ریاست کے اندر یکم اپریل2017سے نافذ العمل گیسٹ کنٹرول آڈر کا حشر بالکل وہی ہوا ہے ، جو ماضی میں اس نوعیت کے احکامات کے ساتھ ہوتا رہا ہے۔ آج شادی بیاہ کے مواقع اور سرکاری تقاریب میں اصراف و تبذیرکی وہی داستان دہرائی جارہی ہیں۔ جوہر اُس سماج کا حصہ بن جاتی ہیں، جس میں ایک دوسرے پر سبقت لینے کےلئے نمود و نمائش اور دکھاوے کا جذبہ روح رواں کی حیثیت اختیار کرتاہے۔ آج کل وادی کشمیر میں شادی بیاہ کا سیزن عروج پر ہے اور ہر طرف نمود و نمائش اور پُر تعیش دعوتوں کا طوفانِ بدتمیزی برپا ہے، لیکن سماج پر اس قدر عنود گی چھائی ہوئی ہے کہ کوئی آنکھ اُوپر اُٹھا کر بھی اس آندھی ، جو سماج کی چولیں ہلا رہی ہے، کو تنقیدی نگاہ سے دیکھنے کی کوشش نہیں کرتا ۔ گیسٹ کنٹرول آڈر کے تحت شادی بیاہ کی تقاریب کے لئے پکوانوں اور مہمانوں کے علاوہ نمود و نمائش کی بھی حدود متعین کی گئی ہیں اور انکی خلاف ورزی کرنے والا رنبیر پینل کوڈ کی دفعہ188اور فوجداری قانون کی دفعہ133کی خلاف ورزی کا مرتکب قرار پاتا ہے۔ حکومت نے اسکے نفاز کی نگرانی کےلئے اضلاع کے ڈپٹی کمشنروں اور سرینگر وجموں میونسپل کونسلوں کے چیئرمینوں کو نوڈل آفیسر مقرر کیا تھا، لیکن ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ متعلقہ ادارے خواب خرگوش میں ہیں اور اس سے باہر نکل آنے کا کہیں کوئی شائبہ نظر نہیں آرہا ہے۔ جس وقت یہ آڈر جاری کیا گیا تھا اُس وقت اگرچہ سنجیدہ فکر سماجی حلقوں کی جانب سے بڑے پیمانے پر اس کاخیر مقدم کیا گیاتھا تاہم حکومت پر ماضی کے تجربات سے سبق سیکھنے کےلئے بھی زور دیا گیا تھا۔ چنانچہ ان حلقوں کے وہ خدشات اب درست ثابت ہو رہے ہیںکیونکہ فی الوقت ہمارے سماج میں شادی بیاہ کی تقاریب فضول خرچی اور اصراف و تبذیر کی آخری حدود کو چُھو چکی ہیں، جسکی وجہ سے سماج کا ایک بڑاطبقہ بُری طرح متاثر ہورہا ہے۔ شادی بیاہ کی تقاریب روایتی حدود کو پھلانگ کر تام جھام ، ڈول ڈنکے اور نمود و نمائش کی ایسی منزل پر پہنچی ہیں، جہاں سماجی مراتب کے اظہار کے لئے بے تحاشہ دولت لٹائی جاتی ہے۔ ظاہر ہے کہ جو دولت اصراف وتبذیر پر خرچ کی جائے، اس کے حصول کے ذرائع کیا ہوسکتے ہیں؟یہ کہنے کی شاید ضرورت نہیں! ایسے حالات میں سماج کا وہ طبقہ ، جسکے پاس دولت کمانے کے آسان ذرائع میسر نہیں ہوتے، اپنے سماجی مرتبے کو برقرار رکھنے کے لئے قرضوں کے دلدل میں دھنس جاتے ہیں۔ اگر حکومت اصلاحی کوششوں میں واقعی سنجیدہ ہوتی تو اُسے ماضی میں اس اقدام کی ناکامی کی وجوہات کو مدنظر رکھ نئی حکمت عملی مرتب کرنی چاہئے تھی، مگر ایسا نہیں ہوا کیوں؟ اسکا جواب حکومت ہی بہتر طور دے سکتی ہے۔