کہاوت ہے کہ کسی زمانے میں جب ملک ِکشمیر میں قحط سالی کی صورت حال پیدا ہوئی تو بادشاہِ وقت نے اس پر قابو پانے کے لئے نہ صرف اپنے شاہی باورچی خانے میں کام کرنے والے خانساماں بلکہ ملک کی تمام رعایا کے نام ایک شاہی حکم جاری کروادیاتھا کہ لوگ روزمرہ کے سات کھانوں میں ایک پکوان ترک کردیں، حالانکہ غریب عوام کے یہاں ایک بھی پکوان نہیں پکتا تھا۔اب اگر مان لیا جائے کہ اُ س بادشاہ ِزماں نے یہ حکم دادِ عیش و عشرت اور شاہی راگ رنگ کی مستی میں ہی جاری کیا ہوگا لیکن اب اگر دورِ حاضر پر نظر ڈالیں تو موجودہ حکمرانوں کی طرف سے بھی کچھ اسی اندازکے حکم نامے نہ جانے کس رنگا رنگی میں جاری ہونے لگے ہیں کہ عقل دھنگ رہ جاتی ہے اور انسان یہ سوچنے اور سمجھنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ کیا یہ حکم نامے بھلا ہوش و حواس میں ہی جاری کئے جارہے ہیں؟ذرا غور کیجئے۔حال ہی میں اپنی اس ریاست جموں و کشمیر کی مخلوط سرکار کی طرف سے بھی’’گیسٹ کنٹرول ‘‘کے نام پر ایک حکم نامہ جاری ہوا،جس میں ریاستی عوام سے کہا گیا کہ وہ شادی بیاہ کی تقریبات میں لڑکی والے چارسو اور لڑکے والے پانچ سو مہمانوں کے لئے کھان پان یعنی وازوان میں محض سات کھانوں(ضیافتوں) کا ہی اہتمام کریںتاکہ غذائی اجناس ضائع ہونے سے بچ جائیں اورخوراک کی قلت پر بھی قابو پایا جاسکے۔اس سرکاری حکم نامہ ،جس کا کوئی پیمانہ درست ہے نہ کوئی گز برابر،میں ان سات پکوانوں میں گوشت ،مرغ اور دیگر اجناس کے استعمال کی کوئی حد یا مقدار مقررنہیں رکھی گئی ہے اورنہ ہی جہیز کے لین دین کے متعلق کسی بات کا تذکرہ ۔ ظاہر ہے کہ اپنی اس وادی میںشادی بیاہ کی تقریبات میں مدعومہمان حسب روایت چار چارآدمی بیٹھ کر (ایک ہی ترامی میں)اکٹھا کھانا کھاتے ہیں ۔حسب معمول فی ترامی پر جتنے بھی پکوان ڈالے جاتے ہیں ،وہ کم سے کم تین کلو اور زیادہ سے زیادہ چار کلو گوشت کی مقدار پر مشتمل ہوتے ہیں، جس میں مرغ شامل نہیں ہوتاجبکہ دیگر لوازمات و مشروبات اس کے علاوہ ہوتے ہیں۔جس سے یہ بات بخوبی ظاہر ہوتی ہے کہ اس حکومتی’ گیسٹ کنٹرول‘ کے تحت شادی بیاہ کی دعوتی تقریب پر چار سو یا پانچ سو آدمیوں کے لئے تین یا چار کوئنٹل گوشت پکانے میں نہ کوئی حرج اور نہ کوئی ممانعت ہے۔حالانکہ اس وقت بھی وادیٔ کشمیر کی اکثریتی آبادی جو متوسط طبقہ سے منسلک ہیں،شادی بیاہ کی تقریبات پر دعوتی مہمانوں کے لئے عموماًکم سے کم تیس سے چالیس اور زیادہ سے زیادہ ساٹھ تا پنجساٹھ ترامیوں کے لئے وازوان کا اہتمام کرتے ہیں ، جس سے مہمانوں کی کل تعداد کم از کم ڈیڑھ سواور زیادہ سے زیادہ اڑھائی سو افراد تک ہی بنتی ہے لیکن شومئی قسمت اب حکومت کی ہی طرف سے نہ معلوم کیوں چار اور پانچ سو افراد کے کھانے پینے کا انتظام کرنے کا حکم نامہ جاری ہوچکا ہے ؟ شائد یہی وجہ ہے کہ کچھ حکومتی ارکان نے ہی اس گیسٹ کنٹرول کا دھیمے الفاظ میں خیر مقدم کیا ہے جب کہ عام لوگوں نے اس نیم خام سرکاری حکم کا کوئی ہی نوٹس لیا اور نہ کوئی ردِعمل ظاہر کیا ہے البتہ بعض دینی و سماجی رہنمائوں نے لوگوں پر زور دیا ہے کہ وہ از خود معاشرتی فلاح و بہبود کے کاموں پر توجہ دیں اور شادی بیاہ کی تقریبات میں بدعات ،نمودو نمائش ،دکھاوا اورفضولیات سے اجتناب کریں۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ شادی بیاہ کی تقریبات میں ہی نہیں بلکہ منگنی یا دوسری کئی مجالس اور محافل،یہاں تک کہ تعزیتی مجالس میں بھی وادی ٔ کشمیر کے مالدار لوگ اورنو دولتیے دعوتی پروگراموںمیںوازہ وان پر بے حساب گوشت پکواتے ہیں اور دیگر لوازمات پر نمود و نمائش ،بدعات و اسراف پر جس طرح روپیہ پیسہ لُٹا تے جاتے ہیں ،اُس سے معاشرے کی تنزلی و بے حسی کا بخوبی مظاہرہ ہورہا ہے ۔ یہ وہ طبقہ ہے جسے پیسے کی فراوانی ہے اور جو ہر معاملے میں اپنی جھوٹی شان اور اناکے لئے یا ایک دوسرے پر سبقت لینے کے لئے اس طرح کی فضولیات اور دکھا وا کا بھرپور مظاہر ہ کرتا رہتا ہے اور اپنے بیٹے بیٹیوں کے شادی بیاہ کی تقریبات پر کئی کئی دن تک دعوتی مجالس کا اہتمام کرتے ہیںاور دس دس بیس بیس کوئنٹل گوشت صرف کرتے ہیں۔ دوسری طرف معاشرہ کاوہ طبقہ ،جن کی محدود آمدنی پر گزر بسر ہورہی ہے ۔اس طبقہ کے لئے اپنے بچوںکے جہیز کا انتظام اور شادی بیاہ کی تقریبات کا اہتمام مشکل ہی نہیں ناممکن بن چکا ہے جبکہ موجودہ وقت میں ایک غریب خاندان کے لئے اپنے بچوں کے لئے جہیز کی تیاری ایک چیلنج بن گئی ہے۔دیکھا جارہا ہے کہ جو لوگ جہیز نہین دے پاتے اُن کی بچیاں گھروں مین بیٹھی بیٹھی بوڑھی ہوجاتی ہیں،اسی لئے معاشرے کی 80فیصدآبادی کے مطابق آج کے دور میں جہیز ایک مجبوری ہے اور کچھ نہ کچھ حد تک ضرورت بھی۔اوریہ صورت حال معاشرے کے استحکام کو دن بدن زک پہنچارہی ہے ۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ معاشرے میں فضول خرچی بھی فیشن کی صورت اختیار کرگئی ہے ۔حالانکہ ہمارا دین ہمیں سادگی ،میانہ روی اور قناعت کی تعلیم دیتا ہے مگرصاحب ثروت اور مالدار لوگ نام و نمود اور دکھاوا کے کاموں پر بہت سی شکلوں میں فضول خرچی کی روایت قائم کرچکے ہیںجو اب متوسط اور غریب لوگوں کے لئے بھی ایک مجبوری کی شکل اختیار کر گئی ہے۔شادی بیاہ کی مقدس رسم کو تجارت بنانے اور اس سلسلے میں منعقدہ تقریبات کو فضولیات اور برائیوں میں تبدیل کرنے کے خلاف وقفہ وقفہ کے بعد لوگوں میں ایک نئی سوچ ضرور اُبھر آتی ہے اور وہ معاشرے میں پھیلی ہوئی ان برائیوں اور خرابیوں کو معاشرے کے لئے تباہ کُن خیال کرکے بہتری کی خواہش کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں لیکن عملی طور کوئی بھی ان بدعتوں اور برائیوں سے بالاتر نہ ہونے کے سبب یہ سوچ خود بخود دم توڑ بیٹھتی ہے