شبنم رشید
جب میں اپنے بکھرے وجود کو گھسیٹتے ہوئے اپنے گھر کے مین گیٹ سے داخل ہوئی تو سب کے ساتھ ساتھ افسانہ کو بھی اپنا منتظر پایا۔ میرے صبر اور ضبط کے سارے باندھ ٹوٹ گئے۔ افسانہ کے گلے لگ کر پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی۔ افسانہ عمر میں مجھ سے کافی چھوٹی تھی مگر اس نے تو کسی بڑی بزرگ خاتون کی طرح مجھے اپنے گلے سے لگا کر ڈانٹنے کے انداز میں کہا کیوں ایک چھوٹے بچے کی طرح رو رہی ہو؟ سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا۔ اللہ تعالٰی کے جو فیصلے ہوتے ہیں وہ بڑے نرالے مگر انسان کے لیے بڑے فائدہ مند ہوتے ہیں۔ افسانہ کے قوت بھرے ان الفاظ نے مجھے ہمت دلائی تو کسی حد تک میرا من اتنا ہلکا ہوا کہ جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔
تب افسانہ کی عمر ایک سال کی تھی جب اسکے ابو کا انتقال ہوا تھا۔ اسلئے وہ اپنے ابو کو نہیں جانتی تھی۔ افسانہ کی امی عارفہ نہ چاہتے ہوئے بھی اس ننھی سی جان کو گود میں لے کر اپنے مائیکے چلی آئی۔ بڑے دکھی حالات سے گزر کر عارفہ کے والدین نے صرف ایک سال کے اندر اندر اسکا دوسرا نکاح میرے بڑے بھائی سے کرایا۔ بھیا کنوارے تو تھے مگر انکی عمر چالیس سال سے اوپر ہوچکی تھی۔ ان کو شادی کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں تھی کیونکہ وہ آزادی اور بے فکری کی زندگی گزارنا چاہتے تھے۔ اپنی شادی کو ٹالتے ٹالتے انکی عمر اسلئے کافی آگے نکل گئ تھی۔ عارفہ بھابی اتنی سمجھدارماں تھی کہ وہ اپنی زندگی کو نئے سرے سے سنوارنے کے حق میں تو تھی مگر اپنی بیٹی کو اپنے آپ سے جدا کرنے کے حق میں بالکل نہ تھی۔ اسلئے میرے بھیا کو اپنا حق مہر ،زیور وغیرہ سب کچھ پہلے ہی اس شرط پر معاف کردیا کہ وہ بدلے میں افسانہ کی اپنی سگی اولاد کی طرح پرورش کرے۔ امی، ابو کے ساتھ ساتھ گھر میں کسی نے بھی کوئی اعتراض نہ کیا۔ اس طرح افسانہ میری بھتیجی بن گئی۔
افسانہ بہت پیاری بچی تھی۔ اپنی امی کے بجائے وہ میرے زیر سایہ زیادہ پرورش پانے لگی کیونکہ وہ پہلے ہی دن اپنی ماں کی گود سے اتر کر سیدھے میری گود میں آبیٹھی۔ اس کی اس اداء سے اس نے میرے دل میں اتنی گہری جگہ بنائی کہ میں اسے چبا چبا کر لقمے کھلانے لگی۔ وقت کے ساتھ ساتھ میں نے اسے کھلانا، پلانا، سلانا، دھلا اور اسکی تربیت سارا کچھ اپنے ذمہ لے لیا پھر وہ چھوٹے چھوٹے قدموں سے چل چل کر اسکول جانے لگی۔ باقی بچوں کی نسبت افسانہ قد و قامت، رنگ، روپ اور ذہانت میں کافی اچھی تھی۔
