ہم ہم تو الیکشن میں اس قدر مصروف تھے کہ سمجھو دنیا و مافیہا سے بے خبر۔ بقول ایک ایکٹر ہم کھاتے پیتے الیکشن ، اُٹھتے بیٹھتے الیکشن ، دوڑتے ہانپتے الیکشن ،مرتے جیتے الیکشن تھے۔چلو ایک الیکشن ختم ہوگیا یعنی ہم آدھے جئے آدھے کا حساب لگانا باقی ہے۔الیکشن کے اس غل غپاڑے میں ہم نے وہ آواز ذرا ہلکی سنی جس کا شور بھارت ورش میں اونچا تھا۔سب کو’’میں بھی ‘‘ ) ( Me Too کے زلزلے میں بڑا جھٹکا منسٹر صاحب کو لگا، مگر ذیلی جھٹکے (After shocks) فلمی اداکاروں ،ڈائریکٹروں سمیت اوروں کو بھی لگے ۔اس چھینا جھپٹی میںبلدیہ انتخابات کا بھوت اتنا بھاری تھا کہ ویتال پچیسی کی بھوتیا لاش اشوک پیڑ سے اُتر کر بس اپنے کندھے پر سوار تھی۔اسی لئے ساری سرکاری مشینری گھوڑے کی طرح آنکھوں پر پٹ لگائے بس ایک ہی سمت دیکھ رہی تھی کہ اپنے ملک کشمیر میں بلدیہ اور دیہات کا سدھار ہو جائے ۔شہر شہر گائوں گائوں کی گندگی فرار ہوجائے جبھی تو مودی مہاراج کا سوچھ بھارت ابھیان کا خواب بھی مزیدار ہوجائے اور اس کی تعبیر بھی دمدار ہوجائے۔ اپنا ملک کشمیر عجب سر زمین ہے۔ یہاں زمین اور اس پر قائم باغ بغیچوں، سڑکوں نالیوں کی فکر سب کو لاحق ہے بھلے ہی زمین پر چلنے پھرنے والے زندہ رہیں نہ رہیں۔اسی لئے تو زندہ لوگوں کی کوئی نہیں سنتا بلکہ اُنہیں چیتائونی دی جاتی ہے کہ تم لوگ گولی کے بدلے پھولوں کی اُمید مت رکھنا۔ ارے صاحب یہاں تو عام لوگوں کو بھی پھول نہیں دئے گئے بلکہ اپریل سے لے کر اگلی مارچ تک انہیں فول ہی فول بنایا گیا ۔ان عام خام لوگوں کو تو سرداری عوام کا حق ہے کے مغالطے میں حیران و پریشان رکھا گیا لیکن وقت بے وقت مار مار کر ہڈی پسلی بھی توڑتے ہیں ، بینائی بھی چھین لیتے ہیں ،قید بھی کرتے ہیں اور جب وہ اس کے سبب مر جاتے ہیں تو ان کے لواحقین کو کم از کم ایک لاکھ کا معاوضہ ادا کرتے ہیں۔یہ تو وہی بات ہوئی مرا ہوا ہاتھی سوا لاکھ پر مرا ہوا کشمیری ایک لاکھ کا۔اور پھر معاوضے کی چیک کی ادائیگی پر یہ جملہ کہ عیش کرو بھلے ہی زندہ رہتے اس آدمی نے اپنے خاندان کے لئے کوئی کام نہ کیا پر مرتے ہی بنک کھاتہ کھلوایا۔ کیونکہ بنک کھاتہ کھولنا ضروری ہے کہ اس میں کبھی نہ کبھی وہ پندرہ لاکھ جمع ہونے ہیں جن کا وعدہ مودی مہاراج نے ساڑھے چار سال پہلے کیا ہوا ہے ۔یہ اور بات کہ ایسا وعدہ کب وفا ہوگا اس کی ذمہ داری ہماری قسمت پر عائد ہوتی ہے مودی سرکار پر نہیں۔خیر اپنی انتظامیہ کو پریشانی یہ تھی کہ گلی کوچوں کی مرمت کا بیڑا اٹھانے والوں کی قسمت پار ہوجائے ۔سو سونار کی نہیں بس ایک لوہار کی ہوجائے۔پھر ایسی مار ہو جائے کہ چار سو ہا ہا کار ہی نہیں پارم پار ہو جائے۔ایسے میں جو کچھ ہوا اس کے سبب کسی سے آنکھیں چار نہیں ہوئیںبلکہ کوئی کوئی ساہوکار ہوگیا،یعنی ؎
بہت شور سنتے تھے ڈبے میں ووٹ کا
جو پرکھا تو بس کھوٹ ہی کھوٹ نکلا
