شباش بچو، پڑھو’’ یہ سلطان ہے‘‘۔ بچے پھر جوش میں آکر اونچی آواز میں زور زور سے پڑھتے تھے’’ یہ سلطان ہے ‘‘ صرف ایک بچہ ندیم نہیں پڑھتا تھا۔۔۔۔ ندیم جونہی سلطان کا نام سنتا تھا وہ غصے سے لال ہو جاتا تھا۔ کانوں میں انگلیاں ٹھونس کر اور عجیب آواز یں نکالتا تھا اَوِی۔ اَوِی۔ اَتھو۔
بچے ندیم کو دانستہ طور میرے ہی پیر ڈ میں اُکساتے تھے اور ’’ یہ سلطان ہے‘‘ کی رٹ لگا کر ندیم کا غصہ ابھارتے تھے۔ سچ پوچھو تو ندیم نہ کند ذہن تھا اور نہ ہی ضدی اور شرارتی ۔
سارے مضامین کلاس روم میں بڑے دھیان دے کر پڑھتا تھا۔ بس اردو کے پیریڈ میں بھڑک اُٹھتا تھا۔حالانکہ ندیم فطرتاً ایک نتہائی پسند بچہ تھا۔ لنچ بریک میں جب سارے بچے اُدھم مچائے پھرتے تھے وہ سکول کے لان کے کسی کونے میں اکیلا بیٹھتا تھا!
’’ اس کے پیچھے کیامحرکات ہوسکتے ہیں !؟ ایل کے جی( LKG) کے اس بچے کو’’ سلطان‘‘ نام سے اتنی نفرت کیوں ہے!؟ کتاب پر’’ سلطان‘‘ کی جو کر تصویر دیکھ کر ندیم آپے سے باہر کیوں ہو جاتا ہے!؟‘‘ میں اب اکثر یہ سوالات خود سے پوچھتا تھا۔ ظاہر ہے کہ مجھے ان سوالات کے جوابات تلاشنے کےلئے ندیم کی کیس ہسٹری(Case History) کا مطالعہ کرنا ضروری تھا ۔ا سی لئے میں نے ایک دن لنچ بریک میں ندیم کو اپنے آفس میں بُلایا۔۔۔
’’ ندیم ! بیٹا لنچ کیا ہے؟‘‘
’’ یس سر‘‘ ندیم نے دھیمی آواز میں جواب دیا۔
’’ آپ کے گھر میں اور کون ہیں؟‘‘
’’ سر! ماں اور میری تین بہنیں‘‘ ندیم نے غمگین لہجے میں جواب دیا۔
’’ باپ کہاں ہے؟‘‘
میرا یہ سوال سن کرندیم کی آنکھوں میں بے اختیار آنسو اُمڈ آئے۔ وہ زار وقطار رونے لگا۔ میں نے اپنی الماری سے چاکلیٹ نکالااور ندیم کو دیتے ہوئے پیار سے کہا’’ بیٹا ندیم آج سے تمہارا باپ میں ہوں‘‘۔ جائو بیٹا کلاس میں جائو‘‘۔ ندیم چپ چاپ میرے آفس سے نکلا۔
چار بجے جب سکول کی چھٹی ہوئی۔ میں نے ندیم کو اپنی کار میں بٹھایا۔ جونہی میں ندیم کے ہمراہ اس کے گھر پہنچا۔ اس کی ماں سُمیرا مجھے دیکھ کر چونک پڑی۔ اس کے پیر لڑ کھڑانے لگے۔۔۔۔۔ سُمیرا کو دیکھ کر مجھے ماضی کے وہ حسین دن یاد آگئے جب ہم دونوں یونیورسٹی کے شعبہ سماجیات میں اکھٹے پڑھتے تھے۔ تب سُمیرا بے حد حسین تھی اور بڑی مضبوط جسم کے جوان لڑکی تھی! وہ یونیوسٹی میں حسن کی دیویGoddes of Beautyکہلاتی تھی! ۔
