سرینگر//گوگولینڈ ہمہامہ میں فوج کو1600کنال اراضی دینے کامعاملہ سامنے آیا ہے اور مقامی لوگوں نے حکومت کے اس حکم کو عدالت میں چیلنج کرنے کافیصلہ کیا ہے۔ایک طرف ریاستی حکومت فوج کے زیرناجائزقبضہ اراضی کو واپس حاصل کرنے کی قانونی محاذ پر کوششیں کررہی ہیں اور دوسری طرف ہمہامہ بڈگام کے قریب گوگولینڈمیں فوج کو زمین دی گئی ہے۔محکمہ مال کے ریکارڈکے مطابق ہمہامہ کے قریب گوگولینڈمیں فوج کے زیرقبضہ1600کنال اراضی ہے جسے حکومت نے پانچ سال قبل فوج کومنتقل کیا۔محکمہ مال کے ریکارڈ کی سرسری جانچ سے پتہ چلتا ہے کہ فوج کو یہ زمین 9جنوری2012کومنتقل کی گئی لیکن ریکارڈ میں یہ درج نہیں ہے کہ فوج کو یہ اراضی کس مقصد کےلئے دی گئی ہے۔مقامی لوگوں نے الزام لگایا ہے کہ یہ اراضی اُس وقت کی ریاستی سرکار نے فوج کومنتقل کی ،بغیر یہ سوچے کہ اس منتقلی سے مقامی آبادی کےلئے کیسے کیسے مشکلات پیدا ہوسکتے ہیں۔انہوں نے اس سلسلے میں پہلے ہی حکومت کے خلاف قانونی چارہ جوئی کے اقدام کئے ہیں۔ادھر ریاستی ہائی کورٹ کے ایک معروف وکیل بابرقادری نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ مقامی لوگوں نے اُن سے رجوع کیا ہے ،تاکہ عدالت میں مفاد عامہ کی ایک عرضی دائر کرکے اراضی کی منتقلی کے حکم کومنسوخ کیا جائے۔ قادری نے کہا کہ محکمہ مال کا ریکارڈ مفاد عامہ کی عرضی داخل کرنے کےلئے کافی ہے اور وہ جلد ہی عدالت میں مقامی لوگوں کی طرف سے مفاد عامہ کی عرضی دائر کریں گے۔اس سلسلے میں’کشمیروائر‘نے فوج اور ڈپٹی کمشنربڈگام سے رابطہ قائم کرنے کی کوشش کی لیکن ان سے رابطہ نہ ہوسکا۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ ریاستی حکومت بٹہ مالوکے قریب ٹٹوگراونڈ کی اراضی فوج سے واپس حاصل کرنے کےلئے جدوجہدکررہی ہے جس پر فوج کا دہائیوں سے قبضہ ہے۔اس زمین کو حاصل کرنے کے عوض ریاستی سرکار نے پہلے ہی فوج کوشریف آباد میں متبادل زمین فراہم کی ہے لیکن فوج نے ابھی تک ٹٹوگراونڈ کو خالی نہیں کیا ہے۔