طارق شبنم
سورج ڈوبنے کا خوب صو رت منظرقابل دید تھا ،اس دلفریب منظر سے سیر کے لئے آئے ہوئے سینکڑوں لوگ لطف اندوز ہورہے تھے ۔جھیل کنارے واقع رنگ برنگے پھولوں اور شگوفوں سے مزیںہوٹل ممتاز محل کا وسیع باغ رنگ برنگی ٹمٹماتی روشنیوں میں نہلا کرستارہ سحری کی کرنوں کے ڈھیر کے مانند چمک رہا تھا ۔ میں بے چینی کے عالم میں ریسٹورنٹ کی کھڑکی سے ایک نظرباغ میں موجود لوگوں کی بھیڑ ،جو ہر لمحہ بڑھتی ہی جا رہی تھی، کو دیکھ رہا تھااور ایک نظر سے رضوان کو، جو چائے کی چسکیاں لینے ہوئے اخبار پڑھ رہا تھا۔
’’آج بڑے خوش نظر آرہے ہو‘‘۔
تنگ آکرمیں نے رضوان کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لئے کہا۔
’’خوش۔۔۔۔۔۔ کس بات پر؟‘‘
میری بات پر وہ چونک پڑا۔
’’ارے یار ۔۔۔۔۔۔اتنی اچھی نوکری ملی ہے اور چھوکری ۔۔۔۔۔۔ میرا مطلب ہے اب جلد ہی تمہاری شادی بھی ہونے والی ہے‘‘ ۔
میں نے رضوان کو چھیڑنے کے لئے مذاق ہی مذاق میں پھبتی اڑاتے ہوئے کہا۔
’’کیا بات کرتے ہو راشد ۔۔۔۔۔۔‘‘۔
’’کیوں! کسی حسینہ کے زلفوں کے اسیر ہوگئے ہو کیا؟‘‘
میں نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔
’’تم نہیں سدھرو گے‘‘۔
کہتے ہوئے رضوان کے چہرے پر کئی بل آئے ،وہ ریسٹورنٹ سے باہر نکل کر جھیل کنارے ایک درخت کے نیچے بیٹھ کر گہرہ سوچوں میں ڈوب گیا۔ میں بھی اس کے پیچھے پیچھے نکل کر جھیل کنارے گھومنے لگا۔ رضوان آج بڑی مشکل سے پکنک جانے کے لئے راضی ہوا تھا اور مجھے یقین تھا کہ آج وہ خوش ہے اور ہم دونوں سیر و تفریح کے ساتھ ساتھ خوب گپ شپ کرینگے۔لیکن ایک پر کشش سیاحتی مقام ،جہاں ہر طرف رو نقیں بکھر ی ہوئی تھیں، پر بھی وہ تفریح کے بجائے حسب عادت اداس ہو کر گہری سوچوں میں ڈوب گیا۔
رضوان میرا ہم جماعت اور بچپن کا لنگوٹیا یار تھا۔ حساس طبیعت اوربے ترتیب عادات کا مالک تھا ،جس کے چہرے پر شاز و نادر ہی خوشی کی پرچھائیاں دیکھنے کو ملتی تھیں۔ ہر سال کلاس میں دوسرے طلباء سے زیادہ نمبرات حاصل کرکے اول آنے کے باوجود وہ اپنی کامیابی پر کبھی نازان نہیں ہوتا تھا جب کہ میں اور دوسرے دوست بہت کم نمبرات حاصل کرنے کے باوجود موج مناتے تھے ۔ کالج میں زیر تعلیم کئی خوب صورت لڑکیاں اس پر جان چھڑکتی تھیں، لیکن کیا مجال کہ اس نے کبھی کسی پر رتی بھر توجہ دی ہو ۔چند سال قبل گریجویشن مکمل کرنے کے بعد جب مجھے کلرک کی نوکری ملی تو میری خوشیوں کا کوئی ٹھکانہ نہیں رہا ۔نوکری ملنے کے کچھ مہینوں بعدہی میرے والدین نے درجہ چہارم کی نوکری کرنے والی نفیسہ سے میری شادی کردی جو انہیں ڈھونڈ ڈھونڈ کے بڑی مشکل سے ملی تھی ۔ حالانکہ میرے ساتھ ہی رضوان کو بھی یہ نوکری ملی تھی لیکن اس نے ٹھکرائی ۔اس کی عادتیں ،انداز گفتگو،چیزوں کو محسوس کرنے کے طریقے عام انسانوں سے بالکل مختلف تھے ۔وہ تنہائی پسند اور لوگوں سے بہت کم میل جول رکھتا تھا ۔بہت زیادہ سوچتا تھا ،گھنٹوں مطالعے میں مصروف رہتا تھا اور پابندی سے اپنی ذاتی ڈائیری تحریر کرتا تھا۔کبھی بھی یار دوستوں یا دوسرے افراد کے ساتھ بے مقصد باتوں پر گفتگو میں حصہ نہیں لیتا تھا بلکہ اپنے ہی مزاج اور معیار کے لوگوں کی تلاش میں رہتا تھا۔