چونکہ ہمارے سماج میں شادی بیاہ کی تقاریب کا اہتمام اب ایک صنعت کی صورت اختیار کرچکا ہے اور متعدد لوگوں نے اس تجارت میں اچھی خاصی سرمایہ کاری کر رکھی ہے لہٰذا اُن کےلئے یہ ہضم کرنے والی بات نہیں تھی۔ اسکی مثالیں ابتداء میں ہی جموں صوبہ میں دیکھنے کو ملیں، جب وہاں شادیوں کا سیزن چل رہا تھا اور کچھ تجارتی حلقوں نے اسکی مخالفت کی جبکہمخلوط حکومت کی اکائی بی جے پی نے اسکی مخالفت کرتے ہوئے اسے ہندئوں کے مذہبی حقوق میں مداخلت سے تعبیر کیا تھا حالانکہ بادی النظر میں مصرفانہ رسوم پر روک لگانے کا عمل کسی بھی مذہب یا سماج میں ناجائز نہیں ٹھہر سکتا ہے۔ اس کے بعد حکومت کی جانب سے اس سمت میں کوئی سرگرمی دکھائی نہیں دی اور رفتہ رفتہ بات آئی گئی ہونے لگی۔ حالانکہ ہمارے پاس ایسی مثالیں ضرور موجود ہیں کہ موقع میسر ہونے پر بیشتر لوگ کفایت شعاری کو ترجیح دینے کو مقدم رکھتے ہیں۔ سال 2016کے ایام میں منعقدہ شادیوں کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں، جب ایجی ٹیشن کے بہ سبب شادی بیاہ کی ساری تقاریب کم و بیش سادگی سے انجام دی گئی تھیں اور اس پر تمام حلقوں نے اطمینان کا اظہار کیا تھا۔ ظاہر بات ہے کہ اگر حکومت چاہئے تو ایسا ماحول ضرور پیدا کرسکتی ہے، جس میں شادی بیاہ کی تقاریب سادگی کے ساتھ انجام پائیں اور معیشی طو رپر سماج کو نقصان سے دو چار ہونے سے محفوظ رکھا جا سکے ۔ بلکہ ا س سے آگے بڑھ کر شادی بیاہ میں جہیز کے لین دین کی مذموم صورتحال پر قابو پانے میں پہل کی جانی چاہئےتھی ، جس کی وجہ سے ہمارے سماج میں کم آمدن وانی طبقے کی سینکڑوں لڑکیاں ہاتھ پیلے کرنے کی آرزو لئے بڑھاپے کی حدوں کو چھو رہی ہیں۔ یہ ایک انتہائی دل شکن بات ہے کہ کشمیری سماج میں گزشتہ کچھ برسوں سے جہیزی اموات کے کئی معاملات سامنے آئے ہیں اور یہ رحجان آگے بڑھ کر نہایت ہی خطرناک ثابت ہوسکتاہے۔ماضی میں سماج کےمختلف طبقوں سے تعلق رکھنے والے سرکردہ حضرات نے شادی بیاہ میں فضول خرچیوں کے معاملے پر ایک محاذ بنا کر اصلاح احوال کی کوششیں کی تھیں لیکن بعد اذاں نامعلوم وجوہات کی بنا پہ انہوں نے بھی اپنے ہاتھ کھڑے کر دیئے۔ وقت کی ضرورت ہے کہ سماج کا سنجیدہ فکر طبقہ متحرک ہو کر اس سماجی ناسور کے خاتمہ کے لئے منظم اور بھر پور کوششیں کرے ۔حالیہ ایام میں متحدہ علماء کونسل نے متفقہ طو پراس جلتے ہوئے مسئلے پر زبردست تشویش کا اظہار کرتے ہوئے متعلقہ معاملے پر ایک ہمہ گیر رابطہ مہم چلانے کا عندیہ دیاہے، جو خوش آئند ہے۔ اگر حکومت میں اس مسئلے کے تئیں سنجیدگی کی کوئی رمق موجود ہے تو وہ علماء کونسل کو اعتماد میں لے کر کوشش کرے۔ اگر ایسا نہیں ہوتا ہے تو یہ حکومت کی ناکامی کے ساتھ سماج کی انتہائی بد نصیبی ہوگی۔