور کس راہ پرچل کر صحیح سمت کا ادراک حاصل کریں۔اُس کے سامنے بے شمار چلینجز ہیں۔ جن میں سے محض چند ایک کے ذکر پر یہاں اکتفا کیا جائے گا۔:
مسلم نوجوان خود اپنے ہاتھوں اپنی شناخت سے محروم ہوچکا ہے۔ وہ اپنی شناخت کہیں مغربیت کے نذر کرچکا ہے تو کہیںکیرئیر کے حوالے ، کہیں اِس نے عیش و عشرت کی زندگی کو اپنا مقصد بنالیا ہے تو کہیں وہ مسلکی و مکتبی ، فروعی و اختلافی کشمکش میں مبتلا ہوچکا ہے، کہیں شدت پسندی کا اس قدر شکار ہوچکا ہے کہ سوائے مرنے مارنے کے کوئی زبان سمجھ میں ہی نہیں آتی ہے ، کہیں خوف و دہشت کے مارا ہے کہ زندگی کی امان پانے کے لیے سب کچھ حتیٰ کہ دین و ایمان بھی تیاگ دینے کے لیے راضی ہوجاتا ہے۔ اُمت کے نوجوان سے ’’مسلم ‘‘ ہونے کی شناخت چھن چکی ہے۔ وہ صراط المستقیم پر گامزن ہوکر صدیق اکبرؓ ، فاروق عادل ؓ ، عثمان باحیاؓ ، ،علی ؓ ابن طالب، خالدؓ بن ولید، مسیب ؓ بن عمیر، عبداللہ بن مسعودؓ جیسے عظیم صحابہ کے کردار اور طرز زندگی سے لاتعلق ہوچکا ہے۔ اُسے معلوم ہی نہیں وہ کون ہے؟ ملت اسلامیہ سے تعلق ہونے کی حیثیت سے اُس کی ذمہ داریاں کیا ہیں؟ وہ جانتا ہی نہیں کہ موجودہ حالات میں اُس کے لیے کیا صحیح ہے اور کیا غلط؟ اُسے اس بات کا ادراک ہی نہیں کہ وہ کہاں سے ہدایات حاصل کریںگے؟ کہاں سے اُس کی رہنمائی ہوسکے گی؟ مطلب آج کا مسلم نوجوان اپنی شناخت کی تلاش میں سرگرداں ہے۔ سب سے بڑا چلینج آج کے دور میں مسلم نوجوان کے لیے یہی ہے کہ اُسے اپنے آپ کی پہچان نہیں ہورہی ہے۔ اور یہ پہچا ن اُسے صرف اُسی صورت میں حاصل ہوسکے گی جب وہ قرآن و سنت کے ساتھ اپنا تعلق جوڑے گا۔
مسلم نوجوان دو حصوں میں تقسیم ہیں۔ ایک دین سے بالکل ہی بے گانہ اور نام کی حد تک ہی مسلمان رہ چکا ہے اور نہایت ہی دُکھ کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ۸۰؍فیصد تعداد ان ہی پر مشتمل ہے۔باقی ۲۰؍فیصد نوجوان جو اسلامی ذہنیت کے حامل تو ہیں لیکن فروعی اور اختلافی اُمور میں اس قدر پھنسا دئے گئے کہ وہاں سے اُن کے نکلنے کی کوئی راہ ہی نہیں دکھائی دے رہی ہے۔ حالانکہ ان بیس فیصد دین پسند نوجوانوں کا یک نکاتی ایجنڈا یہ ہونا چاہیے تھا کہ اُمت کے نوجوانوں کا جو سوادَِ اعظم یعنی ۸۰؍فیصد تعداد دین سے دور غفلت کی نیند میں پڑے ہیں اُن تک دین کی تعلیمات پہنچائی جائے اور اُنہیںدین مبین کے تئیں اُن کی ذمہ داریاں یاد دلائی جائے۔ تنظیمی، مکتبی ، فروعی اور مسلکی اختلافات کو ہوا دینے میںزیادہ تر یہ دین پسند نوجوان اب کھلے عام استعمال ہورہے ہیں۔ اِنہیں ملک شام میں مسلمانوں کا لہو بہانے کے لیے استعمال کیا جارہا ہے اور اُنہیں عراق میں ایک دوسرے کے خلاف خون خرابہ کرنے میں بھینٹ چڑھایا جارہا ہے۔ اُنہیں تحریک طالبان کے نام پر مسجدوں، خانقاہوں، بازاروں اور عوامی مقامات پر انسانی بم بن جانے کے عوض میں جنت کی حورویں مل جانے کے خواب دکھائے جارہے ہیں اور یہی دین کے لیے جان دینے والے نوجوان پشاور کے آرمی اسکول میں معصوم بچوں کا قتل عام کرنے کے لیے بھی استعمال کیے جاتے ہیں۔ یہ حقیقت اب آشکارہ ہو چکی ہے کہ شام میں طاقت کا توازن بگڑنے کے کیا اسباب رہے ہیں ؟ جب آئی ایس آئی ایس اور القاعدہ اسدی آمریت سے لڑنے کے بجائے برسوں آپس میں لڑنے لگے اور ہزاروں لڑاکا اس آپسی لڑائی میں مارے گئے،تو یہی وہ Turning Point ثابت ہوا جب بشار الاسد کی آمریت کو یقین ہوچلا کہ اب ملک شام پر اُن کی گرفت ڈھیلی نہیں پڑ جائے گی۔ آئی ایس آئی ایس کس کی پیدا وار ہے اور کن کے مقاصد میں رنگ بھر رہی ہے یہ الگ بات ہے لیکن یہ بات اپنی جگہ صد فیصد درست ہے کہ دنیا بھرسے اسلام پسند نوجوان ہی اس تنظیم میں شمولیت کر چکے ہیں۔مطلب دینی جذبہ رکھنے والی صلاحیتیں غلط ہاتھوں میں پڑ چکی ہیں۔ جہاں وہ اللہ کی تلوار بن سکتے ہیں وہاں انہوں نے امریکی اور مغربی کام کو آسان کرنے میں اپنی تمام تر صلاحیتیں نچھاور کردیں ہیں۔مناظرہ بازیوں میں مختلف تنگ نظر جماعتیں اور افراد ان اسلام پسند نوجوانوں کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ گویااس وقت ملت اسلامیہ کے پاس جو بیس فیصد نوجوان اسلام پسند ہیں اور دین کے شیدائی ہیں وہ غلط کار ہاتھوں میں پھنس چکے ہیں۔ اُنہیں دین کا محدود تصور دیا گیا ہے اور اُنہیں دین کی سربلندی کے بجائے دین کے خلاف ہی استعمال میں لایا جارہا ہے۔ اِلا کہ اُن میں سے ایک حقیر اقلیت دنیا بھر میں صحیح نہج پر اسلام کی خدمت کررہی ہے۔ملت کے ۸۰؍فیصد نوجوان جو دین اسلام سے بالکل ہی لاتعلق ہوکر رہ رہے ہیں سے زیادہ ملت اسلامیہ کے لیے یہ بیس فیصد نوجوان نقصان دہ ثابت ہورہے ہیں ۔ حالانکہ ان میں دینداری کا جذبہ بھی ہوتا ہے اور عملی عبادات میں یہ سخت محنت و مشقت بھی کرتے ہیں۔ جب تک نہ ملت کے ان دیندار نوجوانوں کو اسلام کا صحیح تصور دیا جائے اُنہیں بتا دیا جائے کہ اسلام ملت کو جوڑنے کا نام ہے توڑنے کا نہیں، تب تک دین اسلام کے جذبے سے سرشار ملت کے یہ نوجوان اُمت کے لیے تعمیری منصوبے میں اپنا رول ادا نہیں کرسکتے ہیں۔اُمت مسلمہ کے لیے جہاں یہ مسئلہ کافی پریشان کن ہے کہ کس طرح ۸۰؍فیصد نوجوانوں کو قرآن اور سنت کے ساتھ جوڑا جائے وہاں سنگین ترین مسئلہ یہ بھی ہے کہ کیسے ۲۰؍فیصد اسلام پسند نوجوانوں کو صحیح دینی فکر سے وابستہ کرکے اُنہیں اُن کی اصل ذمہ داریاں سمجھائی جائیں۔
مسلم نوجوانوں کے لیے ایک اور چیز زبردست چلینج کی حیثیت اختیار کرچکی ہے، وہ یہ کہ اس وقت دنیا میں مسلم نوجوان اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے پیچھے صرف ایک ہی مقصد رکھتے ہیں کہ اُن کی زندگی بن جائے۔ تعلیمی مراحل طے کرنے کے بعد اُنہیں اچھی نوکری مل جائے، اُن کی شادی ہوجائے، عیش و عشرت سے پُر زندگی حاصل ہوجائے اور بس۔ یہی سوچ اُمت مسلمہ کے نوجوانون کی گلوبل سوچ بن چکی ہے۔ اور یہ سوچ ملت اسلامیہ کو خود کشی کی راہ پر گامزن کیے جارہی ہے۔مسلمان کی زندگی کا ایک مقصد ہوتا ہے۔ اسلام نے اُنہیں اللہ کی زمین پر اللہ کے نظام کا بول بالا کرنے کی ذمہ داری سونپ رکھی ہے او ریہ ذمہ داری ہر دور میں جن سعید روحوں نے پوری کردی ہے اُن کی کشمکش کا کبھی بھی یہ مقصد نہیں رہا تھا کہ وہ اپنے لیے، عیش و عشرت اور دھن و دولت سے مزین زندگی پاسکیں۔ مسلمان عیش و عشرت کو لات مارنے والی قوم ہے، ان کی نظر دنیا کے بجائے آخرت پر ہوتی ہے۔ مگر المیہ یہ ہے کہ ہمارا طرز عمل غیروں نے اختیار کرلیا ہے۔ مغربی لوگ اپنی قوم کے لیے جیتے ہیں اور ہماری نوجوان نسل اپنی ذات تک محدود ہے۔ مغربی لوگ دیانتداری کے ساتھ اپنے ملک کے تئیں فرائض انجام دے رہے ہیں او رہماری نسلیں اپنی ذات کے لیے ملت کے ساتھ خیانت کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔اپنی نفس کی بندگی کرنے کی سوچ انسان کو محدود کرکے رکھ دیتی ہے۔ بھلے ہی انسان اعلیٰ تعلیم حاصل کرلے، سائنس اور ٹیکنالوجی میں نام پیدا کرے، دنیا میں بڑی بڑی پوزیشنیں حاصل کریں جب تک اُن کی زندگی اپنی ذات کے اردگرد گھومتی رہے گی وہ انسانیت کا کوئی بھلا نہیں کرسکیں گے۔ آج ہم سینکڑو ں ڈاکٹر دیکھتے ہیں جنہوں نے علاج و معالجہ جیسے مقدس پیشے کو کاروبار بناکر رکھ دیا ہے، سیاست دان دیکھتے ہیں جو ملت کی خدمت کے بجائے آف شور کمپنیوں میں خاتہ کھول کر اپنے عوام کی دولت غیر قانونی طریقے سے باہر لے جاتے ہیں، انجینئر دیکھتے ہیں جو کمیشن کھاکر رفاعی کاموں میں بدیانتی کرتے ہیں۔ بیروکریٹ دیکھتے ہیں جو اپنے عہدوں کے ساتھ وفا نہیں کرتے ہیں۔کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اُمت مسلمہ اپنی نوجوان نسل کو اس سوچ سے باہر نکال لیں کہ وہ اپنا کیرئیر بنانے کی خاطر دوڑ دھوپ کریں۔ نوجوان نسل میں مثبت سوچ پیدا کرنے کی ضرورت ہے اور مثبت سوچ یہ ہے کہ اُنہیں سکھایا جائے ، اُنہیں بتایا جائے اور اُن پر واضح کیا جائے کہ وہ اپنی زندگی ملت اسلامیہ کی خدمت ، بھلائی اور اللہ کے دین کی خاطر وقف رکھیں۔ پھر وہ زندگی کے کسی بھی شعبے میں کیوں نہ جائیں وہاں وہ اسی سوچ کے تحت ملت اسلامیہ کی خدمت کرسکیں گے۔
وقت کا تقاضا ہے کہ اُمت مسلمہ کے ذی حس لوگ، علماء کرام، دانشور حضرات، مختلف شعبوں کے ماہرین سر جوڑ کر بیٹھیں اور حالات کا باریک بینی سے جائزہ لے کر ایسا لائحہ عمل ترتیب دیں کہ جس کے ذریعے سے اسلامی دنیا کی نوجوان نسل کو اُمت کی ہی نہیں بلکہ پوری انسانیت کی بھلائی کے لیے استعمال میں لایا جاسکے۔ مسلم نوجوانوں کو اپنی صلاحیت اور صالحیت کا استعمال کرکے دنیا کو بتا دینا ہوگا کہ اُن میں وہ تمام صفات بدرجہ ٔ اتم موجود ہیں جن کے ذریعے سے وہ اُمت مسلمہ کی ہی نہیں بلکہ دنیا کی کایا پلٹ سکتے ہیں۔جس دن ہماری نوجوان نسل نے صحیح ڈگر پر قدم رکھ کر چلنا شروع کردیا، اُس دن سے ہی ملت اسلامیہ کی تقدیر بدلنا شروع ہوجائے گی اور وہ امامت کے منصب پر از سر نو براجمان ہوجائیں گے۔ہماری نوجوان نسل کو سمجھنا ہوگا کہ موجودہ دور جسمانی طاقت کھپانے سے زیادہ دماغی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کا زمانہ ہے ۔دماغ سے کام لینے کی ہمیں قرآن نے بھی بار بار دعوت دی ہے اور کامیابی کا راز بھی اِسی میں ہے۔ جتنا جلد ہم سمجھ لیں گے اُتنا ہی بہتر ہوگا۔
������