رضوان بظاہر کامیاب زندگی گزار رہا تھا ،اس کو کسی چیز کی کمی نہیں تھی لیکن ہر سہولیت میسر ہونے کے باوجود وہ کچھ عرصہ سے اکثر اوقات اداس اور سوچوں میں گم رہتا تھا ۔کبھی کبھی اچانک اس کا موڈ بدلتا اور وہ سخت رنجیدہ ہوتا،بعض اوقات یہ دورانیہ ہفتوں تک محیط رہتا تھا جس دوران وہ سخت بے چینی اور بے دلی کا شکار ہوتا تھا ۔اپنے ہی وضع کردہ اصولوں پر عمل پیرا ہونے کے سبب اپنے آپ کو زندگی کی کئی نعمتوں حتاکہ کبھی کبھی رشتوں سے بھی محروم کر دیتا تھا ۔ رضوان کا زندگی گزارنے کا یہ طریقہ مجھے بالکل پسند نہیں تھااور کبھی کبھی مجھے اس پر بہت غصہ آتا تھا لیکن دوستی کے ہاتھوں لاچار تھا ۔
کچھ دیر سوچتے سوچتے جھیل کنارے ادھر اُدھر گھومنے کے بعد میں رضوان کے پاس واپس آیا تو وہ سنجیدہ انداز میں اپنی ڈائیری پر کچھ لکھنے میں مصروف تھا ۔میں اس کے قریب ہی بیٹھ گیا تاکہ اس کے فارغ ہوتے ہی اپنے مقصد کی بات چھیڑدں۔رضوان اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد ایک اچھے انتظامی عہدے پر فائض ہوچکا تھا ،اب اس کے لئے کئی اچھے رشتے آرہے تھے جن میں سے ایک لڑکی ،جو حسن وجمال میںلا جواب تھی، اس کے والدین کو بہت پسند آئی تھی۔وہ رشتہ طئے کرنے کے لئے اتاولے ہو رہے تھے لیکن رضوان کی طرف سے انہیں مثبت جواب نہیں مل رہا تھا ۔ رضوان کی ماں نے اس کو راضی کرنے کی ذمہ داری مجھے سونپی تھی ۔میں رضوان کو اپنی بات کہنے ہی والا تھا کہ دفعتاًاس نے ڈائیری نیچے رکھی ا ور باغ کے ایک کونے میںموجود واش روم کی طرف چلا گیا ۔کچھ لمحوں بعد ہوا کا ایک تیز جھونکا آیا اور ڈائیری کو کچھ دور لے گیا ۔میں نے اٹھ کر جونہی ڈائیری اٹھائی تو اچانک میری نظر رضوان کی تحریر کردہ تازہ تحریر پر پڑی۔
’’ ایک عرصے سے میں عجیب گھٹن کا شکار ہوں ، ممی اور ڈیڈی میرے لئے آنے والے کئی اچھے رشتوں کو صرف اس وجہ سے ٹھکرا چکے ہیں کیوں کہ ان کے پاس دھن دولت نہیں تھا ۔اب ان کو میری شادی اس لڑکی ،جو ایک امیر باپ کی بیٹی اور پیشے سے ڈاکٹر ہے ،سے کرنے کی جلدی ہے ۔حالانکہ ہمارے ہی خاندان میں کئی تعلیم یافتہ ،نیک سیرت بالغ لڑکیاں مجسمے بنی ہوئی ہیں،جن کے ہاتھ محض اس وجہ سے مہندی کے لئے ترس رہے ہیں کیوں کہ انہیں کوئی سرکاری نوکری نہیں مل پا ئی ہے‘‘ ۔
���
اجس بانڈی پورہ ، کشمیر
ای میل; [email protected]، موبائل نمبر؛9906526432