سبزار احمد بٹ
شجاعت اپنے آنگن میں کچھ کام کر رہا تھا کہ روشنی نے دروازہ کھولا اور اندر آئی ۔ دونوں ایک دوسرے کو ٹکٹکی باندھ کر دیکھ رہے تھے، شاید ایک دوسرے کو پہچاننے کی کوشش کر رہے تھے۔ روشنی اور شجاعت پندرہ سال بعد ایک دوسرے سے ملاقی ہو رہے تھے ۔ دفعتاً روشنی کے منہ سے نکلا۔ شجاعت کیسے ہیں آپ ؟
شجاعت خاموش روشنی کے چہرے کی طرف ٹکٹکی باندھے دیکھ رہا تھا۔
شجاعت۔۔۔۔پہچانا مجھے ؟ میں روشنی ہوں روشنی۔ یاد ہے ہمارے گھر پاس پاس تھے اور آنگن ایک ہی تھا۔ سارا بچپن اسی آنگن میں ہم نے ہنستے کھیلتے گزارا ہے ۔ شجاعت پانی کی بالٹی زمین پر رکھتے ہوئے اپنے آپ کو سنبھالنے لگا۔ جیسے جوانی کے وہ سارے قصے اس کی آنکھوں کے سامنے رقص کرنے لگے۔
۔ ہاں ہاں روشنی یاد ہے لیکن تمہاری شکل و صورت تو بالکل بدل چکی ہے۔ وہ حسن، وہ جوانی، ۔۔۔۔
یہاں کس چیز کو ثبات حاصل ہے شجاعت ۔ بدلے تو آپ بھی ہیں اور وہ آنگن وہ گھر، سارا نظام ہی بدل گیا ہے یہاں ۔ کچے مکان کی جگہ اب ایک کنکریٹ مکان نے لی ہے۔ جہاں پر گائے ہوتی تھی اس جگہ اب چمچماتی گاڑی نظر آتی ہے اور وہ بوڑھا درخت بھی تو نہیں ہے جس کی چھاؤں کے نیچے ہم کھیلتے تھے۔ ۔تمہیں یاد ہے شجاعت ہم کالج تک ساتھ پڑھے تھے اور ہمیں اپنے آپ پر ناز تھا کیونکہ گائوں کے ہم ہی دو تھے جو کالج جاتے تھے۔اور اگر ایک دن بھی ہم ایک دوسرے سے الگ رہتے تو جی نہیں لگتا تھا۔ ہاں ہاں روشنی سب کچھ یاد ہے ۔ بھلا میں تمہیں کیسے بھول سکتا ہوں ۔میں نے تو پوری عمر ہی تمہارے ساتھ گزارنے کا سوچا تھا لیکن تمہیں گاؤں سے زیادہ شہر اور شہری بابو اچھے لگتے تھے ۔ اسی لئے میری درخواست ٹھکرا دی شادی کی ۔ کاش نہیں ٹھکرائی ہوتی،
روشنی نے بہت ہی دھیمی آواز میں بولا۔ کچھ کہا تم نے روشنی ۔۔ نہیں نہیں میں نے کچھ نہیں کہا۔ بس یہ مقدر کا کھیل ہے اور کیا ۔ اچھا اپنے بارے میں بتاؤ کیسے ہو۔ اور گاؤں کے باقی لوگ کیسے ہیں ۔ اب بھی ایک دوسرے کے گھر جاتے ہو کیا؟ اب بھی شادیوں پر لڑکیاں گیت گاتی ہیں ؟ اب بھی کسی کی موت کا دکھ پورا گاؤں مناتا ہے کیا ؟ دھان کی پنیری لگانے اب بھی لڑکیاں جاتی ہیں کیا؟ ہاں ہاں بالکل ایسا ہی ہوتا ہے لیکن تم یہ سب کیوں پوچھ رہی ہو اور تمہارا پھول جیسا چہرا کیوں مرجھایا ہوا ہے ۔ تمہارے شہر میں ایسا نہیں ہوتا ہے کیا۔ نہیں نہیں میرے شہر کی تو بات ہی الگ ہے ۔ وہاں ہر شخص کی اپنی ایک الگ ہی دنیا ہے۔ کیا مطلب ہے آپ کا۔ میرا مطلب ہے کوئی کسی کو نہیں جانتا ہے۔ کوئی مرے یا رہے کسی کو فرق نہیں پڑتا ۔ پندرہ سال ہوئے میری شادی کو لیکن کسی کو نہیں جانتی ہوں ۔ شجاعت حیرت سے۔ لیکن ایسا کیوں؟