کہاں ساٹھ سے زیادہ کا نشانہ سادھے صاحبان اقتدار دھما چوکڑی مچانے والے تھے اور کہاں ایک آنکھ والا(ایک ہندسہ) کاٹھ کا الو ہی سامنے آیا۔وہ بھی چورے چھپے منہ اندھیرے مشین دیوی کے درشن کر آیا ۔اور سنا ہے اس کھوٹم کھوٹ میں جموں دلی سے بلدیہ سرکار چلانے والے چن لئے گئے کہ انہیں ووٹ کی ضرورت نہیں پڑی بلکہ ہڑتالی بادشاہوں کے چمتکار کے سبب جو محمود کی کلاہ تھی وہ اُچک کر موہن کے سر کی زینت بن گئی۔ اسی لئے تو لوگ کہتے ہیں کہ اب کی بار مودی سرکار بنے نہ بنے پر ملک کشمیر کی چھوٹی سرکار مودی چھاپ ضرور ہوگی اور اس کے لئے جموں دلی کیا لندن سے دوست یار بانہال ٹنل پار کر کے وارد کشمیر ہوں گے ، کیونکہ اپنی عجب پریم کی غضب کہانی میں ہر بار کاٹھ کی ہانڈی ہی چڑھی ہے اور اس ہانڈھی میں پکی ضیافتیں اپنے اہل سیاست کو خوب بھا گئیں ؎
ہیں مرے حلقے میں جو جو میرے مذہب کے خلاف
دیکھئے ممبر زرا ہوں تو کردوں سب کو صاف
مہتر ان کے در پہ جھاڑو دینے آئے کیا مجال
اور سقا مشک سے نالی دھلائے کیا مجال
ناچ تگنی کا انہیں اب میں نچائوں گا حضور
دیکھئے کس کس طرح ان کو ستائوں گا حضور
ترنگ میں آکرموہن پیارے ، مورے رام کی لیلا گانے والے ہل والے قائد ثانی جو الیکشن سے پہلے دبنگ بنے پھرتے تھے، وہ اچانک مون بھرت لئے ملنگ ہوگئے ۔ان کی زبان جو قینچی کی مانند چلتی تھی، وہ ایسے رُکی کہ بے چارے ۳۷۰ اور ۳۵۔اے کی آواز بھی نہیں نکل پاتی،بلکہ اپنے ملک کشمیر میں یار لوگوں نے پوسٹر چسپان کروائے ہیں کہ ہل والے قائد ثانی کا پتہ دینے والے کو اونچا رہے گا ہل والا جھنڈا ہاتھ میں تھما دیا جائے گا اور ساتھ میں ۳۷۰ روپے کا نقد انعام بھی حوالے کیا جائے گا،کیونکہ اب کی بار نیشنلی یار کے پاس دیناروں کی تھیلی میں سوراخ جو ہو گیا تو سرکار جانے کے ساتھ ہی اس تھیلی میں رفو کرنے والے نکل گئے اور اوپر سے دیناروں کی بھرپائی کرنے والے بھی سرک گئے ۔ کبھی نیشنل خزانے میں اہل اسلام کا ادارہ بھی تھا کہ ہل بردار مسکینوں ، غرباء ، فقرا ء کی امداد ہوتی تھی مگر اس پر بھی کئی سال سے رقیبوں کا قبضہ جما ہوا ہے ۔جب کچھ نہ رہا تو آباء و اجداد کی پوٹلی سے ۳۷۰ اور ۳۵۔اے نکال کر گزر بسر کر رہے ہیں۔زمانہ ہی بدلا کہ اب کوئی( یی ببس خوش کر تی کر لولو) کا نعرۂ مجرمانہ لگانے والے نہیں رہے اور تو اور (یِنا بَبا میون گژھی ملالے چائے چنے ووٹ کو رمَے حوالے) والے بھی عنقا ہوئے جا رہے ہیں۔
ادھر اپنے قلم دوات والوں کا حال بے حال ہے کہ امت شاہ پادشا اور مودی مہاراج اینڈ کمپنی نے مل کر دوات اُلٹ کر سیاہی گرا دی اور لوگ گنگناتے ہیں ؎
الم توڑ ڈالا قلم تو ڑ ڈالا
بانو نے میرا بھرم توڑ ڈالا
پھر ہونا کیا تھا ،رہی سہی کسر بلدیہ الیکشن نے پوری کردی۔ڈر تھا کہ اُمیدواران ِانتخاب نہیں ملیں گے ووٹر تو بڑی بات ہے ۔اسی لئے سیاست کے شکنجے میں پھنس کر ایک ہی چیخ نکلی :بائیکاٹ!!!!!!!!!!شہری الیکشن کا دور تو ختم ہوا، ابھی دیہاتی الیکشن کی آمد آمد ہے لیکن کس منہ سے کہیں کہ ہمارے منہ سے رال ٹپکتی ہے ۔ کہیں تو بیٹھنے کی کرسی ملے کہ ہم تو زندگی کے تین نشان روٹی، کپڑا اور مکان والے نہیں بلکہ ہم وہ لوگ ہیں جو اس وظیفے کا ورد کرتے رہتے ہیں ؎
