اس کی زندگی کا سورج اب لب بام آچکا تھا۔وہ آج تھک ہار کر زندگی کے پل بھر کے لمس کو دھیرے دھیرے غیر محسوس رویہّ سے چھوڑ رہا تھا ۔ آخری بار اُس نے اب اپنی تھکی ہوئی آبدیدہ پلکوں کو بڑی مشکل سے اٹھایا تھا۔ تو اُس کا دھیان اب گردشِ ایام پر اب جا رہا تھا، جہاں اس کا بچپن ، لڑکپن اور خاص کر شبّاب کا حسین سا دور اچھلتا ،کودتا اور رقص میں مخمورایک دھندلکا سا رہ گیا تھا، جس کا بس کوئی حسین سا لمس اس کی آنکھوں سے ٹپ …ٹپ….کر کے برس رہا تھا۔ شایدسارا، اس کے سرہانے اس کے آخری انفاس کوبڑی کرب سے الوداع کہنے کیلئے بے قرار سی تھی، کو دیکھ کر اس کو کئی کہانیاں یاد آکے رہ گئیںتھیں…… !…وہ بچپن کی شادی ….! …تصور ازدواج سے پرے، دونوں کا دن بھر گھر سے غائب رہ کر دریا کے کنارے گھنے پیڑوں میں گھروندوں کی آرایش میںغمِ حیات اور دنیا کے ہنگاموں سے ماورا ہوکے بے غم سرمستیاں کرناجب تک سورج انھیں احساس نہ دلاتا ….اب چلے بھی آؤ کہ شام ہوئی…!
گھروندے…..! انسان کیوں کر زندگی بھریہ گھروندے بناتا رہتا ہے اور انکی آرایش و زیبائش سے کرتارہتا ہے ،حتیٰ کہ اسے معلوم ہوتا ہے کہ زندگی ہمیشہ انھیں گھروندوں کی طرح شام ہوتے ہی بکھرنے لگتی ہے۔شام کی اور دھیان جاتے ہی سرمد اپنی شریک حیات سارا کے زرد چہرے کی طرف الوداعی نظروں سے مسکرانے لگا۔ شاید ….!وہ بچپن کی شام یاد آئی ہو… جب دونوں ازدواجی شام کے بجائے پرانے رعشہ زدہ چراغ کے سامنے تختی پر لڑ رہے تھے، اتنے کم سن اور معصوم کہ انہیں سماج کی سونپی ہوئی ذمہ داریوں کا شعور بھی نہ تھا کہ ہم ازدواجی رشتہ کو نبھا رہے ہیں یا ہم سبق ہونے کے رشتے کو۔
’’امّی …..ی …ی ….ی…‘‘؟ سارا نے زور سے اپنی ساس کو پکارا۔
’’ہو کیا گیا ہے تم دونوں کو،لڑنے کے بغیر تم دونوں کے پاس اور بھی کا م ہے‘‘؟امّی نے بڑے ہی رعب سے دونوں کو ڈانٹا۔
’’دیکھو تو‘‘….’’سرمد نے میری دوات گرادی ‘‘….سارا نے امّی سے شکایتی اندازمیں کہا۔
سرمد نے وینٹیلیٹر پر سارا کی اور دیکھ کر ہلکی سی مسکراہٹ بھری ۔شاید… !سر مد کو سارا کی چیخ کی وہ بازگشت وقت کے دوش پر کانوں میں گدگداتی نظر آئی تھی، جب امّی کے ڈانٹنے پر سرمد نے صبح کلاس میں سارا کا کان کھینچ کر اس سے بدلہ لیاتھا۔
’’کیوں ہنس رہے ہو‘‘…..سارا نے دبے لہجے میں کہا۔
’’کچھ نہیں ‘‘…..سرمد پلکوں سے اشارہ کر کے مسکرایا۔
