سرینگر//پولیس سربراہ ڈاکٹر ایس پی وید نے مسلح تصادم آرائیوںکے دوران سیکورٹی فورسز پر پتھرائو کو خود کشی کے مترادف قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ نوجوانوں کو انکائونٹر مقامات کی طرف جانے سے روکنے کیلئے خصوصی حکمت عملی مرتب کی جارہی ہے۔انہوں نے کہا کہ نوجوانوں کو تشدد پر اُکسانے کیلئے سوشل میڈیا کا غلط استعمال کیا جارہا ہے۔ڈائریکٹر جنرل ایس پیوید نے چاڈورہ واقعہ کے تناظر میںنوجوانوں کو مشورہ دیا کہ وہ فورسز اور جنگجوئوں کے درمیان تصادم کی جگہوں سے دور رہیں۔انہوں نے کہا کہ جب کبھی بھی کہیں جنگجوئوں کے ساتھ فورسز کی جھڑپ شروع ہوتی ہے تو انٹرنیٹ کا غلط استعمال کرتے ہوئے بعض وٹس ایپ اور فیس بک گروپوں کو متحرک کرکے نوجوانوں کو تشدد پر اُکسانے کی کوششیں کی جاتی ہیںتاکہ فورسز کی طرف سے رد عمل میں انسانی جانیں ضائع ہوں ۔انہوں نے کہا کہ جھڑپ ہونے کے صرف چند منٹوں میں قریب300وٹس ایپ گروپ سرگرم ہوجاتے ہیں جن میں کئی سرحد پار سے چلائے جاتے ہیں۔ اسکے علاوہ فیس اور دیگر سوشل میڈیا ذرائع کو سرگرم کیا جاتا ہے،جس کا واحد مقصد یہ ہے کہ تشد کو ہوا دی جاسکے تاکہ نوجوان ایسے مقامات پر پہنچ پائیں۔انکا کہنا تھا کہ نوجوانوں کو پتھرائو کرنے پر اُکسایا جاتا ہے تاکہ جنگجوئوں کو فرار ہونے کا موقعہ ملے اور یہ نہج انتہائی خطرناک ہے۔ ایس پی وید نے کہا’’سیکورٹی فورسز بھی جھڑپوں کے دوران گاڑیوں یا مکانوں کی آڑ میں چھپ جاتے ہیں، نوجوانوں کا انکائونٹر مقامات کی طرف جانا خود کشی کرنے جیسا ہے ، گولی کبھی یہ نہیں دیکھتی کہ کون آرہا ہے یا وہ کس کو لگنے والی ہے؟‘‘انہوں نے کہا کہ نوجوانوں کی طرف سے انتہائی اشتعال انگیزی کے باوجود پولیس اور فورسز نے عام شہریوں کے جان و مال کے کم سے کم نقصان کو یقینی بنانے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ڈی جی پولیس نے بتایا’’نوجوانوں کا برین واش کیا جارہا ہے ، انہیں انتہا پسندی کی طرف دھکیلا جارہا ہے اور یہ ہمارے لئے ایک چیلنج ہے ‘‘۔انہوں نے کہا’’میں نوجوانوں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ ماضی کی طرح جھڑپوں کے دوران اپنے گھروں میں رہیں اور جھڑپ کی جگہوں کی طرف نہ جائیں ، نوجوانوں کو یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ انہیںایسے عناصر کے ذریعے سیاسی مفادات کیلئے استعمال کیا جارہا ہے جو ریاست میں افراتفری پھیلانا چاہتے ہیں‘‘۔ریاستی پولیس سربراہ نے کہا’’ جموں کشمیر پولیس اور سیکورٹی فورسز گزشتہ25سالہ تجربے کو بروئے کار لاتے ہوئے اس پر تبادلہ خیال کررہی ہے اور اس ضمن میں ایک حکمت عملی مرتب کی جارہی ہے‘‘۔ڈاکٹر وید نے کہا ’’ اگر کوئی نوجوان مرتا ہے تو لوگ چند دنوں تک اسے یاد کرتے ہیں، اسکے بعد اپنی روز مرہ کی زندگی میں محو ہوجاتے ہیں، بالآخر نقصان اس کنبے کا ہوتا ہے جس نے اپنے لخت جگر کو کھویا ہوگا،لہٰذا میں والدین سے کہتا ہوں کہ وہ اپنے بچوں کی زندگیوں کو محفوظ بنائیں۔جنوبی کشمیر میں پولیس افسران کے گھروں میں جنگجوئوں کی توڑ پھوڑ، ان کے اہل خانہ کو ہراساں کرنے اور پولیس اہلکاروں کی ہٹ لسٹ چسپاں کرنے کے واقعات پر تبصرہ کرتے ہوئے ایس پی وید نے کہا’’جموں کشمیر پولیس نے نوے کی دہائی میں بھی ہٹ لسٹیں دیکھی ہیں ، فکر کرنے کی کوئی بات نہیں ہے اور اس صورتحال کا بھی خیال رکھا جائے گا‘‘۔