فکرو ادراک
سرفرازؔ سمیر بٹ
نکاح کے بعد عورتوں پرمردوں کی جانب تشدد کرنا قابلِ مذمت ہے جس میں کوئی دورائے نہیں لیکن ایسے واقعات کا توسماجی ویب سائیٹوں پر نشر کرکے اس کا ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے جبکہ مردوں پر ذہنی تشدد کا کوئی پرسانِ حال ہی نہیںکیونکہ اس سے عزتِ نفس پر بات آتی ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ہماراسماج زن بالادستی(woman dominance)کے ذہنی روگ سے جھوج رہاہے جہاں صابن کے کو ر سے لیکر ائرہوسٹس تک ، ٹیوی اسکرین سے لیکر دانش گاہوں تک، بازار سے لیکر گھرکی دہلیز تک پہلے اسے ماحول کی زینت کے طور پر لانچ کیا گیا پھر اسکی ذہن سازی اس طرح کی گئی کہ اب عورت مرد کے مقابلے میںان معاملات میں بھی برابری چاہتی ہے جن میںمرد قانونِ فطرت سے ہی بالادست ہے۔ قدرت کا قانون ہے کہ اس نے تمام انبیاء ؑکا انتخاب مردں میں ہی کیا،مسجد کاامام اور دنیا کی تمام ممالک کے فوجی سربراہ مرد ہی ہیںوغیرہ وغیرہ۔جب ہم ایسا بولتے ہیں تو اکثر لوگ اسے صنفی امتیاز(Gender discrimination)کا نام دیتے ہیں جبکہ اصل صنفی امتیاز تو یہ ہے کہ عورت کو مرد کے حقوق چاہیے لیکن اسکی ذ مہ داریاں نہیںکیونکہ ذمہ داریوں کیلئے اکثر اسے مذہب یاد آتا ہےجو کہ ایک منافقت ہے۔
ایک گھر یا خاندان میںبھی اسی زن بالادستی کی سونچ سے مردوں پر عورتوں کی جانب کئی طرح کے تشدد کے واقعات معمول بن چکا ہے۔ تشددکا ہر گز اتنا ہی مطلب نہیں کہ آپ کسی پر اپنا ہاتھ اٹھائیں ،ماریں یا پیٹیں گے بلکہ ذہنی طور پریشان کرنا ،ذہنی عزاب میں مبتلا رکھنا، بیوی کی نافرمانی،مرد کوہر بات پر ٹوکنا،اپنے شوہر کو ہر کسی معاملے میں دوسرے مردوں سے مقابلا آرائی میں اسے احساسِ کم تری میں مبتلا کرنا، حسبِ استطاعت سے زیادہ خرچ کرکے اسے پریشان کرنا،آئے روز نئی مانگیں منوانا،مرد کے رشتہ داروں کو نظر انداز کرنا،غرض اس طرح کے برتاو سے مرد پر تشدد کیا جاتا ہے لیکن مرد عزتِ نفس کے خاطراپنے ہونٹ سی لیتا ہے اور اگر کہیں پر اپنا معاملہ اسے پیش بھی کرنا پڑے تو فیمینزم(feminism) طبیعت کے نام نہاد صلاح کاریک طرفہ بات سن کرمردکو ہی کوستے ہیں۔جبکہ حق تو یہ ہے کہ دونوں طرف سے بات سنکر فیصلہ انصاف پر مبنی ہو کر صلاح کی غرض سے کیا جائے۔ اگرگھر کا کمانے والا مرد ہے تو گھر کاسرپرست،محافظ اور سربراہ بھی مرد ہی ہے۔ اب جس گھر کی عورت مرد کی طرح کمانے لگے تو وہ عورت کیونکر مرد کی سربراہی تسلیم کرے گی کیونکہ اب وہ مرد کے برابر ہوگئی ہے اور مساوات کااب تقاضاہے کہ عورت اگر آفس سے آکر ایک دن کھانا پکائے گی دوسرے دن مرد کو پکانا پڑے گا،عورت ایک دن کپڑے دھوئے گی تو اگلے دن مرد کی ذمہ داری بنتی ہے۔اپنے معاشرے کی ذہنی ساخت دیکھیے کہ جس عورت کوضرورت پڑنے پر بازار جانے سے ڈرلگتا ہے،انجان گاڑی والے کو روکنے میں خوف لاحق ہوتا ہے، خریداری میں جو کمزور ہو،گائوں سے شہر جانے کیلئے جسے راستے کا پتہ نہیں، اسے ہم گوار،کم عقل،فضول گنوا دیتے ہیں جبکہ جس عورت میں یہ مردانہ اوصاف ہے، اسے چالاک اور عقل کی کنجی مان کے چلتے ہیں جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔پہلی صفات کی عورت اگر خالی گھر میں قرار پاتی ہے توایک مرد کیلئے اس سے بڑھ کر کوئی خیر نہیں اور دوسری قسم کی عورت کتنا ہی کماکر لائے ،بہر حال وہ مرد کیلئے آخر میں شر ہی ثابت ہوتی ہے۔
آجکل گھروں کا سکون تباہ ہے، ہر گزرتے دن کے ساتھ نئے نئے مسائل جنم لیتے ہیں۔سروے کے مطابق سویڈن ، ڈنمارک ،فن لینڈ وغیرہ جیسے ممالک میں زن بالادستی سب سے اعلی ہے لیکن طلاق کی شرح میں بھی یہ ممالک سب سے آگے ہیں۔دراصل عورت جسمانی ساخت کے علاوہ مرد کے مقابلے میں زیادہ جذباتی ہوتی ہے معمولی مسئلے پر بڑے فیصلے لینے میں دیر نہیں لگاتی۔اسی لئے اسلام نے طلاق کا اختیار مرد کو ہی دیا ہے۔حضرت محمدؐسے زید بن حارثہؓاپنی زوجہ کی شکایت باربار کررہے تھے جبکہ انکی آپس میں بنتی بھی نہیں تھی، اس کے باوجود نبی کریم ؐانکو مشورہ دیتے ہیں کہ زینبؓ کو نہ چھوڑو۔اب لیجیے ہمارے معاشرے کے فیمنزم ذہنیت کے لوگوں کو دیکھیے ،جو بات بات پر عورتوں کو مشورہ دیتے ہیں’’ خلع لے لو،اب اگر شوہر واپس بھی بلا رہا ہے لیکن تم نہ جانا‘‘۔سسرال میں دو کام زیادہ کرنے پڑے تو انکی ایک ہی بات ہوتی ہیں ــ’’چھوڑدو‘‘،کسی بات پہ شوہر نے ٹوکا ۔چھوڑدو، ساس نے کچھ کہہ دیا ۔چھوڑدو۔اصل میں یہ ’’چھوڑدو ‘‘والا گروہ شیطان کا وہ چیلہ ہے جو اسے سب سے زیادہ خوش کردیتا ہے۔شادی ایک سنت کے ساتھ ساتھ ایک ایسا سوشل کنٹریکٹ ہے جس میں جسمانی تعلق ہوتا ہے جس سے قلبی تعلق خود بہ خود پیدا ہوتا ہے۔اگر کسی ملازم کو کسی ادارے یا اسکے مالک سے قلبی تعلق ہوجائے تو وہ اسکی ترقی اور کامیابی کیلئے بہت جان مارتا ہے ۔بعض اوقات وقت پر پیسہ نہ ملنے کی بھی پرواہ نہیں کرتا ،اپنے حصے سے زیادہ کام کرتا ہے،عین اسی وقت مالک کی نظروں میں اسکی اہمیت بڑھنے لگتی ہے حالانکہ ان کے آپس میں کوئی جسمانی تعلق نہیں ہوتا۔