محمد تسکین
بانہال// کشمیر ریل پروجیکٹ پر بارہمولہ سے سنگلدان تک ریل سروس کے شروع ہونے کے بعد ہزاروں لوگ مستفید ہو رہے ہیں اور روازنہ کی بنیادوں پر ہزاروں لوگ روزمرہ کے کام انجام دینے کیلئے ریل سروسز کا استعمال کر رہے ہیں ۔ بارہمولہ سے بانہال ریل سروس پچھلی ایک دہائی کے زائد عرصے سے چل رہی ہے اور اس سال فروری کے مہینے میں سنگلدان ریلوے سٹیشن کو بھی بانہال ۔ بارہمولہ سے جوڑ دیا گیا ۔ریل سروس کے دائرے کو بانہال سے کھڑی اور کھڑی سے سمبڑ اور سنگلدان جیسے دور دراز ریلوے سٹیشنوں کو جوڑنے کے بعد ریل سروس نے گول ، سنگلدان ، سمبڑ ، ورنال ، بجمستہ ، ڈگڈول اور رامسو مکرکوٹ اور کھڑی مہو منگت کے ہزاروں لوگوں کے سفر کو آسان بنا دیا ہے اور روزانہ سینکڑوں کی تعداد میں متذکرہ بالاعلاقوں کے ہزاروں لوگ ریل کے کم کرایہ کے سفر کے ذریعے بانہال ، اننت ناگ اور سرینگر کے بازاروں ، ہسپتالوں اور تعلیم و تربیت کے کالجوں سے جڑ گئے ہیں اور مرکزی سرکار کی اس سہولیت سے لوگوں کی خوشی کا ٹھکانہ نہیں ہے۔ سب ڈویژن گول کے دور افتادہ علاقوں تعلق رکھنے والے عبدالرشید بٹ اور الطاف حسین لوہار نے بتایا کہ ریل سروس نے رسل و رسائل کے نئے دروازے لوگوں پر کھول دیئے ہیں اور لوگ براہ راست وادی کشمیر سے جڑ گئے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ گول سے گاڑیوں کے ذریعے رام بن پہنچنا ایک مہنگا سفر تھا اور آنے جانے میں پانچ سو روپئے کرایہ ہی لگتے تھے لیکن ریل سروس کے ذریعے پچاس روپئے میںبارہ مولہ تک کا سفر ممکن ہوگیا ہے ۔ انہوں کہا کہ گول سنگلدان سب ڈویژن کے درجنوں دیہات کے غریب لوگوں کیلئے ریل سروس کسی خواب سے کم نہیں ہے کیونکہ اب غریب اور مفلوک الحال لوگوں کی رسائی بانہال ، اننت ناگ اور سرینگر کے بڑے ہسپتالوں تک ہوگئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پہلے کسی مریض کو تب ہی ضلع ہسپتال رام بن لیا جا سکتا تھا جب مریض کے ہاتھ میں کم از کم دو ہزار روپئے کی رقم ہوتی ۔ انہوں نے کہا کہ ریل سروس شروع ہونے سے پہلے سینکڑوں بیمار محض پیسے نہ ہونے کی وجہ سے علاج و معالجہ اور ٹیسٹوں وغیرہ کیلئے ضلع ہسپتال رام بن جانے رہ جاتے تھے لیکن اب تصویر بدل گئی ہے اور بیمار لوگ صبح آٹھ بجے بانہال ، صبح نو بجے اننت ناگ اور صبح دس بجے تک سرینگر کے ہسپتالوں میں پہنچ گئے ہوتے ہیں اور ڈاکٹروں سے ملنے کے بعد واپس شام تک واپس اپنے گھروں کو پہنچ جاتے ہیں ۔ سمبڑ بجمستہ کے ایک مسافر شیر سنگھ نے بتایا کہ سنگلدان سے مزید ریل سروسز کو چلانا ضروری ہوگیا کیونکہ صرف دو سروسز میں بھاری رش ہوتاہے اور صبح سے شام تک دو ہی ریل گاڑیاں ناکافی ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ ریلوں کی فریکونسی کو بڑھایا جانا چاہیے ۔ انہوں نے کہا کہ ریل گاڑی نے سنگلدان ، سمبڑ اور کھڑی سے طالب علموں کو بھی بانہال اور اننت ناگ کے کالجوں تک روزانہ آنے جانے کے سفر کو ناقابلِ یقین حد تک ممکن بنا دیا ہے ۔