وقت کی رفتار کے ساتھ وہ اپنی تعلیم میں مصروف ہوئی اور عمر کے زینے بھی طے کرتی گئ۔ ساتھ ساتھ ہمارے درمیان دوستی بھی مضبوط ہوتی گئ۔ اس سال میرے لئے ڈھیر سارے رشتے آئے۔ کچھ رشتے مجھے ناپسند کر کے واپس چلے گئے اور کئی رشتوں کو ہم نے خود ریجیکٹ کردیا۔ پھر ایک وقفہ خالی خالی گزر گیا۔ اچانک ایک دن سامنے والے ایک پڑوسی نے میرے لئے ایک رشتہ لایا۔ پانچ مہینوں کی پوری چھان بین کے بعد جب اس رشتے میں کوئی کمی یا برائی ہی نظر نہ آئی تو پھر میرا رشتہ عنایت سے طے ہوا۔ جب میں پہلی بار عنایت سے ملی تو اسکو بالکل ویسا پایا جیسا میں نے دعاؤں میں مانگا تھا۔ جاذب نظر، اونچا قد، نرم لہجہ، کھلے ذہن والا واقعی قابل تعریف بندہ تھا۔ میں نے دل کی گہرائیوں اور بڑے یقین کے ساتھ اسے قبول کرلیا۔ ہماری منگنی اور نکاح ایک ساتھ اور آمنے سامنے ہوا۔ رمضان کا مبارک مہینہ مکمل ہوتے ہی نکاح کے لگ بھگ چھے مہینے بعد بڑے دھوم دھام سے میری رخصتی ہوئی۔
شادی کی ساری رسمیں پوری کرکے جس رات میں عنایت کے ساتھ مائیکے سے رخصت ہوئی۔ گاڑی میں عنایت کی بغل میں خوشیوں اور خوشبو سے لبریز خود کو سمیٹنے بیٹھی تھی۔ وہ بے حد خوش نظر آرہا تھا۔ وہ راستے بھر محبت کی باتیں کرتا رہا۔ میرے مہندی سے رنگے ہاتھوں کو بار بار چوم رہا تھا۔ میرا پورا وجود تھکن سے چور تھا آنکھیں نیند سے بوجھل تھیں میں کب سسرال پہنچی کچھ یاد نہیں۔
سسرال کی تیسری صبح پہلی اور دوسری صبح سے زیادہ خوبصورت اور دلکش محسوس ہو رہی تھی۔ ہر طرف خوشیوں کا بسیرا تھا۔ عنایت بھی خوشیوں سے سرشار اور خوشگوار موڑ میں تھا۔ آج ہی دوپہر کو افسانہ مجھ سے ملنے آئی۔ مٹھائیوں کے ڈبے اور ڈھیر سارے خاص تحفے بھی لائی تھی۔ وہ میری شادی میں اسلئے شامل نہ ہوسکی تھی کیونکہ اسکے امتحانات چل رہے تھے۔ امتحانات کی وجہ سے آجکل اسکا قیام گھر سے دور کہیں باہر تھا۔ وہ گولڈن کلر کے گاون اور میچنگ جیولری اور نقاب میں کوئی آسمان سے اتری ایک الگ ہی مخلوق لگ رہی تھی۔ وہ کافی سمجھدار، سنجیدہ اور ایسی باحیاء دوشیزہ تھی کہ وہ پرائے مرد کے سایے سے بھی گھبرا جاتی تھی۔ خیر وہ اپنی نظریں جھکائے تھوڑی دیر بیٹھی رہی۔ چائے ناشتہ کر کے واپس چلی گئی۔
افسانہ کے جاتے ہی عنایت گھر سے غائب رہا۔ شام کو جب لوٹ کے آیا تو اسکا رنگ کافی بدلا بدلا سا لگ رہا تھا۔ وہ کچھ زیادہ ہی سنجیدہ اور خاموش سا ہوگیا تھا۔ اسے دیکھ کر مجھے کافی تشویش ہوئی۔ اندر ہی اندر کافی بے چینی سی محسوس کرنے لگی۔ اسلئے میں نے اسے کئی بار پوچھا کہ کیا ہوا؟ کیا آپکی طبیعت صحیح نہیں؟ تو ہر بار اُس نے بڑبڑاتے ہوئے جواب دیا کہ میں بالکل ٹھیک ہوں۔ عنایت دوپہر تک تو بالکل ٹھیک ٹھاک تھا۔ میرے لئے آسمان سے تارے توڑ کر لانے کے وعدے کر رہا تھا۔ اب اسے اچانک کیا ہوا؟ کہیں مجھ سے ہی کوئی غلطی تو نہیں ہوئی کیوں اچانک اسکی طبعیت کی تازگی اور محبت کی سرشاری غائب ہوگئ؟ میری سمجھ میں کچھ نہ آرہا تھا ۔ کئی دنوں تک ان سوالوں کے اندر الجھی رہی۔ اس طرح میری بے قراری اور اُداسی کا سلسلہ شروع ہوا۔ جب اس نے مجھے بالکل ہی بیگانہ کرنا شروع کیا تو میں بھرے پڑے گھر میں خود کو اکیلا محسوس کرنے لگی۔ گھبرا کر اسکی بہنوں سے بات کی ۔ انکے بھی ہوش آڑ گئے۔ جب عنایت کے موڑ میں ذرا بھر فرق نہ آیا تو میں نے ساسو ماں کو بھی بتایا۔ وہ بھی پریشان ہوئی۔ کہا تم خود خوش رہا کرو۔ اسکا موڑ خود بہ خود ٹھیک ہوجائے گا۔ ساسو ماں نے میری آنکھوں میں آے آنسوؤں کو صاف کرتے ہوئے دلاسہ تو دیا مگر سنجیدگی کا بالکل بھی مظاہرہ نہ کیا۔
ایک روز نرم اور آہستہ لہجے میں، میں نے پھر ایک بار عنایت سے پوچھنے کی کوشش کی۔ آخر مجھ سے ایسی کونسی بڑی خطا ہوئی جس کی تم مجھے سزادے رہے ہو؟ تو اس نے میری طرف دیکھے بغیر کہا مجھے ڈسٹرب مت کیا کرو۔ میں بہت پریشان رہنے لگا ہوں مجھے اور پریشان مت کرو۔اسکا جواب سن کراب دل چاہ رہا تھا کہ رات کے اندھیرے میں دوڑ کے جاوں۔ جاکے اپنے دل کا حال اپنے مائیکے والوں کو چیخ چیخ کر بتاؤں مگر انہیں بے چین اور پریشان کرنا نہیں چاہ رہی تھی۔ دوسری طرف عنایت کی محبت پاوں کی زنجیر بن کر قدم روک رہی تھی۔ جب درد حد سے بڑھ گیا تو سوچا کہ کیا کوئی ایسا انسان، کوئی ایسا ہمدرد میری زندگی میں موجود ہے جس کے ساتھ میں اپنا یہ دکھ درد بانٹ سکوں؟ ہر طرف نظریں دوڑائیں تو ہر طرف صرف افسانہ ہی نظر آئی۔ پھر کسی سے نہ کہنے کی شرط پر اسے اپنا دکھ درد بانٹنا شروع کیا۔ میری پوری بات سننے کے بعد اس نے کہا پتا نہیں عنایت بھائی کے دل میں کون سا طوفان چل رہا ہوگا۔ اگر کوئی نفسیاتی مسئلہ ہو یا کوئی عشق وشق کا چکر ہو تو وقت کے رہتے ٹھیک ہوسکتا ہے کیونکہ دنیا میں ہر مسئلے کا حل وقت کے پاس وقت پر ہی ملتا ہے۔ باقی اگر کوئی اور بھی سنجیدہ مسئلہ ہو وہ بھی دیکھا جائے گا۔ آپکو گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ زمانہ کافی بدل گیا ہے۔ اپنے آپ پر بھروسہ اور اللہ کی ذات پر یقین رکھنے سے ہر مشکل آسان ہوجاتی ہے۔ فی الحال آپ سب باتوں پر پردہ رکھو گے تو ہر مسئلہ ٹھیک ہو سکتا ہے۔ زیادہ واویلا کرنے سے اگر کچھ اونچ نیچ ہوئی تو حالات بگڑ کر تمہارا گھر بکھر سکتا ہے۔ آپ اپنے فرائض انجام دیتی رہنا ۔ ہمیشہ عنایت بھائی کے ساتھ محبت اور عزت سے پیش آنا۔ ایسی فالتو سوچوں اور خیالوں کو ذہن سے نکال دینا جو تمہیں پریشان کر رہے ہوں گے۔ ساتھ ساتھ اپنے آپ کو ذہنی طور ہر مشکل سے لڑنے کے لیے بھی تیار رکھنا۔ کیا پتہ وقت کس طرف کروٹ لے۔ افسانہ نے مجھے اپنے الفاظ کے ذریعے بہت کچھ سمجھایا۔