پھر آپ اندازہ لگائیںکہ جہاں جسمانی تعلق بھی ہو،وہاں پر معاملے کی نوعیت کہاں تک جا سکتی ہے۔اس وقت سوشل کنٹریکٹ کی تجارتی مقصدیت ختم ہوجاتی ہے اور جذباتی مقصد زیادہ روپ دھار کر لیتی ہے۔مثلاً عورت بوڑھی ہوگئی ہے یا کسی وجہ سے ازدواجی تعلقات مہیاکرنے پرقادر نہیں ہے یا بانجھ ہے یا معذور ہوگئی ہے تو تجارتی کنٹریکٹ کے مطابق اسے جبری رٹائر کردیا جائے، لیکن بے شمار مرد جذباتی واخلاقی وابستگی کی بناء پر اس امر پر تیار نہیں ہوتے،یہی معاملہ عورت کا مرد کے تئیں ہے۔شادی کو محض تجارتی حوالے سے ڈسکس کرنا،ایک دوسرے کو ذمہ داریاں یاد دلواتے رہنااور دوسرے کو اس کا پابند سمجھنااس رشتے کی درست توجیح نہیں ہے ،ایسے ظالموں نے جذبات ،محبت اور احساسات کواس رشتے سے خارج کردیا ہے جوکہ فریق مخالف کی زیادتی کو بھی برداشت کرنے کاحوصلہ دیتی تھی۔اگر معاملات کچھ بگڑ جائیں تو وہ عزم وحوصلہ سے ان کو درست کرنے کی کوشش اور انتظار کرے، نہ کہ ایک اجیر کی مانند فوراً استعفی دے کر میکے چلی جائے۔یہ مستقل دوری آپکے مسئلے کاحل نہیں پھر یہی عورت ہر کم ضرف کی بات سن سن کر خلع تک پہنچ جاتی ہے۔سچ کہوں تو ایسی عورت نے کبھی بھی اپنے شوہر سے محبت کی ہی نہ تھی۔یہ محض سماج کی ایک رسم نبھانے اورچند تجارتی فوائد اٹھانے آئی تھی اور جب یہ دونوں حاصل کرلیے تو واپس چلی گئی۔
اکثرخاندانی معاملات میںکبھی کبھارمرد کیلئے مسائل کو منیج(Manage)کرنا زیادہ اہم رہتا ہے بہ نسبت کہ انکو جلدبازی میں حل کرنے کے۔ ہرچند کہ آپکے گھریلوں زندگی کا کوئی بڑا فیصلہ آپکی نجی زندگی کیلئے فائدہ مندبھی ہولیکن کیونکہ آپکے ہر فیصلے سے خالی آپ متاثر نہیں ہوتے ہو بلکہ ا ٓپکے والدین ،بچے، خاندان بلکہ رشتہ دار بھی آپ کے ساتھ منسلک ہوتے ہیں۔لہٰذا اس بات کا خیال رکھیے کہ ایک مسئلے کا حل کہیں زیادہ مسائل کو پیدا کرنے کا سبب نہ بنے۔گھریلوانتشار کا ایک سبب عدمِ برداشت ہے اور گھریلو حالات میں سدھار کے تئی حکمتِ عملی اور احساسِ ذمہ داری سمجھانے اور ابھارنے کیلئے اسکول اور کالیج میں اسکے تئیں آگاہیawareness نہیںدی جاتی ہے ۔ بلکہ ہم ان علمائے کرام سے بھی دور ہوتے چلے گئے جو اس ملت کے نبض شناس تھے جو اپنی راتوں کا دیا جلاکر وقتاً فوقتاً اپنی رہنمائی فرماتے رہتے ہیں ۔ اس کے برعکس ہمار ی اکثرمساجدوں کے ممبرو محراب پرچند مسائل کا سرسری مطالعہ کرنے والے نااہل واعظ وخطباء کی ایسی ٹیم مسلط ہوچکی ہے جو بنیادی فہم و فراست سے عاری ہے۔
رابطہ۔ 7006916347
[email protected]