بات ہو رہی تھی نماز جمعہ کی، میرا ماننا ہے کہ نماز جمعہ کی صورت میں ہمیں اللہ نے بہت بڑی نعمت عطا کی ہے۔ جب مسلمان میڈیا کے بارے میں روتے رہتے ہیں اور متبادل میڈیا کی بات کرتے ہیں، ایسے میں خطبہ جمعہ متبادل میڈیا کے طور پرمؤثر رول ادا کر سکتا ہے۔ہمارے معاشرے میں خطبہ جمعہ کے نام پر دوسرے مسالک اور دوسری جماعتوں پر تنقید ہوتی ہے، یا اپنے مسلک یا جماعت کی ترجمانی، جس طرح اسلام کے دیگر احکام میں روح پر توجہ کے برعکس ظاہر پرستی مقصد بن گئی ہے، کچھ ایسا ہی اب نماز جمعہ کے ساتھ بھی ہوا ہے۔ دور نبوی ؐاور دور صحابہ ؓمیں جمعہ کا خطبہ امت مسلمہ کی رہنمائی کا ذریعہ ہوتاتھا لیکن آج یہی خطبہ رسم بن گیا ہے ۔ چونکہ مسلمانوں کی اکثریت عربی زبان سے نا بلد تھی ،لہٰذا ان کے لیے عربی خطبہ سے پہلے مقامی زبان میں تقریر کا رواج عام ہو گیا ۔ مقصد امت مسلمہ کی رہنمائی تھا۔ کشمیر میں ستم یہ ہے کہ جمعہ کے خطاب کے نام پر دو انتہائیں پائی جاتی ہیں۔ ایک طرف خطاب کے نام پر اپنے اپنے مسالک و مذاہب کی تبلیغ ہوتی ہے( بساوقات اوروں کے مسلک کو بلا وجہ ہدفِ تنقید بنایا جا تا ہے) دوسری طرف پورے ہفتہ درس و تدریس کا سلسلہ جاری رہنے کے باوجود بس جمعہ کی مناسبت سے جمعہ کی نماز سے قبل کوئی خطاب نہیں ہوتا۔ جس مسجد میں جتنی جلد جمعہ کی نمازادا ہوتی ہے وہاں عوام کی شرکت اتنی ہی زیادہ ہوتی ہے۔ بہتر ہوتااگر ہر علاقے کی مساجد میں نماز جمعہ ایک ہی وقت میں ہو تاکہ دفتر، کاروباری ادارے سب جمعہ کی پہلی اذان کے ساتھ ہی بند ہوجائیں اور سب ایک ساتھ نماز ادا کریں ، اس طرح جمعہ کی روح بحال ہوسکتی ہے۔ ساتھ ہی ہر مسجد میں ۱۵سے ۲۰منٹ تک کا موثر خطاب ہو، جس میں مقامی مسائل اور عالمی مسائل سے نکلنے کا راستہ بتایا جائے۔ خیر اسی سوچ میں تھا کہ دارالعلوم پہنچ گیا۔ وہاں پہنچتے ہی معلوم ہوا کہ جمعہ کی مناسبت سے نماز جمعہ سے قبل کوئی خطاب نہیں ہوتا۔یہاں جمعہ خطاب کیوں نہیں ہوتا، یہ میری سمجھ سے باہر ہے ۔ نماز سے فارغ ہوئے تو ہم نے دو پہیوں کی گاڑی کا رخ ’’آٹھ وتھ‘‘ کی طرف کر دیا۔
’آٹھ ووتھ‘ کی خوبصورتی کے بارے میں سنا تھا البتہ مشاہدے میںنہیںآیاتھا۔ آج وقت بھی تھا اور موٹرسائیکل بھی، ہم بانڈی پورہ سے نکلے تو دو لوگ نظر آئے۔ ان سے راستہ دریافت کیا تو انہوں نے گریز کا راستہ دکھایا اور کہا کہ یہ راستہ بہتر رہے گا، ہم شوق سے محو سفر ہو گئے تاہم جوں ہی گریز ہائی وے سے’ آٹھ وتھو ‘کی طرف نکلے تو راستہ توقع کے برعکس بہت ہی خراب پایا ۔ اگرچہ اس راستے سے اکا دکا گاڑیاں بھی جا رہی تھیں لیکن راستہ انتہائی خراب تھا ۔