وقت نے اپنی رفتار جیسے مدہم کر لی۔ اب میں عنایت کی حرکتوں پر چوری چھپے نظر رکھنے لگی۔ اس شام میں اپنے بیڈ پر لیٹی آنکھیں بند کر کے عنایت کے بارے میں ہی سوچ رہی تھی کہ باہر ہلکی بوندا باندی شروع ہوئی۔ لائٹ بھی چلی گئی۔ عنایت کمرے میں آیا تو میں گہری نیند میں ہونے کا ناٹک کرنے لگی۔ عنایت کو پورا بھروسہ ہوا کہ میں واقعی گہری نیند میں ہوں تو وہ اپنا فون لے کر باہر کمرے کی بالکنی میں چلا گیا۔ باہر سے دروازہ بند کیا تو پھر شاید کسی دوست کو فون ملایا۔ میں آہستہ آہستہ بیڈ سے اتری اور بالکنی کے دروازے سے ٹیک لگا کر بڑے دھیان سے اسکی باتیں سننے لگی۔ وہ فون پر کسی دوست کو یہ کہہ رہا تھا کہ مجھے نا اب اس لڑکی کے ساتھ شادی کر کے بڑا پچھتاوا ہورہا ہے۔ میری جان پر آ بنی ہے۔ جیسے میری آنکھوں کے انگارے پڑ گئے تھے۔ اب اس کے ساتھ رہنا گوارا نہیں ہو رہا ہے۔ مجھے کسی بھی طرح پیسوں کا انتظام کرنا ہوگا تاکہ وہ رقم اس کے منہ پر مار کر چھٹکارا پا سکوں ورنہ یہ کسی جان لیوا مرض کی طرح میری جان لے کر مجھے گھر سے گور تک لے پہنچا دے گی۔ اگر پیسوں کا انتظام نا ہوا تو؟ شاید اس دوست نے عنایت سے یہ سوال کیا۔ تو پھر میں اپنا گھر ہی چھوڑ دوں گا یا جان سے ہی گزر جاوں گا۔ عنایت ایک ایک لفظ زہر بھرے انداز میں بول رہا تھا۔ اس کا یہ انداز دیکھ کر میں خود سے یہ سوال کرنے لگی یہ کون بول رہا ہے؟ شادی سے پہلے محبت کے گیت گانے والا میرا شوہر عنایت یا کوئی اور؟ اپنے کانوں پر یقین ہی نہیں آیا۔ آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔ میں اُٹھ کر کھڑی ہوئی پھر نیچے بیٹھ گئ۔ کچھ دیر بعد واپس اپنے ہوش و حواس میں آگئ۔ خود کو سنبھال لیا او ر خود کو منا لیا۔ عنایت کے دل کی بات جان کر تلخ ہی صحیح مگر دل کو ایک تسلی مل گئی۔ دل بری طرح ٹوٹا۔ اب اس منافق شخص کے ساتھ رشتہ رکھنا اور اسکے ساتھ رہنا ٹھیک نہیں ہوگا۔ اگر کوئی اور مسئلہ ہوتا تو میں برداشت کر لیتی۔ یہ تو نفرت کا مسئلہ تھا۔ اس سے پہلے کہ عنایت مجھے اپنے راستے سے ہٹا کر میری موت کو کوئی ایسا نام دے جو کل میرے اپنوں کے لئے ایک سوالیہ نشان بن جائے مجھے اپنا ایک الگ راستہ چننا ہوگا۔ اسلئے صبح فجر کی نماز کے بعد اپنے بھائی کو فون ملا کر بتایا کہ آپ مجھے یہاں سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے لینے کے لیے آجائیں۔ کچھ دیر بعد ہی اپنے ٹوٹے دل کی کرچیوں کو ہر طرف بکھیرتے ہوئے کبھی واپس نہ آنے کے لیے عنایت کے گھر سے بھائی کا ہاتھ پکڑ کر نکل پڑی۔
پہلی نگاہ میں ہی وہ دل میں اتر گیا
پھر جو اس کے بعد دل میں جو کچھ تھا بکھر گیا۔
���
پہلگام اننت ناگ
موبائل نمبر؛ 9419038028