ہڑتال تھی تو موٹرسائیکل پر سوار ہونا پڑا،ویسے بھی سوپور بانڈی پورہ روڑ پر جگہ جگہ دلکش مناظر کا لطف موٹرسائیکل پر سوار ہوکر ہی اٹھایا جاسکتا ہے ۔ ۱۳؍جولائی کا دن حکمرانوں اور عام کشمیریوں کے درمیان اس لحاظ سے یکساں ہے کہ اس دن شہداء ۱۹۳۱ء کو حکمران اور عام کشمیری ،دونوںہی یاد کرتے ہیں۔جہاں سرکار کی طرف سے تعطیل ہوتی ہے وہیں حریت کی طرف سے ہڑتال،قبل از نوے اس دن عوام اور حکمران مزار شہداء ( شہرخاص خواجہ بازار سری نگر ) پر حاضری دے کر شہداء کے لیے خصوصی دعا کا اہتمام کرتے تھے لیکن اب صرف ہند نوازوں کو مزار پر حاضری کی اجازت دی جاتی ہے اور حریّت پسندوں پر روک لگائی جاتی ہے۔ جب سے ریاست میں مخلوط حکومت برسراقتدار آئی، حکمران جماعت کی اتحادی بی جے پی نے مزار شہداء پر ایک بار بھی ۱۳؍جولائی کے دن حاضر ی دی اور نہ ہی شہداء کو کوئی دکھاوے کا خراج عقیدت پیش کیا ، حالانکہ یہ ان کی سرکاری ڈیوٹی ہے۔ اس کے برعکس بھاجپا بھگت ۱۹۳۱ء کے حکمران مہاراجہ ہر ی سنگھ جس کی حکومت پہ ۱۳؍ جولائی کے قتل عام کا داغ بھی لگا ہے، کے یوم پیدائش کو سرکاری چھٹی کا مطالبہ کر رہے ہیں ۔ بہرحال ریاست گیر ہڑتال کی وجہ سے راستہ بالکل صاف اور خاموش تھا۔ ہر طرف ہو کا عالم البتہ جگہ جگہ پولیس کی نفری تعینات تھی تاکہ کوئی احتجاج نہ ہو۔ سوپور ماڈل ٹاؤن نہر کے کنارے بائی پاس روڑ بنایا گیا ہے جو کہ آگے بانڈی پورہ روڈ کے ساتھ جا ملتا ہے۔ راستہ بھی اچھا ہے اور مناظر بھی دلکش، لہٰذا راقم اسی راستہ کو بالعموم منتخب کرتا ہے۔ اس راستے پر جگہ جگہ ٹولیوں میں خواتین نہر پر خوشگوار موڈ میں کپڑے دھورہی تھیں ، کپڑے دھونے کے ساتھ ساتھ ان کا آپس میں ہنسی مذاق کے ساتھ گپیںہانکنا ایک الگ ہی خوشگوار منظر پیش کر رہا تھا، وہیں چھوٹے بچے نہر میں نہا رہے تھے۔کشمیر جہاں آبادی کا اچھا خاصا حصہ موجودہ حالات کی وجہ سے ڈپریشن کا شکار ہوا ہے ۔ اس طرح کا منظر لازماً اس ڈپریشن کو دور کرنے کا ایک خوبصورت ذریعہ بھی ثابت ہوتا ہوگا،تاہم یہ نعمت زیادہ تر دیہات کی عورتوں کو میسر رہتی ہے، شہر کی عورتیں اس سے محروم ہی رہتی ہیں۔ وہاں واشنگ مشین میں کپڑے جو ڈال دئے تو فوراً TV کے ساتھ چپک کر دل بہلائی کے لیے سیریل دیکھنے میں مست ہوجاتی ہیں۔رشتوں کو تباہ اور اعتماد کو ختم کرنے والے سیرئلز، خواتین میں ڈپریشن کو اور بڑھا دیتے ہیں۔ان ہی خیالوں میں گم میں چل رہا تھا، وٹلب سے آگے پہاڑ گھوم گھوم کر راستہ بنایا گیا ہے جو سنگری پہنچا دیتا ہے، قریب ایک کلومیٹر کا یہ راستہ نہایت ہی دلکش منظر پیش کرتا ہے۔