خیر ہم یہ سوچ کر چلے کہ ہر خوبصورت جگہ کی طرف جانے والا راستہ کٹھن ہوتا ہے، بس صبرو استقامت کی ضرورت ہے اور ہم نے اسی لیے رب العزت سے نہ صرف اپنی استقامت اور حفاظت کے لیے بلکہ موٹر سائیکل کے لیے بھی دعا کی ۔ راہ چلتے خیال آیا کہ اس علاقے کے لوگ بیمار ہونے کی صورت میں اسپتال کیسے پہنچتے ہوں گے اور اس سوچ میں ڈوب گیا کہ پی ڈی پی نے جس’’ ترقی‘‘ کے لیے بی جے پی کے ساتھ بے جوڑ سیاسی رشتہ باندھا تھا کیا وہ یہی ترقی تھی کہ ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر سے کچھ ہی کلومیٹر دور سڑک کی ایسی حالت ہو کہ چلنے سے محسوس ہوتا ہے جیسے دو گردے آپس میں بغل گیر ہورہے ہیں؟ زیادہ تعجب تو اس لیے ہوا کہ سڑکوں کے وزیر اسی ضلع سے تعلق رکھتے ہیں۔سوچا جب سڑک کی یہ حالت ہے تو مجموعی ترقی کی کیا حالت ہوگی؟’آٹھ وتھ‘ قصبہ سے صرف ۱۲کلومیٹر دور ہے لیکن دشوار راستے کی وجہ سے پہنچنے میں ایک گھنٹہ لگا،پہنچنے پر پتہ چلا کہ بہتر راستہ تو ’اہم شریف‘ سے ہوتے ہوئے جاتا تھا پر وہ دونوں اصحاب ہمیں دوسرا راستہ کیوں دکھا گئے ، ا س کا مقصد سمجھ میں نہ آیا۔ ’اہم شریف‘ میں سلطان العارفین ؒکی مشہور زیارت واقع ہے۔ خیر ابھی پہنچے بھی نہ تھے کہ ایک اور مشکل سے دوچار ہوئے، یہاں ہمارے سامنے ایک ایسا پل حائل ہوا جس پر سے بائک لے کر گزرنا مشکل ہی نہیں ناممکن تھالیکن خدانے یاوری کی کہ فرشتہ صفت انسان مدد کے لیے آگئے۔ انہوں بنا کچھ کہے بائیک ہاتھوں میں اُٹھاکے پل پار کیا اور ہم ان کے پیچھے پیچھے چل دئے ۔ دنیا یہی ہے بہکانے اور راستہ بھٹکانے والے بھی ملیں گے لیکن اللہ پر توکل اور استقامت ہو تو مدد کے لیے فرشتوں کا ظہور بھی ہوتا ہے۔ہم نے بارگاہ ایزدی میں ہاتھ اٹھاکے دعا کی کہ اے پروردگار !دنیا میں جنت نما باغ تک رسائی ممکن تو بنائی بس ایسا کچھ کرم فرما کہ اصلی جنت تک بھی ہماری رسائی آسان ہو۔
چند سال قبل مشہور مفسر قرآن اور درجنوں عالمانہ کتابوں کے مصنف مولانا محمد فاروق خان صاحب ادارہ فلاح الدارین کی دعوت پر کشمیر آئے تھے، کشمیر کی خوبصورتی کو دیکھ کر انہوں نے کہا تھا کہ اس خوبصورتی کو دیکھنے کے لیے کنواری آنکھ چاہیے۔’اَٹھ وتھ‘ پہنچ کر ہمیں بھی کچھ ایسا ہی محسوس ہوا۔ویسے تو کشمیر کے چپے چپے پر دلکش اور خوبصورت مناظر ہیں، ان مناظرسے جنت کی خوبصورتی کا احساس دل میں جاگزین ہوتا ہے۔اَٹھ وتھ میں بھی کچھ ایسا ہی احساس ہوا، وہاں دودھ کی طرح سفید پانی کی نہر بہتی ہے، پانی کی یہ نہر دیکھ کر مجھے وحیدالدین خان صاحب یاد آگئے ، لکھتے ہیں اگر کسی نہر میں پانی کے راستے میں بھاری پتھر آجائے تو پانی اس سے نہیں ٹکراتا بلکہ اپنا راستہ side سے بنالیتا ہے ، اسی طرح قوموں کو بھی ٹکراؤ کا راستہ اختیار نہیں کرنا چاہیے، لیکن اَٹھ وتھ میں پانی کا منظر کچھ اور تصویر پیش کر رہا تھا ۔ پانی چٹانوں سے نہ صرف ٹکرا رہا تھا بلکہ چٹانوں کے ساتھ لڑ بھڑ کر چٹانوں کو پھلانگ بھی رہا تھا، کاش خان صاحب میرے ہمراہ یہاںہوتے تو میں انہیں یہ منظر دکھانے کے بعد ان سے کہتا کہ ہر جگہ پانی سائڈ سے نہیں گزرتا، کہیں کہیں مزاحمت کے بعد مزاحم کو عبور بھی کرنا پڑتا ہے اور کیا بھی جاسکتا ہے۔ عبور کرنے کے بعد پانی جس خوبصورت منظر کو پیش کرتا ہے اسی سے تو دل خوشی اور آنکھ ٹھنڈک محسوس کرتا ہے۔ یہی حال دنیا کی اہم تحریکوں کا ہوتا ہے، انہیں اتمامِ حجت کے بعد آکری چارہ کے طور ظلم اور ناانصافی سے لازماً ٹکرانا ہی پڑتا ہے،ہر جائز مزاحمت کے بعد ظلم اور ظالم کی حالت متغیرہوجاتی ہے اور امن کی فضا ویسا ہی خوبصورت منظر پیش کرتاہے جیسا سفید دودھ نما پانی کہ مذکورہ نہر ٹکراؤ کے بعد دل کو سرور بخشنے والا منظر پیش کرتی ہے۔ خان صاحب جس تصوراتی امن کی بات کیا کرتے ہیں، وہ تو ایک بے کیف اور بے روح سی حالت کا پیدا کردہ ہے۔ وہاں بس مردہ دل ہی رہ سکتے ہیں،وہ تو قبرستان کا امن ہے اور اس امن میں ظلم و جبر کبھی ختم نہیں ہوتا۔ دوسرا امن عدل و انصاف کا ثمرہ ہے اور یہ امن تب ملتا ہے جب ظلم کا قلع قمع ہو، اس کے بعد جو سفیدی (امن کی نشانی) آجاتی ہے وہ نہ صرف خوشنما بلکہ میٹھی بھی ہوتی ہے۔ خیر میں اَٹھ وتھAath-wott) )کے ٹھنڈے اور میٹھے پانی کی نہر کا تذکرہ کر رہا تھا ۔ نہر کے دونوں جانب جنگل ہیں جس میں بڑے بڑے دیودار کے درخت ہیں ،کہتے ہیں کہ اس جگہ جانے کے آٹھ راستے ہو اکرتے تھے، اسی لیے اس کا’ اَٹھ وتھ ‘ نام پڑ گیا تھا مگرہم نے تلاش کے بعد بس دو ہی راستے پائے۔ آج پانی ۳فٹ سے زیادہ نہیں تھا لیکن پانی کا بہاؤ بہت زیادہ تھا، ہماری طرح کچھ اور لوگوں نے نہر عبور کرنے کی کوشش کی لیکن پانی کا بہاو ٔزیادہ ہونے کی وجہ سے کامیابی نہ مل سکی۔کافی دیر تک ٹھنڈے پانی سے لطف اندوز ہوتے رہے۔وہاں گورنمنٹ نے ایک ہٹ بنایا ہے لیکن ابھی یہ چالو نہیں ۔ اس کے برعکس وہاں سے آدھے کلومیٹر اونچائی پر ایک شخص نے ایک ہوٹل بنایا ہے، ٹھنڈے پانی سے جب بہت ٹھنڈ محسوس ہوئی تو دل میں چائے کی خواہش پیدا ہوئی، چائے پینے وہاں چلے گئے۔ وہاں ایک خوش باش لڑکا منیجر تھا، ملنسار،کسٹمر کو ڈیل کرنے کا خوب ہنر آتا تھا، اَٹھ وتھ کے بارے میں اس نے کہا یہ اصل میں ’’اصں وتھو‘‘ تھا جس کا مطلب ہمیشہ کھلا رہنے والا منہ ہوتا ہے، جس میں کوئی راز نہ رہتا ہو، اس کی باتیں کافی دلچسپ تھیں۔ اَٹھ وتھ میں سب سے اچھی چیز جو محسوس ہوئی وہ وہاں کسی بھی ٹیلی کام کمپنی کے موبائل نیٹ ورک کا نہ چلنا تھا۔ لہٰذا قدرت کے اس حسین منظر کو بنا کسی ڈسٹربنس کے یکسوئی کے ساتھ دیکھتے رہیں،ورنہ موبائل فون نے تو گھر کے افراد کے درمیان بھی دوریاں بڑھادی ہیں۔اٹھ وتھ سے نکلنے کو دل نہیں کرتا تھا لیکن کیا کریں دنیا کی جنت اور حقیقی جنت میں یہی تو فرق ہے۔وہاں جو راحت ملے گی وہ ہمیشہ ہمیش کے لیے ہوگی اور یہاں معاملہ عارضی نوعیت کا ہوتا ہے،ابھی تک پھولوں میں تھے کہ کچھ ہی وقت کے بعد کانٹوں سے ملنا ہوا۔ نکلنے کے بعد آگے بڑھے ہی تھے کہ فوج کے اہل کار گاڑیوں کی اَنٹری کر تے دکھائی دئے۔ ہمیں حیرانگی ہوئی کیونکہ جس جنت سے ہم واقف ہیں وہاں حوالدار نہیں بلکہ خدمتگار رہتے ہیں ،وہ بھی خوبرو ! واپسی پر ہم نے اہم شریف کا راستہ اختیار کیا۔ راستہ بہت ہی اچھا تھا،ایک طرف جنگل دوسری جانب نہر، جہاں سے تیز پانی کے بہنے کی آواز آرہی تھی۔ تھوڑا آگے بڑھے تو کرتا پاجامہ اور ٹوپی میں ملبوس چھوٹے چھوٹے بچے مکتب سے نکلتے نظر آئے۔ والدین کی بچوں کے تئیں تعلیم پر توجہ حوصلہ افزا ہے، ہر بچے کی گردن میں غلاف لٹک رہی تھی جس میں قرآن کریم اور قاعدہ رکھا تھا، یہ طریقہ بہت ہی اچھا ہے۔ اس طریقہ سے نہ صرف قرآنی قاعدہ، قرآن حکیم محفوظ رہتا ہے بلکہ ساتھ ہی کلام اللہ کا تقدس بھی دل وجان میں برقرار رہتا ہے۔بانڈی پورہ پہنچنے سے پہلے اہم شریف کی زیارت ہوئی۔ کہا جاتا ہے کہ سلطان العارفین ؒ نے وہاں بہت عبادت کی ہے، سلطان کے لیے دعائے مغفرت کی۔ اہم شریف کا نام میرے ذہن میں ۱۹۹۸ء سے ہے۔ مجھے پروین سوامی کا وہ مضمون جو انہوں نے کشمیر کی زیارات مقدس پر لکھا تھا، یاد آیا جس میں انہوں نے اہم شریف کے بارے میں کہا تھا کہ اس زیارت پر اپنے اپنے اثر و رسوخ کو قائم رکھنے کے لیے بدنام زمانہ ککہ پرے، نیشنل کانفرنس اور کانگریس ایک دوسرے سے گتھم گتھا ہوتے تھے۔ اہم شریف سے واپسی پر میں ککہ پرے کے بارے میں سوچتا رہا کہ کس طرح اس علاقے نے کاؤنٹرانسرجنسی کے نام پر ظلم و جبر کی وہ کالی تاریخ دیکھی اور سہی ہے جسے دیکھ کر چنگیز بھی شرمسار ہوتا ۔ ککہ پرے اور اس کے اکثر غنڈے اپنے منطقی انجام تک پہنچ گئے۔بانڈی پورہ پہنچتے پہنچتے دل میں ایک خوشگوار سا احساس پیدا ہوا کہ ظلم و جبر کی ہر رات چاہے کتنی ہی طویل کیوں نہ ہو، اس کو بہر صورت ختم ہونا ہوتاہے اور ایک خوشگوار صبح نو کو نمودارہونا ہی ہوتا ہے ۔ آج اُمت پر جو سیاہ رات طاری ہے یہ بھی ختم ہوگی اور ہم کسی خوشگوار صبح نو میں آنکھ ضرور کھولیں گے… ان شاء اللہ المستعان۔
ختم شد