نئی دہلی //پاکستانی فوج کی طرف سے مبینہ 'جاسوسی اور ملک مخالف سرگرمیوں کے لئے ہندوستانی شہری کلبھوشن جادھو کی موت کی سزا کو منظوری دینے کے کچھ گھنٹے بعد ہندوستان نے فیصلہ کیا کہ وہ ان ایک درجن پاکستانی قیدیوں کو رہا نہیں کرے گا، جنہیں بدھ کو ان کے وطن بھیجا جانا تھا۔ادھر کلبھوشن جادھو کو سزائے موت پر ہندوستان نے پاکستان کے سامنے سخت احتجاج درج کراتے ہوئے کہا کہ اگر انصاف کے بنیادی اصولوں اور بین الاقوامی قوانین کو درکنار کر کے جادھو کو موت کی سزا دی گئی تو اسے ان منصوبہ بند قتل سمجھا جائے گا۔ خارجہ سکریٹری ایس جے شنکر نے پاکستانی ہائی کمشنر کو آج طلب کیا اور انہیں جادھو کی سزائے موت پر ہندوستان کے احتجاج کا خط سونپا ،جس میں صاف طور پر کہا گیا ہے کہ جادھو کو گزشتہ سال ایران سے اغوا کیا گیا تھا اور پاکستان میں ان کی موجودگی کے بارے میں کبھی بھی قابل اعتماد معلومات نہیں دی گئیں۔ حکومت ہند نے اپنے ہائی کمیشن کے ذریعے بار بار ان سے بین الاقوامی قوانین کے مطابق سفارتی رابطہ قائم کرنے کی اجازت طلب کی۔ 25 مارچ 2016 سے 31 مارچ 2017 کے درمیان ایسی 13 درخواستیں دی گئیں، لیکن پاکستان حکومت نے انہیں قبول نہیں کیا۔احتجاجی خط میں کہا گیا ہے کہ جادھو کے خلاف قابل اعتماد ثبوت نہیں ہونے کے باوجود ایسی کارروائی انتہائی بدقسمتی کی بات ہے۔ یہ بھی بہت اہم بات ہے کہ اسلام آباد میں ہندوستانی ہائی کمشنرکو جادھو کے خلاف قانونی کارروائی کی کبھی کوئی معلومات نہیں دی گئی۔ ان حالات میں پاکستانی فوج کی پریس ریلیز میں جادھو کو بچانے کے لیے وکیل فراہم کیے جانے کی بات مکمل طور پر بے معنی ہے۔ ہندوستان نے خط میں کہا کہ اگر ہندوستانی شہری کے خلاف اس سزا پر قانون کے بنیادی اصولوں کو نظر انداز کرکے تعمیل کی جاتی ہے تو حکومت ہند اور عوام اسے منصوبہ بند قتل کا معاملہ سمجھیں گے۔