سرحدوں پر کچھ کچھ تنائو کم ہوگیا، ہم نے شکر ادا کیا کہ چلو خطرہ ٹل گیا ۔ دروغ بر گردن دانائے دہر و زیرکِ کشمیر جس نے کانا پھوسی کی کہ شکریہ سعودی شہزادے کا ادا کر بھائی ،اۃسی نے مملکتِ عیش سے ہی مودی و عمران کو دھمکی دے ڈالی :مابدولت نے آر پار کئی بلین ڈالر کا کیش جھولی میں ڈالا، وہ کیا یونہی پھونک ڈالنا ہے؟ پیسے واپس کرو، مطلب مال شو کرو، یا امن بحال کرو۔
لو جی یارو موج منائو ۔محکمہ افواہ بازی کو سرکار نے اپنی تحویل میں لے لیا یا یوں سمجھ لیجئے کہ افواہ سازی نیشنلائز ہوگئی۔ہم نے کبھی سنا تھا کہ بنک نیشنلائز ہوگئے، نجی ادارے نیشنلائز ہوگئے مگر اب کی بار مودی ملک سرکار میں یہ نیا موڑ آیا بلکہ بے جوڑ آیا اور اس کے سبب ایسے سیاسی توڑ مروڑ بھاگم دوڑسننے اور دیکھنے کو ملیں گی کہ آگے دوڑ پیچھے چھوڑ والا کھیل کا دلوں سے میل ہوگا۔اب لوگوں کو ہریسے کی دیگ کے گرد یا حجام ونانوائی دوکان کے تھڑے پر افواہ گوندھنے یا من گھڑت خبریں سینکنے کی ضرورت نہیں رہی کیونکہ سرکار یہ کام اب محکمہ رسدات کے گھاٹ ، صحت عامہ کی ایمبیولنس ، پولیس سرشتے کے خفیہ ٹیلی پیغامات کی وساطت سے خود ہی انجام دے گی۔ چونکہ بقول گورے بابا لارنس اہل ِکشمیر افواہ بازی طبعاً پسند کرتے ہیں بلکہ اسی پر جیتے ہیں، ہم نے خاص طور پر افواہ بازی کے معاملے میں سرکاری ترجمانوں کو ’’ٹرجمان‘‘(سفید جھوٹ بولنے والا) نہیں بتایا اور ان کی دی ہوئیں ہدایات پر فوری عمل شروع کردیا ۔مانا کہ جنگ کوئی پکنک نہیں اور اسے منانے کے لئے رستہ گوشتابہ یا پورے وازہ وان کی دیگ لے کر کسی صحت افزا ء مقام کی طرف قدم رنجہ ہوا جائے ،پھر بوفورس توپ کے دہانے میں گولوں کی جگہ گوشتابے والا گولہ بھرکر دشمن ِجان پر فائر کیا جائے کہ اس کی لذت و خوشبو سے ہی شترو سینا مدہوش ہوجائے اور یک لخت انہیں اسی عالم میں فان در فان کردیا جائے۔ ہم نے با ضابط جنگ کا حدود اربعہ معلوم کیا ۔صحافت کے مچھلی بازار میں ٹی وی اسکرین پر چلنے والی ویڈیو گیموں کو اصل بمباری مان کر یہ نتیجہ نکالا کہ آگے کیا کیا ہونے والا ہے۔اشیائے خورد و نوش کی کمی ، ادویات کا قحط ، اوپر سے برسنے والے فضائی گولوں کی بوچھارڑاور اس سب سے بچائو کے لئے زیر زمین تہہ خانے کی ایجاد وغیرہ وغیرہ کا ناپ تول۔ اس درد کو دل میں دبائے ہم نے بھی دیکھادیکھی میں اپنی ننھی سی جان کی مدافعت پر اپنی جیب کی قربانی شروع کردیاور وہ بغیر بسم اللہ پڑھے۔ مجھ جیسے دیوانے دوکانوں پر چاول ، نمک ، تیل، تمباکو، گوشت، انڈوں پر ایسے ٹوٹ پڑے جیسے ترشول بردار بیف کا بہانہ کرکے محمد اخلاق، پہلو خان وغیرہ پر جان لیوادھاوا بول گئے تھے،یا جیسے ہل والے نیشنلی الیکشنی ایام میں مرحومہ اندرونی خودمختاری پر خوب دل کھول کر ماتم وبین کر تے ہیں۔ اپنے یہاں چاول ، نمک، تیل کا مکسچر تہری کہلاتا ہے اور ہم اہل کشمیر اس کے زبردست شیدائی واقع ہوئے ہیں کہ خوشی غم دونوںصورتوں میںاس کے لقمے اندر انڈیل دیتے ہیں ۔غریبوں میں تقسیم کرکے دعائیں وصولتے ہیں اور آستانوں پر بانٹ کر جن و بلا بھگانے کا سامان پیدا کرتے ہیں ۔ جنگ بھی چونکہ سب سے بڑی بلا ہے ،اس لئے دورانِ جنگ فاقوں کی نوبت نہ آئے ،خالی پیٹ کی جنگ سے بچنے کا بھی پیشگی اہتمام کرتے ہیں۔اسی لئے اُدھر فروغِ افواہ بازی کے سرکاری وباگ سے خبر اُڑی :ہوشیار خبرد ار ہم پیٹ کے علمبردار، مودی کے وفادار، عمران کے طرف دار خلقِ خدا کو اطلاع دیتے ہیں کہ اپنے گھر میں کھان پان کا اتنا ذخیرہ کرو کہ ہمالیہ بھی شر ماجائے ، سات پیڑھیاں کھائیں ختم نہ ہو ، جنگ سے پورا عالم بھنگ ہو مگر ہمارا ذخیرہ ہر رنگ میں زندہ ہو۔ ہم نے کہا جو کہنا تھا، بعد میں کوئی عذر لنگ نہ کر نا ۔ یہ اذنِ عام سننا تھا کہ اہل کشمیر عید جیسی خریداری کرنے جوق در جوق جوق فوج در فوج قطار اندر قطار نکلے ۔مانا کہ عید جیسی خوشی نہیں تھی کیونکہ بازاروں میں بچا کھچا ہی تو گھر لے آنا تھا لیکن عید جیسا رَش بازاروں میں لگ گیا کہ کوئی کوئی خالی جیب غریب غش کھا گیا۔خواتین سروں پر چاول کے تھیلے، بچے ہاتھوں میں دال چنے کے لفافے، بچیاں تیل کے کنستر لئے، جوان گیس سلنڈر لئے مارچ پاسٹ میں مشغول ہوئے۔ اسی چھینا جھپٹی میں عام خام ایک دوسرے سے ٹکرائے لیکن کسی سے جھگڑا مول لینے کا وقت نہیں تھا بس جنگی حالات سے نبرد آزما ہونے کا امتحان تھا ۔ چپس اور دودھ ٹافی بھول کر جنگی صورت حال سے بچنے کے لئے رواں دواں تھے۔ ہمیں یکایک نہ جانے کیوں ’’ رائے شماری برن ڈَبَس لو ببَس مبارک(رائے شماری کی مانگ کو ڈبے میں دفن کرلی ، بابائے آلو کو مبارک ہو) والے دن یاد آئے جب اہل کشمیر کو آلو اور پیاز کے تھیلے سونے چاندی کے بھائو خرید کر گھر لاتے رہے۔سبزیاں تو عنقا تھیں اس لئے’’ گنڈ آلو‘‘ سے ہی کام نکالنے میں جٹ گئے۔ ہو نہ ہو یہ’’گنڈ آلو ‘‘مصیبت کا ساتھی تکلیف بھگانے کا نسخہ ہے ۔پیاز تب ساتھ دیتا ہے جب کوشش کے باوجود آنسو نہ بہیں لیکن ورق ورق پیاز چھیلتے یہ کام بھی ہو ہی جاتا ہے اور آلو ے چارہ تو ہر دور کا ساتھی ہے۔ خیر نہ جانے اس تیل کے اندر کیا کرامت ہے کہ امریکہ ہمیشہ اس کی تلاش میں نکلتا ہے کبھی عربوں کے تلوے چاٹتا ہے ، کبھی ان پر جنگیں بڑے پیار سے تھوپ دیتا ہے۔ افواہ ِ سرکاری سنتے ہی یہی میڈان امریکہ جن اپنے ہر پیرو جوان پر مسلط ہو ا، سب چار پہیوں اور دوپہیوں کے لئے قیامت تک کی بھوک مٹانے پٹرول و ڈیزل کی کھوج میں لشکر در لشکر نکل پڑے۔جس حضرت کے پاس ابھی گاڑی میں تیل برابر موجود تھا وہ بھی گاڑی لے کر نکلا اور جس کے پاس بہت کم بچا تھا ،وہ اس ڈر سے کہ کیا پتہ مزید تیل زندگی بھر مل ہی نہ جائے، پیدل یا سائیکل پر خالی کنستر لئے سات سمندر تک پار کرنے کاعزم لئے نکل پڑا ،اور گھر والوں کو یہ وصیت تک سنائی ، بے وفا دنیا کے جفاکاراپنو!اپنی رہی سہی اُمیدحیات حصولِ تیل کی جنگ میں ہی ختم ہوجائے مگر خالی ہاتھ نہ لوٹوں گا، اور اگرالیکشن بعد بھی نہ لوٹ آیا تو سمجھناچہارم چہلم برسی منانافرض ہواہے۔ جہاں یہ حال ہو وہاں آناًفاناًتیل پمپوں کے قریب اتنی لمبی لائنیں کھڑی نہ ہون تو کای ہوگا ؟ مجھے تو یہ گمان ہوتا تھا جیسے جموں سرینگر ہائے ہائے وے اُڑے اُڑے کشمیر آئی ہے۔ خیر بازاروں میں اتناسارا رش اکھٹا دیکھ کر سرکار خود ہی گھبرا گئی اور سوچنے لگی ،ہے ہے ہے! ہمیں تو اندازہ ہی نہ تھا کہ اپنی پرجا راجہ بھوج کے گنگو تیلی پر اس قدر بھروسہ کرتی ہے کہ اُس نے فرمان جاری کیا ،اِس نے مان لیا ۔ جنگ کا بگل ابھی بجا بھی نہیں کہ رعایا سرکار کی کن سوئی کو ہی پکا سچ مان کر میدان میں لنگر لنگوٹے کسے کود پڑی ۔ خلقت سو نہ مرگ سے سورسیار تک اور کھنہ بل سے کھادن یار تک دوکانوں کے شٹر وںکے ساتھ جونک کی مانند چپک گئی ۔پھر ہونا کیا تھا، دوکاندار بھی ،سبزی فروش، پنساری بھی جونک ہی کی طرح جینے کے عادی ہے ، موقع ہاتھ آیا توگاہکوں کا خون اس قدر چوسنے لگے کہ گھر کا ایک فرد دوکان سے چمٹ گیا اور دوسرا مزید خون بھروانے اے ٹی ایم پہنچ گیا ۔جتنا ہو سکے روپیہ پیسہ کھینچ لو، داشتے کہ بکار آید۔اس صورت حال سے گھبرا کر خود سرکار ی ہرکارے نمودارہوئے،اعلان کیا: بھائی لوگو !جو ہم نے کل کہا تھا ،وہ سب آزمائشی جھوٹ تھا، آج سچ سنو، غم و فکر کی کوئی ضرورت نہیں، سب ٹھیک ٹھاک ہے، اپنا سٹاک بھی بہت ہے۔ لوگ ہرکاروں کی دَل بدلی پر اپنی ہنسی نہ روک پائے ، حیرانگی میں ایک دوسرے کا منہ تکنے لگے کہ بھائی !ہم نے پہلی بار سرکار کی زبان پر بھروسہ کیا تھا تو کیایہ بھی جھوٹ ہی نکلا ؟دَھت تیری کی ! سرکار خود ہی افواہ پھیلاتی ہے ، اس پر بھروسہ نہ کرنے کی تلقین کرتی ہے۔واہ ملک سرکار واہ۔واہ وائسرائے کشمیر واہ!!
