سرینگر// حریت (گ )چیئرمین سید علی گیلانی بدستور اپنے گھر میں قید کرکے رکھے گئے ہیں، جبکہ تحریک حریت جنرل سیکریٹری محمد اشرف صحرائی اور محمد اشرف لایا کو بھی گھر میں نظربند کردیا گیا ہے۔ اس دوران میں پولیس نے حریت ترجمان غلام احمد گلزار کو دورانِ شب گھر سے گرفتار کرکے پولیس تھانہ بٹہ مالو میں بند کردیا ہے۔ حریت نے اس حکومتی کارروائی کی شددید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ریاستی انتظامیہ نے اظہارِ آزادی کی رائے پر قدغن عائد کرکے آزادی پسندوں کی پُرامن سیاسی سرگرمیوں پر مکمل پابندی عائد کردی گئی ہے اور ریاست کو عملاً ایک پولیس اسٹیٹ بنادیا گیا ہے۔ گیلانی کی گھر میں نظربندی کا سلسلہ 2010ءمیں شروع کردیا گیا ہے اور جب سے یہ جاری ہے۔ اس نظربندی کا حکومت نے آج تک کوئی آئینی یا قانونی جواز پیش کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی ہے اور آزادی پسند رہنما کو محض بندوق کی نوک پر روک کر رکھا گیا ہے۔ حریت کانفرنس نے گیلانی کی مسلسل نظربندی کو ریاستی دہشت گردی کا کھلا مظاہرہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ محبوبہ مفتی اور ان کے مرحوم والد مفتی محمد سعید کے ”نظریات کی لڑائی“ اور ”گولی نہیں بولی“ جیسے نعروں کا یہاں کبھی وجود ہی نظر نہیں آرہا ہے اور یہ محض ایک دھوکہ اور فریب ثابت ہوا ہے۔ حریت نے ترجمان کی گرفتاری کی شدید حد درجہ افسوسناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ موصوف دیگر حریت رہنماو¿ں اور نوجوان کی گرفتاریوں کا مقصد صرف اور صرف ان کے حوصلوں اور جذبہ¿ آزادی کو کمزور کرنا ہے۔ حریت نے واضح کردیا کہ ایسے حربوں سے نہ تو ماضی میں حریت قیادت کو حق وصداقت پر مبنی موقف سے دست براد کیا جاسکا ہے اور نا ہی مستقبل میں ایسا ممکن ہے۔حریت کانفرنس نے سوپور کے 18سالہ ریاض احمد ڈار پر سیفٹی ایکٹ لگا کر انہیں کوٹ بلوال جیل منتقل کرنے کی شدید الفاظ میں مذمت کی۔ بیان میں کہا گیا کہ کشمیر میں آئے روز سرکاری فورسز کے ہاتھوں نوجوانوں کو گرفتار کرنے، شبانہ چھاپے ڈالنے اور مکینوں کو ہراساں کرنے کی کارروائیوں کا غیر اخلاقی اور غیر انسانی قرار دیا۔ حریت کانفرنس نے لتہ پورہ میں اسکولی گاڑی جس میں معصوم طالب علم اور ان کے اساتدہ واپس گھر جارہے تھے پر فوجی یلغار کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ بھارتی افواج کے ظلم اور بربریت کی یہ انتہا ہے اور ایسی بزدالنہ کارروائیاں انجام دے کر فوج یہاں کے حالات کو بدسے بدتر بنانے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