دنیا میں کون ایسا سنگ دل ہوگا جو زندگی کے آخری مرحلے میں بھی اپنے وطن جانے کا متمنی نہ ہو ۔ کس کی آنکھیں اتنی پتھرائی ہونگیں جو بچپن کی یادوں سے منور اپنے چمن کو دیکھنے کی تمنا نہ کریں۔ شاہد احمد نوجواانی کے عالم میں تلاش معاش کی غرض سے انگلستان آیا تھا اور پھر یہیں کا ہوکر رہ گیا ۔ اپنے وطن سے دور رہ رہا شاہد گھر میں والدین اور دو بھائیوں کو چھوڑ کر آیا تھا۔ابھی ایک بھائی زندہ ہے ۔ والدین کا انتقال کچھ برس قبل ہو چکا ہے اور چھوٹا بھائی تشدد اور افراتفری کی نذر ہوگیا ۔ شاہد احمد دوبارہ کبھی واپس نہ کیا ۔ نہ والدین کے جنازے میں اور نہ بھائی کے قتل کا حساب مانگنے۔ شاہد میاں جدید سوچ کا قابل اور ہونہار نوجوان تھا لیکن پر آشوب حالات سے تنگ آکر انگلستان چلا آیا تھا۔ اسے تشدد سے کافی نفرت تھی ۔ اسی لئے وہ واپس جانے کا خیال تک ذہن سے نکال چکا تھا۔ اسے کوفت تھی کہ اسے کربناک اور لہولہان خاک کے سپرد نہ کیا جائے۔ لیکن کافی اصرار کے بعد وہ بالآخر اپنے وطن جانے پر راضی ہوا۔
ذہنی کشمکش ،تذبذب اور اضطراب کی کیفیت کے ساتھ وہ ہوائی جہاز میں سوار ہوا۔ پرانی دردناک یادیں ذہن کے البم پر نمایاں ہو رہی تھیں اور خوف و مسرت کا ملا جلا سنگم اسے بیقرار کئے ہوئے تھا۔ ہوائی جہاز کی آواز اور رفتار قدرے مدھم ہوتی گئی اور اسکی دھڑکنیں تیز۔۔۔ سانسیں جیسے کہیں خیرات بٹ رہی تھی کہ بے حساب لی جارہی تھیں۔ ہاتھ پاؤں کانپ رہے تھے ۔
وہ گاڑی میں سوار ہوکر گاؤں کی طرف نکلا، راستے میں آتی ہر شئے خاردار تار میں جکڑی اسکے بچپن کی یادیں تازہ کر رہی تھی ۔ خاک و خون، لہولہان لاشیں اور وہ چنار جو گاؤں میں سب سے بڑا اور پرانا تھا ۔ وہی چنار جس پر ہر ہفتے ایک لاش لٹکتی رہتی تھی اور لوگ خاموشی سے اسے دفنا کر اگلی لاش کا انتظار کرتے۔ شاہد میاں یہ دیکھکر بہت حیران ہوا کہ اتنا وقت گزرنے کے بعد بھی کچھ نہیں بدلا۔ نہ وہ سڑک نہ سڑک کے گرد اونچے درخت، نہ خون کی بو اور نہ آنسو گیس کا کلیجہ چیر دینے والا دھواں۔ اس کا دم گھٹ رہا تھا ۔ آزاد فضا میں زندگی کے حسین ایام گزارنے کے بعد وہ کس طرح اس پر آشوب اور خاردار تار میں جکڑی فضا میں سانس لے سکتا تھا۔ وہ اب اپنے گھر میں تھا ۔ شام تو گزر گئی مگر رات کا خوفناک سناٹا اور کشت و خون کے ڈراونے خیالات نے رات بھر جگائے رکھا اور رات کروٹیں بدلنے کی کشمکش میں گزری۔ اگلی صبح وہ چائے کی چسکیاں لے رہا تھا کہ باہر شور مچ گیا۔ وہ باہر نکلا اور ہجوم کے پیچھے چلا گیا۔ یہ ہجوم اسی چنار کے پاس آکر رک گیا جس پر آج ایک اور لاش لٹک رہی تھی ۔ سب پر سکتہ طاری تھا اور سب کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔ بے بسی کے آنسو اورخوف کے آنسو، روز مر جانے کے آنسو اور نہ جانے کس کس کے آنسو۔۔ شاہد آنکھیں پتھر کئے لاش کو دیکھ رہا تھا ۔ اسی سکوت کے عالم میں ایک بلند بانگ نعرے نے فضا میں ہلچل مچا دی ۔
’’جواب دو جواب دو ۔۔ خون کا حساب دو‘‘
آج پہلی بار یہ نعرہ کس نے بلند کیا تھا۔ اس ہجوم میں جہاں سب کے ذہنوں پر خوف کا پہرا ہے اور قلوب پر دہشت کے تالے ، کس کے حلق سے یہ انقلاب کی چیخ نکلی۔ سب کی نظریں نعرہ باز کو ڈھونڈ رہی تھی مگر کسی کو کچھ نظر نہ آیا ۔
اگلے ہفتے ایک اور لاش دفن ہوئی مگر اس بار نعرہ بلند نہیں ہوا۔ اس لاش کی قبر پر کتبہ لگایا گیا جس پر یہ عبارت درج تھی :
’’ اس یرغمال فضا میں مرحوم نے جس چنار کے سائے تلے انقلاب کا پہلا نعرہ بلند کیا تھا۔ اسی چنار کی ایک شاخ پر شاہد احمد کا جسد خاکی لحد کا انتظار کر رہا تھا‘‘ ۔
ہندوارہ،موبائل نمبر؛7780912382