سونی ہوئی ہے شہر کی سڑکیں تمام تر
ایسا کمال کردیا افواہ نے حضور
سارا ذخیرہ ہو گیاپٹرول کا ختم
اس میں چال تو رہبر کی ہے ضرور
جیسے ملک کشمیر کی افواہیں کافی نہیں تھیں کہ بھارت کے صحافتی مچھلی بازار میں لوگ ایک دوسرے پر ٹوٹ پڑے۔کسی نے بیٹھے بیٹھے مگ جہاز پر قبضہ جمالیا، کوئی بوفورس توپ پر سوار ہو گیا، کسی نے ٹینک کے دہانے کو چوما ، کوئی مشین گن ہاتھ میں لئے جھوما ، کوئی باتوں باتوں بلکہ لاتوں لاتوں ہر فوجی تنصیب میں گھوما۔ اس شور شرابے میں مملکت ِخدادا د میں امن کو ایک موقع دینے کی مانگ پر ایسے جھپٹے کہ جنگ تو لڑنی ہی پڑی ۔بھلا جنگ نہ ہوئی تو ہماری ٹی آر پی کیسے بڑھے گی؟ٹی آر پی نہ بڑھی تو اشتہارات کی بھر مار کیسے ہوگی؟اشتہارات نہ ملے تو ہمارے خزانے کون بھرے گا؟سرحد کے آس پاس بھلے ہی عام شہری یا فوجی مر جائیں لیکن اہم چیز تو ہمارا خزانہ ہے، جو بھر تے ہی رہنا چاہیے۔مطلب ٹی وی والوں کو خزانے چاہئے ،سیاست دانوں کو الیکشن میں جیت کے بہانے چاہئے ۔مطلب اس گنگا میں سبھو ں کو نہا نے کے لئے چند پل سہانے چاہئیں۔باقی جائے بھاڑ میں ،اس لئے تو ٹی آر پی اور الیکشن جیت کے لئے جنگ کا آغاز کرنا ہی پڑا ۔جٹ طیارے سرحد پار گئے ، دوچار درختوں پر بہادرانہ بمباری کر کے واپس لوٹے ۔صحافتی مچھلی بازار کے چندزبان دراز اینکرس کو وہیں چھوڑا۔وہ ملبے کے اندر پتے نما لاشیں ڈھونڈ کر گننے لگے۔خود سرکار کو گنتی کا پتہ نہیں چلا لیکن اینکرس نے تو خوردبین لگاکر گن لیا تھا ، کاغذ قلم نکال کر تفصیل درج کی ۔عینی گواہوں نے پانچ کا ہندسہ سنایا لیکن اینکرس چونکہ گن کر آئے تھے، اس لئے تین سو کے آس پاس رُک گئے۔پھر ہمیں پتہ چلا گورے بابا لارنس نے جو اہل کشمیر کو افواہ بازی کے شیدائی کہا تھا، انہیں اینکر اینڈ کمپنی نے مقابلے میں ہرا دیا۔چلو یہ مشورہ بھی اچھا ہے کہ فوج ایک نئی ریجمنٹ تیار کرلے جس کو اینکرس ریجمنٹ نام دے ۔اس میں ان دلیر نڈر اینکرس کو جگہ دے ،جو جوش میں آکر ٹی وی اسٹیڈیو سے ہی ایسے میزائل داغ دیتے ہیں کہ دشمن کے علاقے میں گھسنے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔جہازوں اور انہیں چلانے والوں کو کوئی خطرہ نہیں رہتا ۔جتنا چاہے دشمن ملک کا علاقہ ہتھیا لیتے ہیں۔قبضہ کر کے پڑوسی بدل دیتے ہیں ۔ زمینی فوج کی پیش قدمی کی ضرورت نہیں پڑتی کیونکہ یہ ریجمنٹ ٹی وی اسٹیڈیو سے ہی جنگ جیت جاتے ہیں۔