سرینگر// ریاستی گورنر انتظامیہ کی طرف سے پشتینی اسناد کے حصول کے طریقہ کار میں تبدیلی پر ایک نیا سیاسی محاذ کھل گیا ہے۔ تاہم ماہر قانون گورنر کے مجوزہ اقدام کو ریاستی آئین سے متصادم قرار دے رہے ہیں۔معروف قانون دان اور آئینی ماہر ایڈوکیٹ سید ریاض خاور کا کہنا ہے کہ پشتینی باشندہ ہونے کی سند اجرا کرنے کا مجاذ ضلع مجسٹریٹ یا ضلع ترقیاتی کمشنر ہے،جبکہ تحصیلدار،نائب تحصیلدار اور پٹواری متعلقہ کی طرف سے تحقیقات کی بنیاد پر یہ سند اجراء کی جاتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا ’’اس کے علاوہ1951-52کے ووٹر فہرست کی بنیاد پر بھی مستقل رہائشی سند فراہم کی جاتی ہے،اور اگر اس ووٹر فہرست میں عرض دہندہ کے والد یا اجداد کا نام ہو، تو یہ بھی ایک ثبوت تصور کیا جاتا ہے کہ وہ ریاست کا مستقل باشندہ ہے،اور اس بنا پر بھی سند دی جاسکتی ہے‘‘۔ریاض خاور نے کہا کہ پاکستانی زیر انتظام کشمیر اور گلگت و بلتستان کے لوگ بھی اس زمرے میں آتے ہیں اوروہ بھی ریاست کے پشتینی باشندے ہیں۔ ریاض خاور نے تاہم کہا کہ ریاستی گورنر کے پاس کوئی بھی اختیار نہیں ہے کہ وہ اس قانون کو تبدیل کر سکیں۔انہوں نے کہا’’ مستقل باشندوں کی اسناد کے حصول کے طریقہ کار میں تبدیلی براہ راست دفعہ35اے،دفعہ370اور دہلی معاہدے کی خلاف ورزی ہے،کیونکہ شق35اے کو اسی لئے آئین ہند میں جوڑ دیا گیا تھا،تاکہ پشتینی باشندوں کو تحفظ فراہم کیا جاسکے‘‘۔ایڈوکیٹ ریاض خاور نے کہا اگر وقتی طور پر گورنر اس میں تبدیلی بھی لاتے ہیں تو اس کی مدت6 ماہ سے زیادہ نہیں ہوگی،اور آئندہ ریاستی اسمبلی پر یہ منحصر ہوگا کہ وہ اس ترمیم کو تسلیم کرے گی،یا اسے مسترد کرے ۔یہ امر قابل ذکر ہے کہ ریاست میں1927میں مہاراجہ ہری سنگھ نے ایک نوٹیفکیشن جاری کرتے ہوئے مستقل باشندوں کی وضاحت کی تھی،جس کے بعد1956میں ریاستی آئین میں جب مہاراجہ کے قوانین کو شامل کیا گیا تو پشتینی باشندوں کا قانون بھی شامل ہوا،اور اس قانون کو تحفظ بھی فراہم کیاگیا۔اس قانون کا نام سٹیٹ سبجیکٹ سے اگر چہ مستقل باشندگی اسناد کے طور پرتبدیل کیا گیا تاہم آئین ہند کی شق35اے کے تحت اس کو تحفظ دیا گیا۔ دہلی معاہدے کے دوران بھی یہ معاملہ اس وقت کے وزیر اعظم ہند جواہر لال نہرو اور ریاست کے وزیر اعظم مرحوم شیخ محمد عبداللہ کے درمیان زیر بحث آیا۔ بعد میں ریاستی اسمبلی کی سفارش پر اس وقت کے صدر ہند نے آئین ہند میں شق35اے کو شامل کیا،تاکہ اس قانون کو تحفظ فراہم کیا جاسکے۔