اس سلسلے میں کشمیر ریلوے کے ایک اعلیٰ افسر نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ بارہمولہ ۔ بڈگام ۔ سرینگر ۔ بانہال اور سنگلدان کے درمیان ایک طرف سے نو ریل گاڑیاں چلتی ہیں یعنی کل ملا کر اٹھارہ ریل گاڑیاں آتی جاتی ہیں اور ایک اندازے کے مطابق پچیس ہزار سے زائد لوگ روزانہ ریل سروسز کا استعمال کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بانہال ریلوے سٹیشن سے ایک ہزار سے زائد لوگ ریل کے ذریعے سفر کرتے ہیں جبکہ وادی کشمیر سے آنے والے مسافروں کی تعداد اس سے بہت زیادہ ہوتی ہے اور چار ہزار کو بھی تجاوز کر جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ریل سروسز کو بڑھانا فی الحال ممکن نہیں ہے کیونکہ سردیوں کے موسم میں کم رش کیوجہ سے آنے جانے والی 18ریل گاڑیوں میں مزید کمی کی جا سکتی ہے۔
کٹرہ ہنوز دور ٹنل نمبر1تاحال نامکمل
محمد تسکین
بانہال//کشمیر ریل پروجیکٹ پر سنگلدان اور کٹراہ ریاسی کے درمیان قریب 63کلومیٹر طویل لائین کو مکمل کرنے کا کام جاری ہے تاہم کٹراہ کے نزدیک ریلوے ٹنل نمبر ایک کے اندر ناموافق زمینی اور چٹان کی حالات اس پروجیکٹ کو مکمل کرنے میں تاخیر کا باعث بن رہی ہے تاہم ریلوے کے حکام کو امیدہے کہ بقایا پڑے کام کو آئندہ چند ماہ میں مکمل کیا جائیگا ۔ریلوے ذرائع نے کشمیر عظمی کو بتایا کہ سنگلدان اور ریاسی کے درمیان ریلوے لائین مکمل ہے اور اس پر ٹرائل رن بھی کیا گیا ہے تاہم 17کلومیٹر طویل ریاسی اور کٹرہ کے درمیان 3200میٹر لمبے ریلوے ٹنل نمبر ایک کو گزشتہ سال دسمبر میں کھدائی مکمل کرکے آر پار کیا گیا تھا لیکن اس کے ایک حصے میں بڑی مقدار میں پانی کا رسائو اور ڈھیلی زمین شمالی ریلوے اور تعمیراتی کمپنی کونکون ریلوے کیلئے پریشانی کا سبب بنا ہوا تھا تاہم اب اس چیلنج سے نمٹنے کیلئے تمام دستیاب وسائل اور ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جارہا ہے اور مکمل کرنے کیلئے مزید چند مہینوں کا وقت درکار ہے۔ اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ریاسی میں ریلوے کی تعمیر سے جڑے ایک افسر نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ ادہم پور ۔ سرینگر ۔ بارہمولہ ریلوے لائین پر کٹرہ میں ریلوے ٹنل نمبر 01کی کھدائی کا کام مکمل کرنا ایک بڑا چیلنج تھا اور یہ ٹنل پروجیکٹ 111کلومیٹر طویل بانہال اور کٹرہ کے درمیان 38ریلوے ٹنلوں میں سب اہم اور دشوار ٹنل کے طور جانا جاتاہے۔ انہوں نے کہا کہ کٹراہ کے اس 3200میٹر لمبے ریلوے ٹنل کی کھدائی جدید نیو آسٹرین ٹنلنگ میتھڈ سے کی گئی ہے اور یہ ٹنل زمین اور چٹانوں میں نامواقق صورتحال کی وجہ سے پہلے سے ہی چیلنجنگ رہا ہے اور ابھی بھی اس کی تکمیل ادہم پور ۔ سرینگر ۔ بارہ مولہ ریل پروجیکٹ کو مکمل کرنے میں تاخیر کا سبب بن رہی ہے۔