سرینگر //وادی کشمیرسے روزانہ کی بنیادوں پر محض گوشت کی در آمدپر پانچ سے چھ کروڑ روپے بیرون ریاستوں کو چلا جاتا ہے۔ریاستی سرکار اس حوالے سے مکمل طور ناکام دکھائی دے رہی ہے اورگوشت در آمد کرنے کے نام پر ایک مافیا کووادی کے لوگوں کو لوٹنے کی کھلی چھوٹ دی گئی ہے ۔ اس شعبہ کیساتھ منسلک تاجروں کا کہنا ہے کہ وادی کشمیر میں صرف60مٹن ہول سیل ڈیلر رجسٹرڈ ہیں، جن کو 2014.15 میں رجسٹرکیا گیا ہے۔مٹن ایکٹ مجرعہ 1955کے تحت رجسٹر شدہ ہول سیل ڈیلروں کے علاوہ کوئی بھی بیرون ریاست کی منڈیوں سے گوشت فروخت کرنے کیلئے بھیڑ بکریاں در آمد نہیں کر سکتا ۔ مذکورہ ایکٹ میں اگرچہ کئی بار ترامیم بھی کی گئیں، تاہم اس کے باوجود بھی اس کے تحت کوئی بھی شخص بغیر لائنس مال کی خرید وفروخت نہیں کر سکتا اور اسکی لائنس محکمہ امور صارفین اور محکمہ شیپ اینڈ انیمل ہسبنڈی سے تصدیق شدہ ہو۔اس قانون میں گوشت فروخت کر رہے قصابوں پر یہ لازمی بنایا گیا ہے کہ وہ اُس مٹن ڈیلرکی مکمل جانکاری اپنے پاس تحریری طور پررکھیں جو انہیں مال فروخت کرتا ہے اور اس دوران کتنا مال حاصل کیا گیا اُس کی بھی مکمل جانکاری رکھنی ہوگی۔غور طلب بات یہ ہے کہ جو مٹن ہول سیل ڈیلر ریاستی حکومت کے پاس رجسٹرڈ ہیں انکی لائسنس کی تجدید بھی نہیں کی گئی ہے۔دیکھا گیا ہے کہ وادی میں گوشت کی قیمتیں بڑھانے میں وہ مٹن ہول سیل ڈیلر ملوث ہیں جو ریاستی سرکار کے پاس تصدیق شدہ نہیں ہیں اور انکے پاس لائسنس بھی نہیں ہیں۔حالانکہ قانونی طور پر ایسا کاروبار کرنا جرم ہے۔کشمیر ہول سیل مٹن ڈیلرس ایسوسی ایشن کے جنرل سکریٹری معراج الدین گنائی نے کشمیر عظمیٰ کو بتایاجو بھی لائیو سٹاک بیرون ریاستوں سے کشمیر آرہا ہے وہ غیر قانونی طور پرآرہا ہے اور اُس میں انکاکوئی رول نہیں بنتا ۔
انہوں نے کہا ’’ہم قیمتوں کی کمی کی بات کیسے کر یں جبکہ اس پر روک لگانا سرکار کا کام ہے‘‘۔انکا کہنا تھا کہ غیر لائسنس شدہ ڈیلر باہر سے مال لاکر من مانے ڈھنگ سے قیمتیں مقرر کرتے ہیں جس کا براہ راست اثر عام لوگوں پر پڑتا ہے۔انہوں نے کہا کہ ایسے لوگ مال کو یہاں لاتے ہیں جن کا اس کاروبار کے ساتھ دور کا بھی کوئی واسطہ نہیں ہے اور جب یہ مال باہر سے مہنگے داموں پہنچے گا اُس پر کوئی روک اور پوچھ تاچھ نہیں ہو گی تو یہ کیسے ممکن ہے کہ یہاں پر گوشت کی قیمت کم رہے ۔انہوں نے کہا کہ سال2013.14میں سرکار کے پاس صرف 60کے قریب لائسنس رجسٹرڈ ہوئی تھیں لیکن آج تک اُن کی بھی تجدید نہیں کی گئی ہے تو پھر مال کون لارہاہے، ریاستی سرکار کو جواب دینا چاہیے ۔انہوں نے کہا ’’ لورمنڈا اور مادھو پور میں جو چیک پوسٹس قائم کئے گئے ہیں، وہاں سے بغیر لائسنس مال کیسے وادی پہنچایا جاتا ہے‘‘ ۔جنرل سیکریٹری نے کہا ’’ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ باہر سے آنے والے مال کو صرف لائسنس ہولڈرس کو ہی اجازت ملنی چاہئے تھی لیکن جب ایسے لوگ بھی اس کے ساتھ منسلک ہو جائیںجو صرف اس کو تجارت کے حساب سے دیکھتے ہیں تو ایسے میں یہ ممکن نہیں ہے کہ قیمتوں کو اعتدال پر رکھا جا سکتا ہے‘‘ ۔انہوں نے کہا کہ کشمیر یوں کے ساتھ ایک سوچی سمجھی سازش ہو رہی ہے کیونکہ یہاں سے روزانہ بیرون ریاستوں میں گوشت کی در آمد پر 5سے 6کروڑ روپے وہاں کے تاجر کماتے ہیں لیکن یہاں اس کا فائدہ یہ ہے کہ لوگوں کو مہنگے داموںگوشت فروخت ہو رہا ہے ۔انہوں نے کہا کہ اگر اپنے ہی لوگ اس کا کاروبار کرتے تو یہ دن نہ دیکھنے پڑتے ۔ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ محکمہ امور صارفین وعوامی تقسیم کاری کی نیند اب ٹوٹ رہی ہے اور محکمہ نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ اس بات کی تحقیقات کرنے جارہی ہے کہ کتنا مال وادی پہنچ رہا ہے اوراس پیشہ کے ساتھ کون لوگ منسلک ہیں۔کمشنر سیکریٹری امور صارفین سوربھ بھگت نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ وہ اس سلسلے میں صوبائی ڈائریکٹر سے بات کر کے معاملے کی جانچ کریں گے اور قیمتوں کو اعتدال پر رکھنے کی پوری کوشش کی جائے گی ۔