فیضان احمد الائی
کچھ لوگوں کے نزدیک علمی و ادبی اعتبار سے اصل مصنف وہی ہے جس کا قلم ہر وقت ہر موضوع پر چلا کرتا ہے اور اس کے قلم سے بڑے ہی اہم و ممتاز مضامین رقم ہوا کرتے ہیں۔ان ادبی نگارشات کی افادیت و اہمیت وقتی نہیں ہوا کرتی بلکہ اپنے موضوع اور مواد ہر دو اعتبار سے اس لائق ہوتے ہیں کہ بکھرے ہوئے موتیوں کو ایک لڑی میں پروکرکتاب کی صورت دی جائے ۔غلام حسن طالب کا زیر ِتبصرہ مجموعہ انشائیہ ’’گوہرِ سُفتہ‘‘کچھ ایسی ہی خصوصیات کا حامل ہے۔’’گوہرِ سُفتہ‘‘ موصوف کی چوتھی کتاب اور پہلا مجموعہ انشائیہ ہے جس میں ۲۶ انشائیہ ماہ وانجم کی ماننددرخشاں ہیں۔ اگرچہ اردو ادب میں صنفِ انشائیہ ہر دور میں موجود رہی تاہم انشائیے کے اس بے تکلفانہ اسلوب پر محققین و ناقدین نے کم توجہ دی ہے۔ غلام حسن طالب کی زیرِتبصرہ کتاب ’’گوہرِ سفتہ‘‘سے یہ اطمینان ہوا کہ آج بھی ہمارے ادیب اس صنف پر توجہ دینے لگے ہیں۔
زیرِ تبصرہ کتاب ’’گوہرِ سُفتہ’’کے انشائیوں سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے غلام حسن طالب نے انشائیہ نگاری کے فنی لوازم اور امتیازی خصوصیات کو بڑی گہرائی سے سمجھ کر برتنے کی کوشش کی ہے۔ مصنف آنکھوں کے سامنے بکھری ہوئی چیزوں کو اس طریقے اور سلیقے سے پیش کرتے ہیں کہ قاری حیرت میں پڑ جاتا ہے کہ یہ بھی موضوع قلم بن سکتے ہیں۔ یہ انشائیے کسی معمولی عنوان جیسے کرسی، کتاب، دل، راستہ وغیرہ سے شروع ہوتے ہیں، بات سے بات پیدا ہوتی ہے اور تہیں کھلتی جاتی ہیں اور اختتام تک پہنچتے پہنچتے ایک نیا گوشہ سامنے آتا ہے۔اس اقتباس کی طرف توجہ کیجئے:’’کسی کی سنی سنائی بات مجبوری کا نام زندگی ہے ہمیں دعوت ِ غور و فکر دیتی ہے ویسے بھی زندگی کے ہر لمحے پر بنی نو ع آدم کو زندگی کی تگ و دو میں ٹھوکریں بھی کھانا پڑتی ہیں پھر وہ کبھی بے یار و مددگار تو کبھی بے بسی کی ساعتیں گزارنے کے بعد اشرف المخلوقات کہلانے کا ثبوت دیتا ہے۔‘‘(انشائیہ مجبوری،صفحہ نمبر ۱۴۰)
ا نشائیہ اپنے اختصار کے سبب دوسری اصناف سے علیحدہ ہوتا ہے۔ایجازو اختصار انشائیہ نگاری کا خاص وصف ہے۔غلام حسن طالب کے انشائیوں میں یہ خصوصیت موجود ہے۔انہوں نے جس موضوع پر بھی قلم اٹھایا کم سے کم الفاظ میں اس قدر معنویت بھر دی کہ کم پڑھے لکھے لوگوں اور تعلیم یافتہ لوگوں کے لیے یکساں طور پر دلچسپی پیدا ہو جاتی ہے۔ انشائیہ نگار نے اختصار کے باوجود انشائیوں میں تشنگی اور ادھورے پن کا احساس نہیں ہونے دیا ہے۔ ان کے چھوٹے چھوٹے انشائیے بھی اپنی معنویت کی مناسبت سے مکمل نظر آتے ہیں۔ ان کے انشائیہ’’ انتظار‘‘ سے اقتباس ملاحظہ کیجئے:’’انتظار ایک ٹھراؤ ہے جو بے قراری اور شتابی کے باوجود بے حس و حرکت رہتا ہے۔حاصلِ کلام یہ کہ انتظار ذرائع ابلاغ کے مروجہ کمرشل بریک کی طرح ایک ایسا وقفہ ہے جو خود تو ساکت رہتا ہے پر اس کے دوران زندگی کی دوڑ جاری رہتی ہے۔‘‘ (صفہ نمبر۳۵)
’’گوہر ِسُفتہ‘‘کے انشائیوں میں انشائیہ نگار کی فکر اور اصلاحی رنگ بالواسطہ طور پر موجود ہے۔ یہ فکراسلوب کی رنگینی میں گم نہیں ہوتی بلکہ قاری کے ذہن کے دریچوں کوکھول کر غور و فکر کا پیغام دیتی ہے۔ یہ انشائیے مادّی قدروں کی مخالفت نہیں کرتے ہیں بلکہ انسان کا رشتہ کائنات سے استوار کرنے کی ترغیب دیتے ہیں۔خیر کی طرف توجہ دلانے والے یہ ا نشائیے شر سے نفرت دلانے کی کوشش کرتے ہوئے معلوم ہوتے ہیں۔غلام حسن طالب کے اس مجموعہ میں موضوع کی گہرائی، جذبے کی شدت، تاریخ کا شعور، ادب اور ثقافت کی آگہی کے ساتھ ساتھ تکنیک کو احسن طو رپر برتنے کا ہنر جیسے عناصر دیکھنے کو ملتے ہیں۔ یہاں انشائیہ نگار کا ایک منفرد اسلوب دیکھنے کو ملتا ہے۔یہ اسلوب مصنوعی طرز کا نہیں بلکہ فطری اور بے ساختہ ہے اورنتیجتاً ًتحریر میں ایک وزن پیدا کرتا ہے۔ یہ اقتباس ملاحظہ ہو:’’کبھی کبھی ایک مجبور انسان اپنے آپ پر قابو پا کر صبر کا دامن تھام لیتا ہے اور کسی کو اپنے آپ کی مجبوری کا فائدہ اٹھانے نہیں دیتا۔ دُنیا میں اگر مجبوریاں نہیں ہوتیںتو انسان کے تیوروں کو پہچاننے میں مشکلیں پیش آتیں‘‘۔
غلام حسن طالب کے اس مجموعہ کا مطالعہ کرنے کے بعدمیں ہر باذوق قاری کو ترغیب دیتا ہوں کہ وہ اس کتاب کا مطالعہ کرے، کیونکہ یہ کتاب نہ صرف ہمارے ادبی ذوق کو جلا بخشتی ہے بلکہ زندگی کو سمجھنے کا ایک نیا زاویہ پیش کرتی ہے۔ بلاشبہ یہ مجموعہ اردوادب کے خزانے میں ایک بیش بہا قیمتی اضافہ ہے۔
(مبصر ریسرچ سکالر شعبہ اردو،جامعہ کشمیرہیں)