ابھی امّی کی ڈانٹ ہی کی یاد یں تھیںکہ بانسری کی ہلکی سی آواز نے لحظہ بھر کیلئے سرمد کی روح میں تراوت گھول دی اوراسکول سے واپسی کا وہ منظراورسارا کا پنگھٹ پر وہ گھنٹوں انتظار…! نہ جانے کہاں گئے وہ دن ….؟جو ایک دوسرے کو دیکھ دیکھ کے کٹ جاتے تھے ۔اب سب کچھ وقت کی دھول کے نیچے دب گیا تھا…..!’’ہائے زندگی تجھ کو کہاں کہاں ڈھونڈوںمیں ‘‘ ؟
’’ہو…و…و…و…!‘‘سرمد نے لمبی….ی….ی…آہ بھری ۔جیسے طویل سفر سے تھک کر بیٹھ گیا ہو۔
ماضی کے جھونکے اب سرمد کے خیالات کو دھیرے دھیرے محاصرے میں لے رہے تھے اور سرمد بھی انہیں جھونکوں کے تھپیڑے کھا کھا کر بیتے پلوں کی لہروں پر ہچکولے کھا رہا تھا،جہاں یادوں کی ایک کتاب پریشاں پڑی تھی ۔
بچپن اور لڑکپن کی کلکاریوں کو ایک دن رو بہ زوال ہونا ہی تھا۔مگر دونوں وقت کے اس مزاج اور رویے سے بالکل ناواقف تھے کہ وقت ایک ایسا دریا ہے جو بڑی بڑی سلطنتوں اورتہذیبوں کو تاریخ کے گمنام کنارے پر بوسیدہ کر کے چھوڑ دیتا ہے ۔فی الحال سرمد اور سارا اپنی کلکاریوں میں ہی ساری دنیا موجود پارہے تھے ۔انہیں پتا ہی نہیںتھا کہ شاید…!پھرنہ ملے یہ زندگی کافسوں ۔ماہ و سال آتے ، چلے جاتے ہیں اور دونوں بلوغیت کی اچھلتی لہروں کو دن بہ دن عبور کرکے چلے جاتے ہیں ۔
سرمد نے اب اچھے برے میں تمیز کرنا سیکھا تھا اور حق و باطل کی سدھ بد اس کے ذہن کے دریچوں کو وا کرنے لگی تھی ۔ سرمد نے ملک کی آزادی کے لئے انقلابی سرگرمیوں میںاب حصّہ لینا شروع کیا تھا اور یہ سوچے بغیرکہ یہ سہی ہے یا غلط ساراہر موڑ پر اسکا ساتھ دئے جا رہی تھی ۔
’’سارا… سارا‘‘سرمد آدھی رات کی تاریکی میں کھڑکی سے جھانک رہا تھا۔
’’کون ہے…؟‘‘
’’میں پوچھتی ہوں کون ہے…؟‘‘سارا نے متحیر لہجے میں پکارا۔
’’میں سرمد…‘‘سرمد نے واپس نر م لہجے میں جواب دیا۔
’’اوہ …ہو…ہو…ہو…میں تو گھبرائی ہی گئی تھی…!‘‘سارا نے سرد آہ بھرتے ہوئے سرمد سے کہا۔
’’چلئے چلئے جلدی اندھر آجائے…بابا دن بھر غصّے میں تھے ‘‘سارا نے کھڑکی کھولتے ہوئے کہا۔
’’کیا کہہ رہے تھے بابا…؟‘‘سرمد نے سوالیہ انداز میں کہا۔
’’کہہ رہے تھے کہ جب سے سرمد نے کالج میں داخلہ لیا ہے ،اس کے تیور بدل گئے ہیں…اور زور زور سے چلّا رہے تھے, ’’کہ یہ انقلاب کا جنون اُس کے دماغ سے اُس وقت اتر جائے گاجب پولیس اسے گھسیٹ کے لے جائے گی ‘‘…’’اور اس کے وہ پاگل دوست اسے بہکا رہے ہیں۔ ‘‘ سارا نے وہ سب دوہرایا جو بابا نے اسے کہا تھا۔
