حسبِ معمول میں گھر سے یونیورسٹی کے لیے روانہ ہوا۔سومو اسٹینڈ کی طرف چلتا بنا کہ رستے میں میرے بچپن کے ہم جماعتوں میں سے ایک کی ماں نے مجھے روکا اور کہا ”کہاں جا رہے ہو“۔”اننت ناگ جا رہا ہوں“ میں نے جواب دیا۔انہوں نے بولا آجاؤ یہاں میرے ساتھ بیٹھو۔میں نے پوچھا ”آپ کو کہاں جانا ہے“۔انہوں نے جواب دیا کہ ”مجھے سرینگر ڈاکٹر کے پاس جانا ہے“۔یہ سن کر مجھے لگا کہ یہ گاڑی کا انتظار کر رہی ہیں اور اب چاہتی ہیں کہ دونوں ایک ہی گاڑی میں سوار ہوجائیں گے۔جب مجھے یہ لگا تو میرے دماغ میں کئی طرح کے خیالات رونما ہوئے۔میں اندر ہی اندر خود سے کہنے لگا اب مجھے اس کا کرایہ بھی ادا کرنا پڑیگا۔ اس کے روپیہ اور اپنے تیس روپے مطلب مجھے ساٹھ روپیہ دینا ہے ۔۔۔۔خدایا رحم۔
میں اسی سوچ میں محو تھا اور اب تک کوئی گاڑی نہیں آئی تھی کہ اچانک ایک K-10گاڑی ہمارے سامنے اس کے بیٹے یعنی میرے بچپن کے ہم جماعت نے، کھڑی کی اور خود گاڑی سے اتر کر کسی دکان میں چلا گیا۔میں نے اس کی طرف خاص توجہ نہ دی اور میں گاڑی کے لیے نظریں یہاں وہاں دوڑانے لگا۔تاکہ ہم یعنی اس کی ماں اور میں گاڑی میں سوار ہوکر اننت ناگ کے لیے روانہ ہوجائیں۔ایک دو منٹ ہوگئے تو اس کا بیٹا دوکان سے واپس آکر مجھے کہنے لگا ”مرتضیٰ کہاں جا رہے ہو“۔”اننت ناگ جا رہا ہوں“۔میں نے جواب دیا۔یہ سنتے ہی اس نے کہا ”پھر ہمارے ساتھ ہی ہماری گاڑی میں آؤ اننت ناگ تک“۔یہ سن کر اس کی ماں نے مجھ سے کہا ”اس کو بولو مجھے ماں نے اس سے پہلے ہی روک کر رکھا ہے“۔یہ سن کر میں اندر ہی اندر پانی پانی ہوگیااور خود کو کوسنے لگا۔
اب جب گاڑی میں سوار ہوئے تو اس کی ماں نے کہا”بیٹا دنیا سے کیا لینا ہے،خالی ہاتھ آئے اور خالی ہاتھ جانا ہے،آپ ہمارے ساتھ ہماری گاڑی میں آگئے،اس سے گاڑی کو کیا ہوگا“۔یہ سن کر میں سوچنے لگا کہ دیکھو ابھی تک میں کیا سوچ رہا تھا اور میں نے خود کو کہا کہ ”میں کتنا گھٹیا ہوں“۔
رابطہ؛شانگس اننت ناگ، طالب علم :ساؤتھ کیمپس کشمیر یونیورسٹی،موبائل نمبر؛9596411285