مختار احمد قریشی
خواتین کسی بھی گھر کی ریڑھ کی ہڈی ہوتی ہیں اور ان کے فیصلے پورے خاندان کی ترقی، سکون اور خوشحالی پر گہرے اثرات مرتب کرتے ہیں۔ ایک دانا اور سمجھدار عورت نہ صرف بچوں کی بہترین پرورش کرتی ہے بلکہ گھریلو معاملات میں متوازن اور دور اندیش فیصلے لے کر گھر کو جنت بنا سکتی ہے۔ چاہے بجٹ کی منصوبہ بندی ہو، بچوں کی تعلیم کے انتخاب کا مسئلہ ہویا خاندانی تنازعات کو سلجھانے کی ذمہ داری—ایک عورت اپنی معاملہ فہمی اور حکمت عملی سے ہر مشکل کو آسان بنا سکتی ہے۔ گھر کے اندر خواتین کی شمولیت صرف رسمی نہیں ہونی چاہیےبلکہ انہیں مکمل آزادی اور عزت دی جانی چاہیے تاکہ وہ اپنے خیالات کا برملا اظہار کر سکیں۔
گھریلو معیشت کو سنبھالنے میں خواتین کی ذہانت اور فہم و فراست کسی سے کم نہیں ہوتی۔ آج کی عورت گھر کے اخراجات کی منصوبہ بندی، بچت اور سرمایہ کاری جیسے اہم معاملات میں کلیدی کردار ادا کر رہی ہے۔ وہ نہ صرف بازار کی قیمتوں اور معیار پر نظر رکھتی ہے بلکہ ضروریات اور خواہشات میں فرق کر کے ایک متوازن طرزِ زندگی اپنانے میں مدد دیتی ہے۔ گھر کے فیصلے صرف مردوں کے ہاتھ میں ہونے سے کئی بار ایسے مسائل جنم لیتے ہیں جن کا بہتر حل خواتین نکال سکتی ہیں، کیونکہ وہ زیادہ صبر و تحمل اور گہرائی سے سوچنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ اس کے علاوہ، گھریلو خواتین ہو یا کام کرنے والی خواتین، وہ اپنی دانشمندی سے نہ صرف گھر کا ماحول بہتر بناتی ہیں بلکہ معاشرتی ترقی میں بھی حصہ ڈالتی ہیں۔
خواتین کو گھر کے فیصلوں میں برابر کا حق دینا ایک ترقی یافتہ معاشرے کی نشانی ہے۔ جب خواتین کو اپنے خاندان کے متعلق فیصلے لینے کا اختیار ملتا ہے تو وہ بہتر تعلیم، صحت اور سماجی معیار کی بہتری کے لیے مثبت اقدامات اٹھاتی ہیں۔ ایک خوشحال اور مستحکم گھرانہ وہی ہوتا ہے جہاں مرد اور عورت دونوں مل کر فیصلے کریں اور ایک دوسرے کے خیالات کا احترام کریں۔ خواتین کے فیصلوں کو تسلیم کرنے سے نہ صرف گھر کے اندر ایک خوشگوار ماحول بنتا ہے بلکہ آئندہ نسلوں کے لیے بھی ایک مضبوط بنیاد فراہم کی جاتی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہم خواتین کے کردار کو تسلیم کریں، انہیں بااختیار بنائیں اور انہیں گھر کے تمام اہم معاملات میں شامل کریں تاکہ ہمارا معاشرہ حقیقی معنوں میں ترقی کر سکے۔
خواتین کی دانشمندی اور فیصلہ سازی کی صلاحیت نہ صرف گھریلو ماحول کو خوشگوار بناتی ہے بلکہ نسلوں کی تعمیر میں بھی کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ جب عورت کو مالیاتی، تعلیمی، اور خاندانی امور میں اپنی رائے دینے کا حق ملتا ہے، تو وہ ایسے فیصلے کرتی ہے جو نہ صرف فوری ضروریات کو پورا کرتے ہیں بلکہ مستقبل کی بہتری کے لیے بھی مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر، بچوں کی تعلیم اور ان کی اخلاقی تربیت میں ماں کا کردار بنیادی ہوتا ہے، اور وہ اپنی بصیرت سے بہتر ادارے، تعلیمی ماحول اور سرگرمیوں کا انتخاب کر سکتی ہے۔ اسی طرح، گھریلو اخراجات، بجٹ کی ترتیب، اور غیر ضروری فضول خرچی سے بچنے کے لیے ایک عورت کی حکمت عملی پورے گھرانے کو معاشی استحکام کی راہ پر گامزن کر سکتی ہے۔ ایک سمجھدار خاتون اپنی بچت کی عادت اور کفایت شعاری سے گھر میں مالی مشکلات کو کم کرنے میں مدد دیتی ہے، جس سے خاندان کے افراد کو خوشحالی کا احساس ہوتا ہے۔
خواتین کا کردار صرف مالی اور تعلیمی معاملات تک محدود نہیں بلکہ وہ جذباتی اور سماجی استحکام میں بھی بنیادی حیثیت رکھتی ہیں۔ کسی بھی گھر میں اگر کسی فرد کو ذہنی دباؤ یا پریشانی کا سامنا ہو تو ایک عورت اپنی محبت اور صبر سے اسے سنبھال سکتی ہے۔ گھر میں آنے والی تبدیلیوں، جیسے شادی، بچوں کی پیدائش یا کسی عزیز کی جدائی میں عورت کی قوت برداشت اور حوصلہ افزائی کا کردار سب سے نمایاں ہوتا ہے۔ وہ نہ صرف دوسروں کے جذبات کا خیال رکھتی ہے بلکہ ان کے مسائل کو سمجھ کر بہترین مشورے بھی دیتی ہے۔ شوہر اور بچوں کے درمیان تعلقات کو متوازن رکھنا، سسرال اور میکے کے درمیان رشتوں کو خوشگوار بنانااور گھریلو تنازعات کو سلجھانا عورت کی ذہانت اور معاملہ فہمی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس لیے عورت کو صرف ایک ’’گھریلو فرد‘‘ سمجھنے کے بجائے اس کی صلاحیتوں کو تسلیم کر کے اسے فیصلہ سازی میں برابر کا شریک کرنا ضروری ہے۔
ایک ترقی یافتہ اور خوشحال معاشرے کی پہچان یہ ہے کہ اس میں خواتین کو عزت دی جاتی ہے اور انہیں ان کے حقوق دیے جاتے ہیں۔ جب عورت کو گھر کے فیصلوں میں شامل کیا جاتا ہے تو وہ اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے گھر کو جنت بنا سکتی ہے۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں خواتین کو فیصلہ سازی کے عمل میں مردوں کے برابر مقام حاصل ہے، جس کی وجہ سے ان ممالک میں خاندانوں کا استحکام اور خوشحالی زیادہ نظر آتی ہے۔ ہمیں بھی اپنی سوچ میں تبدیلی لانی ہوگی اور خواتین کو فیصلہ سازی میں شمولیت دے کر ایک بہتر اور متوازن معاشرے کی بنیاد رکھنی ہوگی۔ جب ایک عورت بااختیار ہوگی، تو ایک خاندان ترقی کرے گا، اور جب خاندان ترقی کرے گا تو پورا معاشرہ خوشحال ہوگا۔