راقم آہستہ آہستہ سنگری کی جانب چڑھ رہا تھا اور ساتھ ساتھ اس خوبصورت منظر کو دیکھ بھی رہا تھا،سنگری ٹاپ پر چڑھ کر نیچے دلکش مناظر کا لطف اٹھا رہا تھا کہ تبھی آرمی کے کچھ افراد راستہ میں چلنے والے لوگوں کو روک کر تلاشی لے رہے نظر آئے.. میں نے بائیک کھڑی کی، ایک فوجی نے پوچھا، کہاں سے؟ میں نے کہا: بارہمولہ سے۔ اس کے بعد شناختی کارڈ طلب کیا، ایک دو منٹ کارڈ کو اُلٹ پلٹ کردیکھتا رہا اور میرا نام پڑھنے کی کوشش میں کبھی سنیل اور کبھی سشیل پڑھتا رہا، میں نے جلدی ہی اپنے نام کو مزید بے حرمتی سے بچانے کے لیے خود ہی اپنا پورا نام بولا، اس کے بعد آگے جانے کی اجازت ملی۔ تھوڑی دور آگے ولر پر نظر پڑی،صاف اور تازہ پانی کا یہ ایشیاکا سب سے بڑا جھیل ہے، جھیل ولر کی خوبصورتی کو دیکھ ہی رہا تھا کہ ایک خیال نے دستک دی کہ کیوں نہ زیارت بابا شکر دین ؒ کی طرف چلا جائے، وہاں سے ولر کا منظر نہایت ہی خوبصورت ہے، باب شکر دین کی زیارت کا راستہ نہایت ہی جاذب نظر ہے، ایک طرف پہاڑ دوسری طرف ولر کا خوبصورت منظر، قریب ایک کلومیٹر دور ایک ویو پوئنٹ اور جائے قرار اسی راستے پہ بنایا گیا ہے ،جہاں سے بوڑھا ولر اپنے شباب کا منظر پیش کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے، وہاں کچھ دیر بیٹھ کر قدرت کی کاریگری دیکھ رہا تھا، ہڑتال کے باوجود زائرین کی اچھی خاصی تعداد پیدل ہاتھوں میں مرغے اور کھانے پینے کا دیگر سامان لے کر زیارت کی طرف جا رہے تھے، میں اس سوچ میں منہمک ہوا کہ کاش! ملت کا وہ پیسہ جو نذرونیاز میں چلا جاتا ہے، اس کا صحیح استعمال ہوتا تو آج ہمارے پاس کئی ملی ادارے ہوتے اور ملت تنزلی کی شکار نہ ہوتی۔ اسی خوبصورت جگہ سے بابا شکرالدینؒ کے ترقی ٔ درجات کے لئے دعا کر کے بانڈی پورہ کی جانب چل دیا ۔
دورانِ سفر قدرت کے مناظر سے لطف اندوز ہو رہا تھا۔ دو گھنٹے کے بعد بالآخر بانڈی پورہ پہنچا، نماز عصر پڑھی۔ اس کے بعد برادر نسبتی کے ہمراہ ولر ونٹیج کے جانب روانہ ہوا، قریب ۹کلومیٹر کی دوری پر بانڈی پورہ سرینگر روڈ پر ولر کے کنارے ایک چھوٹا ساپارک ہے جس کو ولر ونٹیج کے نام سے جانا جاتا ہے، ہم نے ٹکٹ خریدنے کے لیے پیسے آگے بڑھائے تو جواب میں ٹکٹ بیچنے والے نے پھٹے ہوئے آدھے آدھے دو ٹکٹ دئے، ہم نے کہا بھئی یہ کیا ! اس کے بعد قومی وسائل پر اس کو لیکچر دینا شروع کیا، لیکن وہ بضد تھا کہ یہ صحیح ٹکٹ ہے۔وعظ بے سوددیکھ کر ہم نے آگے بڑھنے میںہی عافیت سمجھی۔