خیر جنگ کی بات چلی ہے تو چھوٹی جنگ پھر ہو ہی گئی کیونکہ دوسرے دن مملکت خداداد والے گزشتہ رات کی ہزیمت کا بدلہ لینے اُڑن طشتریاں لے کر پہنچے ۔بقول اہل کشمیر کس کی ماں سونا اور کس کی ماں چاندی تولے گی، اس کی نمائش خوب ہوئی۔مانا کہ بم باری کو دہشت گردی خلاف جنگ سے تعبیر کیا گیا لیکن کون نہیں جانتا کہ اس بارود میں الیکشن کی آگ بھر دی گئی تھی؟اور الیکشن کے ٹائم میں فیس بک وغیرہ پر دونوں طرف کے شیدائی یعنی بھکت جن اور انٹرنیٹ فدائی اپنے اپنے میزائل چلاتے رہے ہیں۔’’ہم نے تین سو مارے‘‘ کے جواب میں کسی کی ایک تو لاش دکھائو والا فقرہ فضا میںگونجا۔طنز و مزاح کے بے ترتیب تیر چلے۔مودی جو ٹھان لیتا ہے تو پھر اپنے آپ کی نہیں سنتا ،جیسے پٹھان نئی دلہن لانے اور جارحیت کا جواب دینے میں کبھی دیر نہیں کرتا۔گرفتار شدہ پائلٹ کے نیچے لکھا کہ کل تم چائے پئے بنا چلے گئے ،ہم تو مہمان نواز ہیں، اس لئے آج اُتار کر چائے پیش کردی۔اس بیچ بڑ ی مشکل سے کسی حد تک سرحد پر امن لو ٹ آیا ۔ بھارتی پائلٹ واپس کیا گیا ۔سنا ہے اگر بھارت بھاری رہا تو مودی اپنا چھپن انچ سینہ دکھائے گا اور پاکستان بھاری پڑا تو مودی یہی کہے گا کہ میرا کیا ہے، فقیر آدمی ہوں ،جھولا اٹھا کر نکل جائوں گا۔ اور فقیری بھی ایسی کہ صفائی کرمچاریوں کے پیر دھو لیں۔وہ کرمچاری مانے نہ مانیں لیکن مودی جی زبردستی پکڑ کر پیر صاف کریں گے ۔ارے بھائی! الیکشن آنے والا ہے کیا، اب ووٹ بھی نہیں جیتنے دو گے۔اس کے بعد تو ہم کہاں تم کہاں ؟ میرا اُڑتا جہاز بھی نہ دیکھ پائو گے ؎
سیاست نے بیڑہ غرق کیا
اپنے کچھ اور بھی مشغلے تھے
تیرے قول و قرار سے پہلے
اپنے کچھ اور بھی غلغلے تھے
اسی لئے تو جنگ جو جاری ہے تو مملکت خداداد کے شہر شہر گائوں گائوں سے نفرت کا اظہار کرنا ضروری بن جاتا ہے کیونکہ نفرت کے تندور میں سیاسی روٹیاں سینکنے کا چلن برس ہا برس سے جاری ہے ۔بھکت جن بھلے ہی بیف بر آمد کرنے کا ٹھیکہ اپنے پاس رکھیں کہ اس سے گاندھی مارکہ روپیہ حاصل ہوتا ہے لیکن ایک طرف گاندھی سے نفرت بھی کرنی ہے اور بیف کے نام پر اقلیتوں کو نشانہ بھی بنانا ہے۔ادھر بھی تو بیکری کا مزہ خوب لینا ہے لیکن مملکت کے شہر کا نام برداشت نہیں کرنا ہے ۔پھر بس یلغار کر ڈالی کہ کراچی بیکری نام کرن کر دو کیونکہ کنول بردار آجکل نام بدلنے سے ہی اپنی انا کی تسکین کر پاتے ہیں۔
رابط ([email protected]/9419009169)