قیمت کے ساتھ ساتھ قدر بھی نہ رہی ، عوام فوائد سے ناواقف،پھل محکمہ کی عدم توجہی کا بھی شکار
زاہد بشیر
گول//گول گلاب گڑھ کا معروف و مشہور ایک قسم کا سیب جسے عرف عام میں بہی کا سیب بھی کہا جاتا ہے ۔ اس سیب کو عربی زبان میں السفرجل کہتے ہیںاور یہ پھل عام سیبوں سے الگ ہے اور اس کی شکل تھوڑی بہت سیبوں کے ساتھ ملتی جلتی ہے اور اس کا رنگ پیلہ اور سنہری ہوتا ہے۔ اس کے کافی زیادہ فائدے بھی ہیں ۔ بہی کی ابتدا ایران، ترکی اور وسطی ایشیا کے علاقوں سے ہوئی۔آج کل یہ جموںوکشمیر کے کئی علاقوں بالخصوص خطہ چناب کے گول گلاب بڑھ میں کاشت ہوتی ہے لیکن آہستہ آہستہ اس کی قیمت جہاں کم ہوتی جا رہی ہے وہیں اس کی قدر بھی کم ہو گئی ہے ۔ درصل اس پھل کے فائدوں سے عام لوگ نا واقف ہیں اور محکمہ نے بھی اس کی طرف کوئی دھیان نہیں دیا ۔ گول سب ڈویژن کے اکثر علاقوں میں پہلے اس کی کاشت زوروں پر ہوتی تھی ستمبر اکتوبر کے مہینوں میں اس پھل کو اتارا جاتا تھا اور اس کے بیچوں کو نکال کر سکھایا جاتا تھا اور اوپر بہی کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کر کے سکھایا جاتا تھا ۔ بیج اور سیکڑوں کی بازار میں اچھی خاصی قیمت تھی بالخصوص جموں کے معروف بازار رگھو ناتھ بازار میں آج بھی ڈرائی فروٹ کی دکانوں پر یہ چیزیں آپ کو ملیں گیں ۔ پہلے زمانے میں لوگ ایک جھتے کی شکل میں باغوں میں بہی نکالنے کے لئے ایک دوسرے کے گھروں میں جاتے تھے اور ایک الگ سی رونق ہوا کرتی تھی لیکن منڈیوں میں اس کے بیجوں اور سیکڑوں کی قیمتوں میں بہت کمی آئی اور عام لوگ اس پھل کے دوسرے فوائد سے بھی نا واقف ہیں ۔ وادی کشمیر کے کئی علاقوں میں بہی کو ڈیش سالن کے طور پر بھی استعمال کرتے ہیں لیکن گول گلاب گڑھ میں بہت کم اس کی ڈیش پکائی جاتی ہے اور عام لوگ اس کے سالن بنانے سے بھی نا واقف ہیں ۔ جہاں بہی کے باغات نئی نئی سڑکوں کی تعمیر کی تعمیرات میں آئے وہیں محکمہ باغبانی نے بھی اس پھل کو بڑھاوا دینے کے لئے کوئی ٹھوس اقدامات بھی نہیں اُٹھائے ۔گول کے ماہر تعلیم شبیر احمد بیگ نے کشمیرعظمیٰ کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ پھل ایران اور ترکی سے آیا ہے اور اب یہ جموں و کشمیر میں سب سے زیادہ گول گلاب گڑھ میں کاشت ہوا کرتا تھا لیکن منڈیوں میں اس کے پھل اور سیکڑوں کی قیمتوں میں گراوٹ کی وجہ سے لوگ بھی کافی مایوسی کا شکار ہو گئے ہیں اور آج کل اس کا بیج ایک ہزار سے بارہ سو روپے فی کلو اور سیکڑ پچاس روپے کلو تک بکتا ہے جہاں اس کے بیج پانچ ہزار سے دس ہزار روپے فی کلو ہونا چاہئے تھا ،۔شبیر احمد نے کہا کہ میرے پاس بھی ایک کا بہت بڑا باغ ہے لیکن اس کی قیمتوں کی وجہ سے اب اس کی قدر بھی نہیں رہی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اگر دیکھا جائے تو بہی ایک غذائیت سے بھرپور اور دواجی پھل مانا جاتا ہے۔اس میں وٹامن C، فائبر، اینٹی آکسیڈینٹس، اور معدنیات پائے جاتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہاضمہ بہتر کرتا ہے – معدے کی جلن اور بدہضمی میں مفید،دل کے لیے مفید – کولیسٹرول کم کرنے میں مدد دیتا ہے،زکام و کھانسی میں آرام – بہی کا مربہ یا شربت سینے کے لیے مفید سمجھا جاتا ہے۔متلی و الٹی روکنے میں مددگار۔جلد اور بالوں کے لیے مفید۔شبیر احمد نے کہا کہ بہی کا مربہ، جیم، جیلی، شربت اور پکوانوں میں خوشبو کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔بعض لوگ اسے اُبال کر یا بھون کر کھاتے ہیں۔شبیر احمد بیگ کا کہنا ہے کہ غالباً اس بہی سیب جسے عربی میں ــ’’السفرجل‘‘ کہتے ہیں اور اس کا احادیث میں بھی ذکر ملتا ہے۔انہوں نے کہا کہ جہاں یہ پھل محکمہ باغبانی کا عدم توجہی کا شکار رہا ہے وہیں عام لوگوں نے بھی اس کی قدر نہیں کی اور آج کل بہی سیب کو ندی نالوں میں ڈال دیتے ہیں کئی جگہوں پر بیجوںکو نکال کر سیکڑوں کو نالوںمیں پھینک دیا جاتا ہے کیونکہ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ بیس سال پہلے اس کی قیمت تھی جہاں آج اس کی قیمت بیس سال کے مقابلے میں دس گنا زیادہ ہونا چاہئے لیکن یہ دس گنا نیچے گر گیا ہے اور ا سمیں کافی محنت بھی لگتا ہے بیج نکالنے میں اور سیکڑوں کو سکھانے میں ۔ شبیر احمد نے کہا کہ ایک وقت تھا گول سے یہ سفر جل (بہی) باہر کی منڈیوں میں جاتا تھا لیکن باہر کے بیوپاری یہ سمجھتے تھے یہ وادی کشمیر سے آتا تھا لیکن وہ گول سے جاتا تھا لیکن اس کی قیمت کے ساتھ ساتھ اب قدر بھی نہیں رہی اور جن لوگوں کے پاس اس کے باغ میں وہ بھی مجبور ہیں اس باغ کو رکھنے میں ۔ انہوں نے کہا کہ اگر سرکاری سطح پر اس نایاب سیب یعنی بہی (السفرجل) کو پھر سے منڈیو تک پہنچانے اور ان کی قیمتوں میں اضافے کے ساتھ ساتھ لوگوں کو جانکاری دیں کے اس کے فوائد کیا ہیں اور گول میں ایک جیم کی فیکٹری ڈالی جائے ہو سکتا ہے کہ اس کی قیمت اور قدر پھر سے بڑھے گی اور لوگ پھر سے اس سیب کے باغات کی طرف اپنی توجہ مبذورل کریں گے کیونکہ یہ یہاں کا روزگار بڑھانے کا ایک بہت بڑا ذریعہ بھی بن سکتا ہے اور بیروزگار پڑھے لکھے
نوجوان اپنا روزگار کما سکیں کیونکہ یہ سیب (بہی) گول میں کافی مقدار میں بنتا بھی ہے ۔