اور ان برائیوں کا کوئی انسداد نہیں ہوپارہا ہے بلکہ دن بدن اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔جس سے یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ ہمارے معاشرے میں حق و صداقت جس طرح مغلوب ہوکر رہ گیا ہے اُس کے نتیجے میں ہمارے اردگرد ایک ایسا ماحول پروان چڑھ گیا ہے کہ اب زندگی کا طرز عمل خالص مادی بنیادوں پر چل رہا ہے اور ایک ایسے نام نہاد آزادانہ تمدن کی نشو و نما مل گئی ہے جو الحاد اور اخلاقی فساد کے ساتھ تیزی سے پھل پھول رہی ہے ۔یعنی اس مادہ پرست زہنیت اور طرز زندگی نے تقریباً ہر فرد کو اپنے نفس کا غلام بنا کر رکھ دیا ہے ،ہر شخص روپیہ پیسہ کی فراوانی کے لئے ہی سرگرداں ہے، قطع نظر اس کے کہ وہ پیسہ حلال ذرائع سے حاصل ہورہا ہے یا حرام طریقے پر ۔برائیوں ،خرابیوں بدعتوں ،رسم ورواج ،جہیز کا لین دین،بڑی بڑی دعوتیں ،نمود و نمائش ،دکھاوا وغیرہ کا ایک بڑا سبب بہت حد تک یہی پیسہ قرار دیا جارہا ہے جو یہاں لوگوں کو حرام ذرائع سے آسانی کے ساتھ حاصل ہوجاتا ہے ۔حد سے زیادہ منافع خوری ،سرکاری رقومات کی لوٹ کھسوٹ ،رشوت ستانی ،منشیات کا دھندا ، ملاوٹ خوری ،نقلی مال کا کاروبار ، غیر معیاری اور گھٹیا ادویات کی خریدو فروخت اسی مادہ پرست ذہنیت کی شکلیں ہیں جس سے ہماری تہذیبی اقدار ،ہماری معاشرتی زندگی اور ہماری مذہب سے وابستگی المناک حد تک متاثر ہوچکی ہے ۔یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ ہمارے مذہبی،سماجی اور سیاسی رہنما بھی اس قابل نہیں رہے کہ اُن کی کوئی اچھی رائے یا کوئی مثبت بات لوگوں پر اثر انداز ہوتی۔شائد اس لئے کہ وہ ہمیشہ سِوائے بیان بازیوں کے کردار سازی کی کوئی ٹھوس کوشش نہ کرسکے بلکہ لوگوں کو فضول باتوں میں ہی اُلجھا کر اپنے نجی و سیاسی مفادات حاصل کرتے رہے ۔ رہی یہاں کی حکومت ،جس کی انتظامیہ میں شامل زیادہ تر لوگ جو اسی معاشرے کا حصہ ہے اور ہر رنگ میں رنگ کر انتظامی امور پر فائز ہوچکے ہیں وہ عوامی مسائل اور لوگوں کی مجبوریوں سے بے خبر صرف اپنے مفادات کے حصول میں مصروف ہیں اور محض اپنی کرسی بحال رکھنے کی فکر میں لگے ہوئے ہیں اور ہر معاملے اور مسئلے میں اپنی بے جا بیان بازیوں اور دعووںکے بلبوتے پر ہی اپنی موجود گی ظاہر کرنے میں پیش پیش تو رہتے ہیں لیکن عملی طوروہ کچھ کرنے کے اہلیت ہی نہیں رکھتے۔ ظاہر ہے کہ ہمارے معاشرے میں معاشرتی برائیوں کو اس قدر فروغ حاصل ہوچکا ہے کہ نہ صرف ہماری انفرادی زندگی بلکہ اجتماعی زندگی بھی اجیرن ہوکر رہ گئی ہے ۔حالانکہ بُرائیوں نے ہمیں اُتنا نہیں گھیرا جتنا کہ ہم نے خود ہی ان بُرائیوں کو اپنالیا ہے ، معاشرے کے ہر فرد کی ذاتی کوتاہی،سُست روی ،بے حسی اور دین بیزاری کے کارن ہی ہم بُرائیوں کی لپیٹ میں آگئے اورہم اپنی خوبیوں کو خیر باد کہہ گئے ہیں۔ جس کے نتیجہ میںاب ہمارے یہاںہر میدان اور ہر شعبہ ٔ کاروبار میں حق پرستی ،اصول پرستی اور اجتماعی مفاد کی جگہ خود غرضی اور نفس پرستی نے لے لی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس ہمہ گیر خرابی میں بہتری کی صورت آسانی کے ساتھ پیدا نہیں ہوجاتی۔بُرائیوں کی روک تھام تو معاشرے کی بنیاد درست کرنے سے ممکن ہے اور جب تک بنیاد درست نہیں کی جاتی ،خرابیوں کا انسداد نہیں کیا جاسکتا ۔اس لئے معاشرے میں بہتری لانا مشکل نظر آتا ہے تاہم اگر دینی ،سماجی اور سیاسی جماعتوں کی طرف سے صحیح سمت میں کوشش کی جائے اور عوام کی طرف سے عزم و استقلال کا مظاہرہ ہو جائے تو معاشرے میں بڑی حد تک اصلاح کاخواب شرمندہ تعبیر ہوسکتا ہے ۔محض اعلانات ،بیانات اور اپیلوں سے معاشرے میںنہ کبھی ماضی میںکوئی اصلاح ہوئی ہے اور نہ ہی مستقبل میں ہونے کی کوئی امید ہے ۔ضرورت ہر طرف سے عملی طور پر کام کرنے کی ہے۔جب عملی طور پر کچھ کیا جائے تو ممکن ہے لوگ اپنی روش بدلنے کی کوشش کریںکیونکہ معاشرے میں بہتری تو لوگوں کے تعاون سے ہی ممکن ہوسکتی ہے اس لئے جہاں ترغیب و تحریک کی ضرورت ہے وہیں بعض سخت اقدامات بھی لازمی ہیں ،تمام برائیوں کو یکایک تو دور نہیں کیا جاسکتا لیکن آہستہ آہستہ یکے بعد دیگرے اقدامات سے معاشرے میں بہتری کا مقصد حاصل کیا جاسکتا ہے اور اگر لوگ ایماندانہ طریقے پرصدقدلی سے کوششیں جاری رکھیں تو ایک پاکیزہ معاشرہ وجود میں آنے میں زیادہ دیر نہیں لگے گی۔ اس لئے انفرادی طور پر معاشرے کے ہر فرد کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس حوالہ سے اپنا مثبت کردار ادا کرے تاکہ اُن بچیوں کے ہاتھوں میں بھی مہندی لگ جائے جو جہیز نہ ہونے اور بڑی بڑی دعوتیں نہ دینے کے باعث اپنے والدین کے کندھوں پر بوجھ بنی ہوئی ہیں۔بے شک وہ دینی،فلاحی اور سماجی تنظیمیں قابل قدر اور قابل فخر ہونے کے ساتھ ساتھ مبارک بادی کی مستحق ہیں جو معاشرے میں موجود غریب والدین کے بچیوں کی شادیاں کروانے میں اپنا حت المقدوراہم رول ادا کررہی ہیں،اس کے علاوہ بہت سے ایسے افراد بھی معاشرے میں موجود ہیں جو اس نیک کام میں مصروف عمل ہیں۔ اب یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایک منصوبہ بند طریقے پر کشمیر کے اکثریتی عوام کے نمائندوں،سماجی و دینی رہنمائوں کے متفقہ فیصلہ کے مطابق گیسٹ کنٹرول کے نفاذ کے لئے ٹھوس بنیادوں پر اعلیٰ سطحی کمیٹیاں قائم کریں اور جہیز کے لین دین کے تعین کے ساتھ ساتھ دعوتی تقریب پراستعمال ہونے والے گوشت اور دیگر اجناس کی حد اور مقدار مقرر کرے ،ورنہ جس طرح کے گیسٹ کنٹرول کا حکم نامہ جاری کیا گیا ہے وہ حکومتی ایوانوں اور ریاستی انتظامیہ میں بیٹھے ہوئے لوگوں کی شاہی سوچ کا ہی عکاس ہے ۔،جس سے نہ معاشرے کی کوئی اصلاح ہوگی اورنہ غریب طبقوں سے وابستہ لوگوں کی کثیر آبادی کا کوئی بھلا ہوگا ۔