ولر ونٹیج جو کہ بانڈی پورہ سرینگر ہائی وے پر واقع ایک چھوٹا سا پارک ہے، کشمیر کے اکثر پارکوں کی طرح حکومت کی عدم توجہی کا شکار رہا ہے۔اس پارک کے تین اطراف میں خوبصورت جھیل کا منظر ہے اور ایک طرف دور تلک پہاڑوں کا سلسلہ ہے ۔ کافی دور اسی سلسلے کی ایک پہاڑی برف سے ڈھکی نظر آئی، ایسا لگ رہا تھا جیسے پہاڑوں کے اس لمبے اور دیوقامت سلسلے کی سفید تاج پوشی کی گئی ہو۔ پارک میں لوگوں کی اچھی خاصی تعداد موجود تھی ،گیٹ کے پاس تین چھوٹے چھوٹے بچے آپس میں بات کر رہے تھے، ایک کہہ رہا تھا میں ’برہان‘ ہوں، دوسرا کہہ رہا تھا کہ میں ’ذاکر موسی‘ اور تیسرا اپنے آپ کو ’ابو دُجانہ‘ کہہ رہا تھا ۔ بچوں کی باتوں سے مستقبل کا اندازہ بھی ہوا اور ظلم سے نفرت وبغاوت کا عندیہ بھی ملا۔خیر میں نے تینوں بچوں سے ان کی تعلیم اور اسکول کے بارے میں پوچھا اور پھر تعلیم کی اہمیت اور ضرورت کو واضح کرتے ہوئے کچھ یوں نصیحت کی کہ تم تو قوم کا اثاثہ ہو، سماج کا مستقبل ہو، لہٰذا تعلیم کا دامن ہاتھ سے کبھی نہ چھوٹے، بس اس چیز کا خیال رہے ۔ پارک میں کچھ وقت گزارا تب ہی ولر میں پانی کو دیکھ کر تشکر کے الفاظ زبان پر جاری ہوگئے۔ اللہ رب العزت کا شکر ادا کیا کہ ولر میں تھوڑا پانی دکھائی دے رہا ہے ، ورنہ گزشتہ سال ستمبر 2016ء میں جب پورے کشمیر میں حالات بہت خراب تھے، میں اور میرا چھوٹا بھائی شادی کی ایک تقریب میں شرکت کرنے کے لئے بانڈی پورہ آئے تھے ،تب ولر ونٹیج آنا ہوا ، تو دور دور تک ولر میں پانی کا نشان تک نہ ملا تھا۔ مجھے یاد ہے جب میرا چھوٹا بھائی کہہ رہا تھا کہ لوگوں کے ناجائز تجاوزات اور آلودگی نے کس طرح قدرت کے اس انمول تحفہ کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے۔ اُس وقت ولر کی حالت دیکھ کر میرے ذہن میں کچھ اور ہی خیالات تھے، مجھے یاد آرہے تھے مرحوم ثناء اللہ بٹ مدیر’’ آفتاب‘‘۔ کشمیر میں صحافت کو جدید طرز پراستوار کر نے کی بنیاد تو ثناء اللہ صاحب نے ہی رکھی ہے۔ ان کے ساتھ مسئلہ مگر یہ تھا کہ وہ اخبار میں سب کچھ چاہتے ہوئے بھی لکھ نہیں پاتے تھے۔مشکلات کا اندازہ تھا، لیکن بنا لکھے وہ رہتے بھی کیسے؟ لہٰذا ’’خضر سوچتا ہے ولر کنارے‘‘ کے کالم کی آڑ میں اپنے دل کو بیان دیتے تھے۔ اب صاحب ِ’’ولر کنارے‘‘ کافی کچھ لکھنا چاہتے تھے تاہم بات کو پورا لکھ بھی نہیں پاتے تھے۔ اس وجہ سے احساسات اور جذبات بنا اظہار کے رہ گئے۔ اپنے جذبات اور احساسات کو اگر کوئی مکمل اظہار اور بیان نہ دے تو ایک آہ اور کسک رہ جاتی ہے اور اس آہ اور کسک کی شدت کو کس طرح بیان کیا جاسکتا ہے۔ میرا ماننا ہے انہی آہوں کی شدت نے ولر کے پانی کو بھاپ میں تبدیل کردیا اور ولر سکڑنا شروع ہوگیا !
