گول// ریاست کے پہاڑی اور دور افتادہ علاقوں کو سڑک روابط سے جوڑنے کیلئے دس سا ل قبل گائوں گائوں سڑکوں کی تعمیر کاکام شروع کیاگیا تھا۔ابتدائی برسوں میں تو یہ کام کافی تیزی سے آگے بڑھالیکن جوں جوں وقت گزرتاگیا اس کی رفتاربھی سست پڑتی گئی اور آج حالت یہ ہے کہ ان دور دراز علاقوں میں سڑکوں کاجیسے کوئی والی وارث ہی نہیں۔ضلع رام بن کے گول سب ڈویژن میں پچھلے دس برسوں کے دوران سڑکوںکی تعمیر میں محکمہ پی ایم جی ایس وائی نے تیزی لائی اور سڑکیں کھود کر رکھ دیں لیکن انہوں نے یہ نہیں دیکھا کہ ان سڑکوں پر کس کو چلنا ہے ، کیا ان سڑکوں پر گاڑیاں چل سکیں گیں لیکن ایسا کچھ نہیں دیکھا گیا بلکہ آج کل کر کے آج بھی ان سڑکوں کی حالت ابتر ہے ۔ کھودی گئی زمینوںمیں بارشوں کے موسم میں پسیاں گر آتی ہیں جس سے کئی علاقوں میں بڑے پیمانے پر نقصان ہواہے اور کئی گھربھی منہدم ہوئے ہیں۔عام موسم میں بھی کیچڑ اور دھول لوگوں کا پیچھا نہیں چھوڑتی۔گول سے گاگرہ، مہا کنڈ و، داچھن زیرو پوائنٹ سے آگے ڈھیڈہ وغیرہ سڑکیں جو پی ایم جی ایس وائی کے تحت آتی ہیں جن پر گاڑیاں تو کیا ان پر انسانوں کو چلنا بھی دشوار ی کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔محکمہ کی طرف سے ابتدائی برسوں میں جتنی تیزی سے کام ہوا اب اتنی ہی خراب کارکردگی کا مظاہرہ کیاجارہاہے۔اس طرح سے نہ ہی ان سڑکوںکوپایہ تکمیل تک پہنچایاجاسکاہے اور نہ ہی ان کی توسیع ہوسکی ہے۔ سب سے پریشان کن بات یہ ہے کہ اگر کسی سڑک کی مرمت کرنی ہویا اس کا کام پایہ تکمیل پہنچا ناہوتو وہ ہو ہی نہیں پاتاکیوںکہ محکمہ کے پاس رقومات کی بھی کمی ہے۔کروڑوں روپے خرچ کرکے جن سڑکوں کی تعمیر کی گئی تھی آج ان کی حالت دیکھنے لائق ہے اور ان کی دیکھ ریکھ نہ ہونے کے سبب لوگوں کو بھی سخت مشکلات کاسامناہے۔اگر چہ گول میں ضلع ترقیاتی کمشنر رام بن کے دربار میں بھی پی ایم جی ایس وائی کے ایکسن نے یہ یقین دہانی کرائی تھی کہ سڑکوں کی حالت کو بہتر کیا جائے گا اور اُس کے بعد مقامی ممبر اسمبلی اعجاز احمد خان کے دربار میں بھی اعجاز احمد خان نے اس محکمہ کے آفیسران کی سر زنش بھی کی تھی لیکن اس سے بھی کوئی اثر ثابت نہیں ہو رہا ہے ۔ اس سے صاف ظاہر کوتا ہے کہ اتنا کچھ کرنے کے با وجود محکمہ کو ٹس سے مس نہیں ہو رہا ہے ۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ریاست کے دیگر خطوں کی طرح خطہ پیر پنچال اور خطہ چناب میں بھی بہت بڑی آبادی کو اس سکیم سے کافی زیادہ فائدہ ملاتھا اور سڑک کی سہولت گائوں گائوںتک پہنچنے کی راہ ہموار ہوئی تھی لیکن اس بات سے بھی انکار نہیں کیاجاسکتاکہ اب یہی سڑکیں ویران بن کر لوگوں کیلئے درد سر بن چکی ہیں اور ان کی دیکھ ریکھ ہوہی نہیں رہی۔مرکزی حکومت کی طرف سے رقومات فراہم نہ کئے جانے کی وجہ سے وہ خواب پورے نہیں ہوسکے جو دیہی آبادی کو دکھائے گئے تھے۔فی الوقت پی ایم جی ایس وائی ایک ناکام سکیم بن کر ثابت ہوئی ہے اور اس کی کارکردگی دن بدن خراب سے خراب تر ہوتی جارہی ہے۔ضرور ت اس بات کی ہے کہ ادھورے پڑے پروجیکٹوں کو پایہ تکمیل تک پہنچایاجائے اورتعمیر شدہ سڑکوں کی مناسب دیکھ ریکھ کی جائے۔محکمہ کے پاس رقومات کی کمی کو پورا کرنے کے لئے کوئی متبادل انتظام کیاجاناچاہئے۔ فی الوقت اگر محکمہ اپنی ذمہ داریاں سرانجام نہیں دے پارہاتو پھر دیکھ ریکھ کا ذمہ کسی دوسرے محکمہ کے سپرد کیا جانا چاہئے تاکہ وقتی طور پر لوگوں کے مسائل تو حل ہوجائیں۔