جیون کا ایک استھان
مل جائے کہیں کرسی مہان
اب تو آئیں بائیں شائیں کرکے اسی نعرہ بازی میں پناہ ڈھونڈ لی جس سے پارٹی کا آغاز کیا تھا ۔ ادھر کفن کے دھاگے چن چن کر اپنی پارٹی کا پرچم سی لیا تھا ،اُدھر منان وانی کے جنازے سے پھول پتیاں چن کر نہیں بلکہ چپکے سے اُٹھا کر غم گساری کا دعویٰ ہے ۔یا یوں کہیے کہ ان ہی پھول پتیوں کو اہل قلم واور صاحب ِدوات اپنے بالوں اور کاج بٹن میں سجا کر چل پھر رہے ہیں کہ ہم ہی تو منان کے جانان اور اصل وارث ہیں ۔اس پر طرہ یہ کہ ملک کشمیر کے نوجوان اب اپنے لگتے ہیں کہ ان پر سرکاری تشدد ایک آنکھ نہیں بھاتا ، بالکل برداشت نہیں ہوتا ۔ ادھر کہیں خون بہا ،ادھر بیج بہاڑہ میں ٹیس اُٹھتی ہے ۔فوراً منہ سے بیان پھوٹتا ہے ، دل سے آہ چھوٹتی ہے ، جگر کے ٹکڑے ہوتے ہیں ،دماغ پردُکھڑے کوٹتے ہیں۔ پر کیا کریں یہ جو پبلک ہے اور اس پر سونہ مرگ سے سورسیار ہی نہیں ،کمان پوسٹ سے سرمولی کے نون چائے پواینٹ تک کی جنتا سب جانتی ہے ،سب پہچانتی ہے۔ کیوں نہیں، انہوں نے تو سنتالیس کے قبیلۂ جاٹ کی ابابیلیں بھی دیکھی ہیں،بائیس سال کی آوارہ گردی بھی دیکھی ہے،خودمختاری کا اندرون ننگا و بیرون خالی بھی دیکھا ہے،سیلف رول کی سیلفی بھی کھینچی ہے،دوہری کرنسی کی مار بھی جھیلی ہے،اس لئے دوست کون ہے، کون سہیلی ہے ،سب پرکھا ہے۔
کچھ حال بھارت ورش کا بھی ٹھیک نہیں۔دلی دربار بھی اس بھنور میں آ گری ہے کہ ڈالر اونچا اڑتا ہے تو لہریں تیز ہوتی ہیں اور روپیہ بے چارا گرتا ہی جارہاہے۔شکر ہے کہ چڑی بنیان ڈالر برانڈ کے آتے ہیں، اس لئے اپنی جگہ پر ٹھہرے ہیں روپے کے ہوتے تو گر گر کر عزت کا فالودہ بناتے۔رافیل جنگی جہاز بھی دشمن کے ٹھکانوں پر بم برسانے سے پہلے مودی اینڈ کمپنی پر نشانہ سادھے ہیں۔اس دوران نئی آفت نے بھارش ورش پر پیلٹ اور اشک آور گولے داغے کہ اقوام متحدہ بشری حقوق ادارے کی نئی سربراہ کی پہلی تقریر میں کشمیر میں زیادتیوں کی برفی اور ظلم کی کلفی پر بھارت کی چمٹی لی اور یہ بھی چلتے چلتے یاد دلایا کہ اہل کشمیر کو حقوق کا وہی بار دانہ حوالے کردو جو دنیا کے دوسرے باشندگان کو خار زارِ حیات میں حاصل ہیں۔ واہ بھئی واہ! بھاجپا سرکار نے ملک کے باقی سبھی کام نپٹا لئے ، بس ایک جو حسرت رہ گئی تھی اس کو بھی یوگی مہاراج نے الہ آباد کا نام پریاگ راج رکھ کر نکالی۔ جُگ جُگ جیو سادھو جی! اسی کو کہتے ہیں ؎
دُکھ بھرے دن رے بیتے رے بھیا
سب سکھ آئیو رے
رنگ جیون میں نیا لائیو رے
اب اگرکوئی دل جلا اس پر ی ورتن کو سب کا ساتھ سب کا وناش سمجھ کر یہ راگ چھیڑے تو ہم کیا کہیں، خیال اپنا اپنا ؎
عجب نہیں کہ تکا بھی تیر ہوجائے
دودھ جو پھٹے تو پنیر بن جائے
موالیوں کو نہ دیکھا کرو حقارت سے
نہ جانے کونسا غنڈا وزیر بن جائے
رابط ([email protected]/9419009169)