ایسا اس لئے کیونکہ ہر گھر کی اپنی ایک الگ دیوار ہے، الگ دنیا ہے۔
اور کوئی خاص بات بتاؤ اپنے شہر کی۔
میرے شہر کا کیا کہنا،مردے دفنانے کے لئے بھی پیسے دینے پڑتے ہیں اور کوئی کسی کا نہیں ہے۔ یہ کہہ کر روشنی نے سر جھکایا اور دو موتی جیسے آنسوں اس کی آنکھوں سے گر کر اس کے دامن میں آ ٹپکے۔ ۔ روشنی یہ کیا تم رو رہی ہو۔ نہیں نہیں شجاعت شہر میں رونے کی عادت بھی نہیں رہی ۔ وہاں تو کھل کے رو بھی نہیں سکتے ۔روشنی تمہیں تو بچپن سے ہی شہر پسند تھے نا۔ تم آج یہ بہکی بہکی باتیں کیوں کرتی ہو۔ میں بہت خوش تھا کہ تمہیں اپنی پسند مل چکی ہے۔ شہر میں شادی کر کے لیکن۔۔۔
ہاے ایک طرف میری نادانی اور دوسری طرف قسمت مجھے کھینچ کر گاؤں کی چھاؤں سے شہر کی تپتی دھوپ میں لے آئی۔ خیر شجاعت آج کئی سالوں کے بعد گاؤں آئی ہوں تو گاؤں کی بات کریں گے۔ یہ بتاؤ کوئی بیمار ہو جائے تو کیا اب بھی پورا گاؤں اس کی عیادت کو جاتا ہے۔ گھروں میں اب بھی مرغے پالتے ہو کیا۔ روشنی اب گاؤں آئی ہی ہو تو خود ہی دیکھ لو سب کچھ۔
نہیں شجاعت نہیں ہمارے پاس تم گاؤں والوں کی طرح فرصت کہاں ہے۔ ہمیں تو کھانا بنانے کی بھی فرصت نہیں ہے ہم تو وہ بھی آرڈر ہی کر لیتے ہیں ۔
اچھا یہ بتاؤ گاؤں میں گائے پالنے کا اب بھی رواج ہے۔ کیا اب بھی ان ہمسایوں کو دودھ بیجھا جاتا ہے جن کے گھروں میں گائے نہ ہو۔
ہاں ہاں روشنی گاؤں میں اب بھی لوگ گائے شوق سے پالتے ہیں۔ کیوں تمہارے شہر میں گائے نہیں پالتے لوگ۔ نہیں شجاعت ہم تو بالکل الگ قسم کے لوگ ہیں دودھ کے پیکیٹ بھی بازار سے لاتے ہیں ۔
خوش نصیب ہو تم روشنی تمہیں تو بچپن سے ہی ان کاموں سے نفرت تھی اور بچپن سے ہی تم راج کرنا چاہتی تھی۔ ہم تو گاؤں کے لوگ ہیں ہمیں بیٹھنا اچھا نہیں لگتا۔ ہم تو ہمہ وقت کام کرتے رہتے ہیں ۔ ہم تمہاری طرح آرام طلب کہاں ہیں ۔میں اس وقت بھی گائے کے لئے پانی ہی لے جارہا تھا کہ تم سے ملاقات ہوئی ۔شہر میں شادی کر کے تمہارے خواب پورے ہو گئے ہونگے ۔
ہاں ہاں شہر میں شادی کر کے میں نے گھٹن مول لی ہے اور گاؤں میں رہ کر تم آزاد فضاؤں میں سانس لے رہے ہو ۔
���
اویل نور آباد ،کولگام، [email protected]
موبائل نمبر؛7006738436