بٹھنڈا۔سرینگر گیس پائپ لائن منصوبہ مکمل ہونے کا نام نہیں لے رہا ہے۔اعلان کے14سال بعد بھی پروجیکٹ کی زمینی صورتحال کے بارے میں کسی کوکوئی خبر نہیںہے ۔جون2011میں اُس وقت کے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے بٹھنڈا پنجاب سے جموں کے راستے سرینگر تک328 کلو میٹر گیس پائپ لائن کے اہم پروجیکٹ کی منظوری دی تھی جسے تین سال میں مکمل کرنے کا اعلان کیاگیا تھا۔پانچ ہزار کروڑ روپے مالیت کے اس پروجیکٹ کو جولائی 2011میں ہی شروع کیاگیااورجولائی2014تاریخ تکمیل مقرر کی گئی تھی تاہم14رس بیت جانے کے بعد آج صورتحال یہ ہے کہ اس پروجیکٹ کا عملی آغاز ہونا باقی ہے ۔ یہ پروجیکٹ اس لئے انتہائی اہمیت کا حامل تھا کیونکہ یہ متبادل توانائی کاموثر ذریعہ بن سکتا تھا ۔یہی وجہ ہے کہ مقررہ مدت کے اندر اندر اس پروجیکٹ کو مکمل کرنے کی ہدایت دی تھی اور اس کے بعد اس پروجیکٹ پر پیش رفت کے حوالے سے جائزہ میٹنگیں بھی طلب کی جارہی تھیں ۔328کلو میٹر لمبی گیس پائپ لائن کو بٹھنڈا سے سرینگرکٹھوعہ، سانبا، جموں، ادھمپور،رام بن،اننت ناگ اورپلوامہ کے راستے لانا مقصود تھا۔مذکورہ گیس پروجیکٹ سے ریاست میں بجلی کی پیداوار میںبھی اضافہ کرنے میں مدد حاصل ہوتی۔گوکہ بعد ازاںمحکمہ مال نے محکمہ قانون سے ملکر ایک آر ڈی نینس تیار کروایا اورجون2013 میں گورنر نے یہ آر ڈی نینس جاری کرواکے اس پروجیکٹ کیلئے اراضی کے حصول کو ممکن بنادیا تاہم اس کے بعد عملی طور کچھ نہ ہوا۔گوکہ سانبہ اور کٹھوعہ میں حصول اراضی کا عمل شروع کیا گیا تاہم وہ دوبارہ کھٹائی میں پڑ گیا۔بعد ازاں2018میں گورنر نے لینڈ ایکویزیشن ایکٹ میںترامیم کو بھی منظوری دے دی تاکہ گیس پائپ لائن کے لئے اراضی حصول کے عمل کی مدت میں مزید توسیع یقینی بنائی جاسکے اور اُس وقت امید ظاہر کی گئی تھی کہ 2019کے اختتام تک سرینگر تک پائپ لائن مکمل ہوگی اور اس کے دو سال بعد تمام چھوٹے بڑے قصبوں تک گیس پائپ لائن پہنچ چکی ہوگی تاہم یہ امید بھی بھر نہ آئی اور معاملہ جوںکا توں ہی ہے جبکہ مرکزی حکومت کی جانب سے واگزار کی گئی ابتدائی1000کروڑ روپے کی قسط بھی خزانہ میں بے کار پڑی ہوئی ہے۔ اس بات سے کسی کو انکار نہیں کہ سرما کے دوران وادی میں رسوئی گیس کی شدید قلت پیدا ہوجاتی ہے کیونکہ جہاں گیس کی طلب بڑھ جاتی ہے وہیں سرینگر جموں شاہراہ اکثر وبیشتربند رہنے کی وجہ سے گیس نایاب رہتا ہے جس کے نتیجہ میں گیس کی ہاہا کار مچ جاتی ہے ۔ایسے میں اگر کشمیر وادی اور جموں کے پیر پنچال اور چناب خطہ کو گیس پائپ لائن کے ذریعے جوڑا جاتا تو یقینی طورپر گیس کی قلت پر قابو پایا جاسکتا تھا تاہم ہم سب اس سچائی سے بھی بخوبی آشنا ہونگے کہ ملک میں ابھی تک گیس پائپ لائنوں کا نیٹ ورک صرف10ہزار کلومیٹرپر محیط ہے جس میں55فیصد حصہ گیس اتھارٹی آف انڈیا ہے جبکہ باقی ماندہ 45فیصد پر نجی سیکٹر کے ساتھ شراکتداری کی گئی ہے۔ گوکہ نیشنل پاور گرڈ کی طرح بٹھنڈا میں قومی گیس گرڈ کا قیام عمل میں لایا گیا تاہم اہداف ابھی کوسوں دور ہیں۔ابتدائی طور15ریاستوں کو گیس پائپ لائن کے ذریعے جوڑ نے کا منصوبہ تھاتاہم ایسا تاحال ممکن نہیں ہوپایا ہے ۔فی الوقت گجرات ،آندھرا پردیش ،آسام اور تری پورہ میں گیس پائپ لائن نیٹ ورک موجود ہے ۔پٹرولیم اور قدرتی گیس وزارت کی ویب سائٹ کا اگر مشاہدہ کیا جائے تو گیس پائپ لائنوں کے حوالہ سے جو نقشہ کھینچا گیا ،وہ اطمینان بخش نہیں ہے ،چند ایک مقامات کو چھوڑ کر بیشتر جگہوں کو مجوزہ پائپ لائنوں کے زمرے میں رکھا گیا اور یہ پائپ لائنیں کئی برسوں سے مجوزہ سے آگے نہیں بڑھ پارہی ہیں۔اتنا ہی نہیں جنوبی اور مغربی ہند کے جن علاقوں کو گیس پائپ لائن سے جوڑا گیا ہے،وہاں بھی تمام صارفین کو تاحال پائپ لائنوں کے ذریعے گیس میسر نہیں ہے۔جموںوکشمیر عوام کو بالعموم اور وادی کشمیر کے لوگوں کو بالخصوص گرمی اور رسوئی کیلئے مہنگے داموں بجلی استعمال کرنے کا کوئی شوق نہیں ہے ۔اگر صارفین تک قدرتی گیس کی ترسیل یقینی بنائی جاتی تو وہ بلا چوں و چرا گیس کنکشن حاصل کرتے تاہم جس طرح10 برس گزر جانے کے باوجود بھی پروجیکٹ شروع نہ ہوپایا ،اس نے عوام کے خدشات کو جائز ٹھہرایا ہے ۔ پروجیکٹوں کی عمل آوری ،تکمیل اور انتظام و انصرام کے تعلق سے سرکاری مشینری پہلے ہی عوام کا اعتماد کافی حد تک کھوچکی ہے ،ایسے میں اگر گیس پائپ لائن پروجیکٹ کے خواب کو شرمندہ تعبیر بنانا ہے تو روایت سے ہٹ کر کام کرنے کی ضرورت ہے ۔جس محکمہ کو پروجیکٹ کی نوڈل ایجنسی کے طور مقرر کیا گیا ہے ،وہ محکمہ اپنے کرتوت کی وجہ سے لوگوں کا اعتماد کھو چکا ہے ،ایسے میں شاید حکام بالا کو شاید دوبارہ غور کرنا پڑے گا کہ کیا واقعی مذکورہ محکمہ یہ کام انجام دینے کی صلاحیت رکھتا ہے یا نہیں۔