مشتاق الاسلام
پلوامہ//وادی کشمیر میں باغبانی شعبہ کو معیشت میں ریڑھ کی ہڈی تصور کیا جاتاہے تاہم موسمیاتی تبدیلیوں کے بڑھتے اثرات نے اس شعبے کو مشکلات میں ڈال دیا ہے۔ خشک سالی، غیر متوقع درجہ حرارت اور بیماریوں کے سبب کسانوں کو نہ صرف فصل کا نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے بلکہ ان کی روزی روٹی بھی خطرے میں پڑ گئی ہے۔پلوامہ سے تعلق رکھنے والے کسان طارق عزیر نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ اس سال ’لیف مائنر‘ نامی بیماری نے ہائی ڈینسٹی سیب کے پودوں کو بری طرح متاثر کیا ہے۔انہوں نے کہا’’پتے جھڑ گئے ہیں اور پھل کا رنگ و وزن بھی متاثر ہوا ہے، جس کی وجہ سے ہم منڈی میں بہتر قیمت حاصل کرنے سے قاصر ہیں‘‘۔انہوں نے مزید کہا کہ محکمہ باغبانی کی جانب سے جاری کردہ ایڈوائزری صرف رسمی کارروائی محسوس ہوتی ہے اور عملی طور پر کاشتکاروں کے لیے ناکافی ثابت ہو رہی ہے۔انہوں نے کہا’’کسان مجبورا وقت سے پہلے ہی فصل کو کم داموں پر فروخت کر رہے ہیں کیونکہ انتظار کرنے کا مطلب مزید نقصان ہے‘‘۔موجودہ صورتحال میں کسانوں کا ایک اہم مطالبہ یہ ہے کہ باغبانی شعبے کو فوری طور پر فصل بیمہ اسکیم میں شامل کیا جائے تاکہ انہیں قدرتی آفات یا موسمی بے ترتیبی کے خلاف تحفظ حاصل ہو۔ اگرچہ حکومت نے 2016میں پردھان منتری فصل بیمہ یوجنا اور ویدر بیسڈ کراپ انشورنس اسکیم کو جموں و کشمیر میں اپنایا، لیکن آر ٹی آئی کے انکشافات کے مطابق یہ اسکیمیں باغبانی فصلوں پر ابھی تک نافذ نہیں کی جا سکیں۔ماہرین کے مطابق اگر حکومت نے فوری طور پر بیمہ اسکیم اور کم از کم امدادی قیمت (MSP) جیسی پالیسیاں نافذ نہ کیں تو وادی کا یہ 20ہزار کروڑ روپے کا شعبہ کسی بھی وقت موسمیاتی بحران کے باعث زمین بوس ہو سکتا ہے۔محکمہ زراعت کے ایک سینئر افسر نے اعتراف کیا کہ’’باغبانی ہمارا خاموش ہیرو ہے، جس نے دیہی علاقوں میں روزگار اور آمدنی کو مستحکم رکھا ہے”، تاہم کسانوں کا کہنا ہے کہ صرف بیانات سے کچھ نہیں بدلتا، جب تک زمین پر عملی اقدام نہ ہو‘‘۔کاشتکار برادری نے ایک مرتبہ پھر حکومت سے اپیل کی ہے کہ باغبانی کو کسان بیمہ اسکیم کے دائرے میں لایا جائے تاکہ ان کے معاشی مستقبل کو تحفظ فراہم کیا جا سکے۔