ولر کو جب کبھی بھی دیکھا آنکھوں کے سامنے ہندوارہ کے ان ۲۰معصوم بچوں کے چہرے آجاتے ہیں جو چند سال قبل نیوی( navy) کے ساتھ ولر گھومنے گئے تھے اور نیوی کی مجرمانہ غفلت سے وہ ننھے پھول پانی میں ڈوب گئے اور آج دس سال ہونے کو آئے ہیں۔ نیوی کی غفلت کو مانا بھی گیا لیکن اب تک کسی کو کوئی سزا نہ دی گئی، شاید ولر مجرمانہ احساس کو لے کر خشک ہونے میں ہی بہتری سمجھ رہا ہے تاکہ آئندہ کوئی معصوم پھر سے اس کی آغوش میں ڈوب نہ مر جائے ۔منتشر خیالات کی دنیا میں میرا ذہن دیوانہ وار گھوم رہا تھا۔آپ کے سامنے ولر ہو اور آنکھوں کے سامنے ۸۰؍سال کے محترم بزرگ سید علی گیلانی کی تصویر نہ آئے، کیسے ممکن تھا؟ وہ جو کشمیر کے اکثر رازوں سے واقف ہے، جس نے ایوان بھی دیکھے ہوں اور زنداں بھی،جس نے وفا بھی دیکھی اور بے وفائی بھی ، جس نے مساجد میں وعظ خوانی بھی کی ہو اور اسمبلی میں یادگار تقریریں بھی ،جس کے عام فرد کے ساتھ بھی اچھے تعلقات ہوں اور خواص میں بھی مشہور ہوں۔ سماج کے ہر طبقہ میں جس کے مداح ہوں ، جس نے ایک طرف مولانا مسعودی کو نزدیک سے دیکھا ہو، وہیں پیر سعد الدین کے ساتھ بھی قرب رہا ہو، ولر کے پرسکون ماحول کا سہارا لے کر جس نے اپنی آپ بیتی یا یوں کہیں جگ بیتی ’’ولر کنارے‘‘ کی شکل میں بیان کی ہو ،وہ کیسے نہ یاد آتے؟ وہ بھی تو ولر کنارے ہی اپنے احساسات کو بیان دیتے گئے۔ جب لکھنا شروع کیا تو بس آہیں ہی آہیں تھیں، مظلومیت کی داستان، اپنوں کی بے وفائی کی داستان۔ اس داستان کو پڑھ کر یہ لگا تھا کہ بزرگ کے آنسووں نے شاید ولر کے پانی میں اضافہ کیا ہو، لیکن بزرگ تو مزاحمت کی علامت ہیں،چاہ کر بھی آنسو بہا نہیں سکتے۔ وہ جو غالب ؔکہتے ہیں ؎
ضعف سے گریہ مبدّل بہ دمِ سرد ہوا
باور آیا ہمیں پانی کا ہوا ہو جانا
غالبؔ تو بڑھاپے کے ضعف کی وجہ سے آنسو بہانے سے قاصر تھے لیکن اس بزرگوار کو قوم کو ہمت اور حوصلہ دینا ہے، لہٰذا آنسو کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ حالانکہ غم سے نڈھال اس بزرگ نے آنسووں کی جگہ بس ٹھنڈی آہیں ہی بھر لیں ،ان ٹھنڈی آہوں سے ولر اور خشک ہونے لگا، یہ احساس ابھی قلب کی وادیوں میں چل ہی رہا تھا کہ دفعتاً یاد آیا کہ گیلانی صاحب کی کتاب کی تیسری جلد بھی شائع ہوئی ہے اور اس جلد میں یہ اُمید تھی کہ کئی اپنے کہلانے والے مگر بے وفا چہرے بے نقاب ہوئے ہوں گے، تاہم معلوم ہوتا ہے کہ کہیں طبعی شرافت نے قلم روکا اورکہیں لحاظ در آیا ہے کہ نقاب کو رہنے دیا گیا ہے۔ اپنوں کی بے وفائی کا تذکرہ کرنے سے رہ گیا ،اس طرح تاریخ کے صفحات پھر دُھندلے رہ گئے اور ولر کنارے کی اس دُھند نے جیسے ولر کو آلودہ کردیا ۔ اب نہ تو مدیر’’آفتاب‘‘ رہے اور نہ ہی ’’ولر کنارے‘‘ میں مزید اضافہ ہوگیا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اب ولر میں آہستہ آہستہ پھر پانی جمع ہونے لگا ہے ۔سوچ کا سفینہ تاریخ کے ان ہی مخمصوں میں جذبات کے پتوار سے چل رہا تھا کہ اپنے برادر نسبتی نے ڈوبتے ہوئے سورج کی جانب اشارہ کیا۔ڈوبتے سورج کو اس جگہ سے دیکھنے کا الگ ہی مزہ تھا، ڈوبتے سورج کے ساتھ ہم بھی گھر کی طرف لوٹ گئے۔
۱۴ جولائی جمعہ کا دن تھا۔ لہٰذا نماز جمعہ کہاں ادا کروں یہی سوچ رہا تھا، سوچا کیوں نہ کشمیر کے سب سے بڑے مدرسہ دارالعلوم رحیمیہ کا رخ کیا جائے۔دارالعلوم رحیمیہ کشمیر کا سب سے بڑا دارالعلوم ہے، جہاں ۶۰۰سے زائد طلبہ دینی تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ساتھ ہی مروجہ تعلیم کے لئے بانڈی پورہ میں بڑا ادارہ چلتا ہے۔دارالعلوم رحیمیہ کا خیال آتے ہی فوراً مفتی نذیر احمد قاسمی سے فون ملایا۔ یہ جان کر بہت افسوس ہوا کہ مفتی صاحب سے ملاقات نہیں ہوسکتی ہے کیونکہ وہ سری نگر میں ہیں اور انہیں چند دنوں کے لیے دیوبند جانا ہے۔مفتی نذیر صاحب نہ صرف کشمیر میں بلکہ پورے برصغیر میں مشہور و معروف عالم دین ہیں ۔مفتی صاحب کا مطالعہ گہرا ہے، ساتھ ہی دور جدید پر بھی گہری نظر رکھتے ہیں۔ علم کے پیکر مفتی صاحب پُروجاہت شخصیت ہیں ، عالم دین ہونے کے باوجود عام مولویوں کے بر عکس خوش کلام ہیں ،خوش مزاجی ان کا خاصہ ہے، مولویانہ چال بالکل نہیں، ہر دلعزیز ہیں ، لوگوں کے درمیان رہتے ہیں، خشک مزاج بالکل نہیں،لہٰذا سماج کا ہر طبقہ ان کی عزت کرتا ہے۔ایک بار مجھے دارالعلوم سے اپنے گھر لے گئے اور اپنے ہاتھوں سے پھل کاٹ کاٹ کر کھلایا ، حالانکہ خود نفلی روزہ سے تھے۔ایک بار مدرسہ سے مارکیٹ تک میری موٹر سائیکل پر سوار ہوئے، کشمیر عظمیٰ میں ان کے کالم ’’احکام ومسائل‘‘ سے کشمیر کی اکثریت فی ض یاب ہوتی ہے، اگرچہ ان کے چند فتوئوں سے میں ذاتی طورمطمئن نہ ہوا مثلاً سود کی رقم کو انکم ٹیکس میں صرف کرنا، حرام کمائی سے حج کرنے کے لیے رقم بدلنا، وغیرہ وغیرہ۔ اس کے باوجود مفتی صاحب سے کئی بار گزارش کی کہ اپنے فتاویٰ کو کو کتابی شکل دیں۔ مفتی صاحب چونکہ ایک خاص مکتبۂ فکر سے تعلق رکھتے ہے، فکر میں وسعت ہے، اس کے باوجود اُن کے کچھ ویڈیوز دیکھ کر اور کچھ رشحاتِ قلم پڑھ کرمیں ذاتی طورمطمئن نہیں ۔ ربِ رحیم ان کی زندگی میں برکت عطا فرمائے۔
(بقیہ سوموار کو ملاحظہ فرمائیں)