اگرچہ خواتین کی دانشمندی اور فیصلہ سازی کی صلاحیت مسلمہ حقیقت ہے، لیکن آج بھی کئی معاشروں میں خواتین کو گھریلو فیصلوں میں برابر کا حق حاصل نہیں۔ روایتی سوچ، پدرشاہی نظام اور قدامت پسند نظریات خواتین کے کردار کو محض گھر کی چار دیواری تک محدود کر دیتے ہیں، جس سے ان کی خودمختاری متاثر ہوتی ہے۔ کئی خاندانوں میں خواتین کو مالی معاملات میں دخل اندازی کی اجازت نہیں دی جاتی، جس کی وجہ سے وہ بچت اور سرمایہ کاری جیسے اہم فیصلے نہیں کر پاتیں۔ اسی طرح بچوں کی تعلیم اور شادی جیسے بڑے فیصلوں میں بھی خواتین کی رائے کو ثانوی حیثیت دی جاتی ہے، حالانکہ ایک ماں اپنے بچوں کی ضروریات اور مزاج کو سب سے بہتر سمجھتی ہے۔ اس طرح کی رکاوٹیں صرف گھریلو سطح تک محدود نہیں، بلکہ سماجی سطح پر بھی خواتین کو فیصلہ سازی کے عمل میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
معاشرتی دباؤ اور فرسودہ روایات کے باعث کئی خواتین اپنے حقوق سے ناواقف رہتی ہیں یا ان کے اظہار سے خوفزدہ ہوتی ہیں۔ بعض اوقات گھریلو خواتین اپنی صلاحیتوں کے باوجود اہم فیصلوں میں شامل نہیں ہو پاتیں کیونکہ ان کی رائے کو کم تر سمجھا جاتا ہے۔ دیہی علاقوں میں خاص طور پر یہ مسئلہ زیادہ سنگین ہے، جہاں تعلیم کی کمی اور روایتی سوچ خواتین کے لیے مزید مشکلات پیدا کرتی ہے۔ یہاں تک کہ تعلیم یافتہ اور کام کرنے والی خواتین بھی بعض اوقات خاندانی دباؤ یا سماجی رویوں کے سبب اپنے فیصلوں میں مکمل آزادی محسوس نہیں کرتیں۔ یہ چیلنجز اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ خواتین کو گھریلو اور سماجی معاملات میں برابر کی حیثیت دینے کے لیے نہ صرف سوچ کو تبدیل کرنا ضروری ہے بلکہ ان کے حقوق کو قانونی اور عملی طور پر تسلیم کرنا بھی ناگزیر ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ جب خواتین کو گھریلو فیصلوں میں برابر کا حق دیا جاتا ہے تو وہ اپنی فطری بصیرت، معاملہ فہمی اور محبت سے بھرپور رویے کے ذریعے بہترین نتائج دے سکتی ہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ مرد حضرات اپنی سوچ میں وسعت لائیں اور خواتین کو صرف ایک معاون نہیں بلکہ ایک شریک کار کے طور پر تسلیم کریں۔ تعلیمی نظام میں ایسی اصلاحات کی ضرورت ہے جو خواتین کو خودمختاری اور فیصلہ سازی کی صلاحیتوں سے آراستہ کریں تاکہ وہ نہ صرف گھریلو معاملات بلکہ معاشرتی سطح پر بھی مؤثر کردار ادا کر سکیں۔ والدین کو اپنی بیٹیوں کو اسی طرح خوداعتمادی دینا چاہیے جیسے بیٹوں کو دی جاتی ہے، تاکہ وہ مستقبل میں ایک مضبوط، خودمختار اور دانشمند شخصیت کے طور پر ابھر سکیں۔
معاشرہ اس وقت ترقی کرتا ہے جب خواتین اور مرد مل کر زندگی کے تمام پہلوؤں میں اپنا کردار ادا کریں۔ خواتین کو گھریلو فیصلوں میں برابر کی شمولیت دینا ایک خوشحال، مضبوط اور پُرسکون خاندان کی ضمانت ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ ہم خواتین کی قابلیت کو تسلیم کریں اور انہیں فیصلہ سازی میں مکمل آزادی دے کر ایک ایسا معاشرہ تشکیل دیں جو حقیقی معنوں میں ترقی یافتہ اور متوازن ہو۔
(مضمون نگار اُستاد ہیںاور بونیاربارہمولہ سےتعلق رکھتے ہیں)
رابطہ۔8082403001
[email protected]