بابا نے بڑے ہی نازاور لاڑ پیار سے سرمد کی پرورش کی تھی ۔چونکہ بابا کے ہاں اپنی کوئی اولاد نرینہ نہ تھی اور یہ غم اسے گھلائے جارہا تھا ،کہ …کہیں میرے یوسف کو بھیڑیا نہ کھا جائے اور رہگذر در رہگذرپھر زندگی کی شا م نہ ہو جائے…..!شاید……! بابا کے نوشتہ تقدیر میں یہی طے پایاتھا۔
سورج کی سرخی پہاڑوںمیں پھیل چکی تھی ۔پرندوں کے جھنڈ اپنے حوصلوں کے ساتھ خنک فضا میں تیر رہے تھے ۔عجب سماں تھا ہر کوئی آزاد… اپنی دنیا میں محو…مگر سرمد …؟انسان کے خود ساختہ قوانین کی زنجیروں میں صدیوں سے جھکڑا ہوا تھااور صدیوں سے اس قید انسان کی سسکیوں اور مجبوریوں کو محسوس کر رہا تھا، جو اسے بے چین کئے دیتی تھیں اور جس کی وجہ سے وہ اس نظام کہن سے برسرپیکار تھا۔
’’ٹھک …ٹھک…‘‘دروازے پہ کو ئی دستک دے رہا تھا۔
’’ٹھک …ٹھک…‘‘دروازہ پھر سے بجنے لگا۔
’’ذرا دیکھ تو سہی کون ہے دروازے پہ‘‘بابا نے سارا سے کہا۔
سارا نے جونہی دروازہ کھولا وہاں سے مردانہ آواز میں بڑے ہی محکمانہ انداز میں کسی نے پوچھا….؟
’’سرمد کہاں ہے‘‘؟منہ اندھیرے زرہ میں ملبوس تین پولیس اہلکار سارا سے دروازے پہ پوچھ رہے تھے۔
’’جی اندر چائے پی رہے ہیں…‘‘سارا نے ہچکچاتے ہوئے دبے لہجے میں جواب دیا۔
سرمد جونہی باہر نکلا پولیس والوں نے اُسے دبوچ کر ہتھکڑی پہنائی اور اپنے ساتھ لے گئے۔ سارا پیچھے پیچھے دوڑتی ’’سرمد …سرمد‘‘ چلّا رہی تھی اور بابا روتے روتے دونوں کے پیچھے بھاگا جا رہا تھا یہاں تک کہ گاڑی آنکھوں سے اوجھل ہو گئی….!
اور پھر…..؟برسہا برس تک سرمد کے بابا کچہری در کچہری بھٹکتے رہے یہاں تک کہ سرمد کو تلاشتے تلاشتے اسکی زندگی کی شا م ہوئی …….!اور……سارا …….اپنی دو معصوم بیٹیوں کے ساتھ سرمد کی راہوں کو….اکیلی تکتی رہی …!ایک طرف سارا کا زرد چہرہ……. اور دوسری طرف…… ؟سرمدکی آنکھوں میں …..؟ایک بیتی کتاب…! آج سرمد سارا کی گود میںجوانی کا کفّارہ ادا کر رہا تھا…اس جوانی کا کفّارہ جو انہوں نے قفس کی تیلیوں کے پیچھے گزاری تھی۔ سارا اسے یہ کفارہ چکاتے ہوئے محسوس کر رہی تھی اورسرمدکے وداعی انفاس کوگن رہی تھی۔
’’سرمد ….سرمد….سرمد….!‘‘سارا ہچکچاتے اور کرب کے لہجے میں سرمد کو پکارتی گئی۔
سرمد کی روح دبے پاؤں چلنے لگی اور ’’دریغا کہ عہد جوانی گزشت‘‘ کے نغے سرمد کے لب پر آکر رک گئے۔سرمد زندگی کی مصروفیتوں سے’ منتہا ‘ …..اور…… سارا ’تنہا‘……ٹوٹے ہوئے گھروندوں کے بیچ میں!
بہے جا رہی ہے میری کشتیٔ عمر رواں آہستہ آہستہ
خیالِ خواب ہوتا جا رہا ہے یہ جہاں آہستہ آہستہ
ریسرچ اسکالر ،سی ۔یو۔کے
اشموجی کولگام،[email protected]/9622704429