اُس کو دیکھ کر نگاہیں ماند پڑجاتی تھی۔ پھر اس کے باپ نے خاندانی رواج کے مطابق سمیرا کی شادی اپنے ہی خاندان میں ایک ایسےنو جوان کے ساتھ کروائی جومیٹرک فیل تھا۔ اس طر ح سمیرا نے تعلیم ادھوری چھوڑ ی۔۔۔۔
تب سےا یک لمبا عرصہ بیت گیا۔ آج اُس کے چہرے پر زندگی حیران تھی! اب سمیرا اس کلی کی مانند تھی جس کی ہر پتی پر خزان کا پہرہ تھا! مجھے اس طرح اپنے چھوٹے سے گھر میں اچانک دیکھ کر بے چاری سمیرا پسینہ پسینہ ہوگئی۔
’’ سُمیرا! پیلز خود کو سنبھا لوDont Worryمیں آپ کا بھائی ہوں‘‘ میں نےسُمیرا سے کہا۔
’’ سر! میری اس جھونپڑی میں۔۔۔۔۔!؟ سمیرا خاموش ہوئی۔
’’ نہیں ! سُمیرا نہیں! تمہارا یہ گھر محل ہے پلیزسمیرا آنسو پونچھ لو۔۔۔‘‘ سُمیرا نے آنسو پونچھ لئے اور پھر مجھے حسرت بھری نگاہوں سے دیکھنے لگی۔
’’ سمیرا! مجھے اندر آنے کےلئے نہیں کہو گی! میں نے سمیرا سے پوچھا۔
سمیرا مجھے مکان کے اندر لے گی۔۔۔ کمرے کی ایک دیوار پر ایک تصویر لٹکی ہوئی تھی۔
’’ یہ تصویر کس کی ہے؟‘‘ میں نے سمیرا سے پوچھا۔
’’ خالق۔۔۔ میرے شوہر کی ، جو ایک سڑک حادثہ میں مارا گیا‘‘۔
سمیرا نے لمبی سرد آہ بھر کر جواب دیا۔
تصویر سے سمیرا کا دھیان ہٹانے کےلئے میں نے سمیرا سے نمکین چائے کی فرمائش کی۔ اسی دوران یکے بعد دیگرے اسکی تینوں بیٹیاں میرے اردگرد بیٹھ گئیں۔
’’ ندیم ان سب سے چھوٹا ہے۔ غربت کی وجہ سے میں بیٹیوں کو پڑھا نہ سکی۔ تینوں بیٹیاں حسینہ، ذینب اور خدیجہ قالین بابی کا کام کرتی ہے۔قلیل آمدنی پر بہت ہی مشکل سے گذارا ہوتا ہے۔ اب سلطان نام کا ایک شخص میری تھوڑی بہت مدد کرتا ہے، لیکن اس کی نیت ٹھیک نہیںلگتی ۔ وہ کم بخت میری مجبوری کا نام جائزہ فائدہ اُٹھانا چاہتا ہے۔ ندیم اس درندہ صفت شخص کی سب حرکات کو محسوس کرتا ہے؟۔
’’ اَویِ۔ اَوِی۔ اَتھو‘‘ چلا چلا کر اپنی معصوم برہمی کا اظہار کرتاہے! گوکہ سلطان کی ظالمانہ کاوشوں سے میں آج تک خود کو بچاتی رہی۔۔۔ لیکن کب تک !؟‘‘
سُمیرا کا غمناک واقعہ سن کر میری آنکھوں سے آنسو ں رواں ہوئے۔ میں نےسُمیرا کے ہاتھ میں دو ہزار کا نو ٹ تھما دیا۔ رخصت ہونے سے قبل میں نے مجبور سمیرا سے وعدہ لیا کہ وہ آئندہ سلطان جیسے درندہ صفت انسان کو اپنے گھر میں داخل ہونے نہیں دے گی۔
رابطہ: آزاد کالونی پیٹھ کا انہامہ
9906534724
�����