2014میں اقتدار میں آنے کے بعد وزیراعظم نریند ر مودی نے ملک کے71ویں یوم آزادی کے موقعہ پر لال قلعہ کی فصیل سے قوم سے خطاب میں شاید پہلی دفعہ یہ کہہ کر کشمیر ی عوام تک پہنچنے کی کوشش کی ہے کہ کشمیر کا مسئلہ گولی یا گالی سے نہیں بلکہ کشمیریوں کو گلے لگانے سے حل ہوگا۔مودی نے اپنے خطاب میں ملک کو درپیش کئی مسائل کا ذکر کیا جن میں کچھ مسائل جہاں براہ راست ملک کی اقلیتوں سے تعلق رکھتے ہیں وہیں انہوںنے کشمیر کے تعلق سے بھی اپنی بدلتی سوچ کا کھل کر اظہار کیا۔وزیراعظم نے جس طرح گولی اور گالی کی بجائے گلے لگانے کی بات کی ،وہ سخت گیر نظریہ رکھنے والی بھارتیہ جنتا پارٹی کے روایتی موقف سے ہٹ کر لگتا ہے تاہم وزیراعظم کے بیان کو بین السطور سمجھنے کی ضرورت ہے ۔انہوں نےتشدد پر بھی بات کی اور علیحدگی پسندوں کا بھی نام لیا ۔تشدد کے حوالے سے جہاں ان کا مؤقف بالکل واضح تھا کہ اس مسئلہ پر نرمی برتنے کا سوال ہی پید انہیں ہوتا ہے وہیں انہوں نے کشمیر میں ہونے والے واقعات کیلئے علیحدگی پسندوں کو بھی یہ کہہ کر ذمہ دار ٹھہرایا کہ بقول ان کے مٹھی بھر علیحد گی پسند نئی نئی سازشیں رچتے ہیں ۔ باریک بینی سے وزیراعظم کے بیان کا تجزیہ کیاجائے توداخلی سطح پر انہوں نے کشمیر کے معاملہ پر تین حلقوں کو بیک وقت ایڈرس کرنے کی کوشش کی ہےجبکہ خارجی سطح پر اس میں چین اور پاکستان کیلئے بھی واضح اشارے موجود تھے ۔پاکستان اور چین کے تعلق س وزیراعظم کی تقریر کا تجزیہ کئے بغیر کشمیر پر ان کی تقریر کے کچھ حصے کا جب جائزہ لیا جاتا ہے تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اُن کی تقریر میں عوام ،علیحدگی پسندوں اور عسکریت پسندوںکیلئے الگ الگ پیغامات تھے ۔جہاں تک گلے لگانے کا تعلق ہے تو یہ بات عوام سے تعلق رکھتی ہے اور ایسی بات کرکے وزیراعظم نے کشمیر کے عام لوگوں تک پہنچنے کی کوشش کی ہے تاکہ ان کے دل جیتے جاسکیں اور ساتھ ہی ملک کے عوام کو یہ پیغام دیا جاسکے کہ وہ عام کشمیریوں کے لئے دل میں نفرت نہ رکھیں بلکہ انہیں گلے لگائیں ۔مودی کا یہ کہنا کہ گولی اور گالی سے مسئلہ حل نہ ہوگا ،اس بات کی جانب اشارہ تھا کہ طاقت کے بل پر کشمیری عوام کو زیر نہیں کیاجاسکتا ہے بلکہ پیار و محبت سے انہیں قومی دھارے میں شامل کیاجاسکتا ہے ۔اگر واقعی وزیراعظم کی ایسی ہی سوچ ہے ،تو اس کا خیر مقدم کیاجاناچاہئے تاہم یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ یہ محض زبانی جمع خرچ تھا یا پھر اس پر عمل بھی ہوگا ۔عمل اسی صورت میں ہوگا جب کشمیریوں کو طعنے اور گالیاں دینے کا سلسلہ بند ہونے کے علاوہ کشمیر کے نہتے عوام پر گولیاں اور پیلٹ کے چھرے برسنے کا سلسلہ ختم ہوگا۔ وزیراعظم نے جس طرح علیحدگی پسندوں کو اپنے خطاب میں ایڈرس کیا ،وہ بات غالباً زمینی حالات سے میل کھاتی دکھائی نہیں دیتی ۔مانا کہ علیحدگی پسند لیڈران اور جماعتیں کشمیر میں ہند مخالف جذبات بھڑکاتی ہیں تاہم دلّی کو اس حقیقت کا بھی ادراک ہونا چاہئے کہ جذبات صرف اُسی صورت میں بھڑکائے جاسکتے ہیں جب ایسے جذبات موجودہوں ۔اس حقیقت سے انکار کرنا کہ کشمیر میں مزاحمت کا جذبہ موجود نہیں، حقیقت سے آنکھیں چرانے کے مترادف ہے۔وزیراعظم نے اشاروں کنایوں میں علیحدگی پسندوں کا گھیرا مزید تنگ کرنے کا اشارہ دیا اور ان کے ساتھ کسی بھی قسم کی بات چیت کو خارج ازامکان قرار دیا حالانکہ وزیراعظم سمیت مرکزی قیادت اس بات سے بے خبر نہیں ہوگی کہ یہاں مزاحمتی حلقہ کی ایک واضح سپیس ہے ، جس کے لئے جموں و کشمیر کے تاریخی حالات ذمہ دار ہیںاور اس بنا پر وہ باہم مربوط ہیں۔لہذا کسی ایک حلقہ کو علیحدہ طور اپنا کر یا اس سے بزور نمٹ کر مسئلہ کو حل نہیں کیا جاسکتا ، کیونکہ ایسے تجربے ماضی میں کامیاب نہیں ہوئے ہیں۔ اسکی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ تقسیم برصغیر کے نتیجے میں پیدا شدہ اس مسئلے کے بنیادی پہلوئوں پر سنجیدگی کے ساتھ غور کر کی کوشش نہیں کی گئی۔ اگر مرکز مسئلہ حل کرنے میں واقعی سنجیدہ ہے تو مسئلہ کی جڑ تک پہنچنا ہوگا ۔تینوں حلقوں کو ایک ساتھ ایڈرس کرنا ہوگااور یہ سمجھنا ہوگا کہ عوام،علیحدگی پسند قیادت اور عسکریت جدا جدا نہیں ہیں، کیونکہ انہیں ایک سیاسی تاریخ سے مربوط جذبہ ایک دوسرے سے جوڑتا ہے ،لہٰذا دانشمندی اسی میں ہے کہ اُ س جذبہ کو ایڈرس کیا جائے ، جو یہاں علیحدگی پسندی اور عسکریت کو ریلونٹ بناتا ہے ۔اگر اُس جذبہ کو سمجھ کر اُس کو ایڈرس کرنے میں کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے تو باقی معاملات خود بخود حل ہوجائیں گے تاہم ایسا نظر نہیں آرہا ہے کہ دلّی کا حل اس سب چیزوں کا احاطہ کرتا ہے۔بہرحال وزیر اعظم کی تقریر کا اس امید کے ساتھ خیر مقدم کیا جانا چاہئے کہ بھارت اور پاکستان کی حکومتوں پر اس مسئلہ کے حل کاجذبہ پیدا ہوتاکہ ریاست جموں وکشمیر کے عوام کےلئے اس دہکتی ہوئی بھٹی سے خلاصی کی کوئی صورت سامنے آئے۔