شخصی راج کے خلاف کشمیریوں کے ایک ہمدرد۔۔۔عبدالقدیر۔۔۔ نے جب ظلم و استحصال کے خلاف تقریر کی تو اُسے جیل میں بند کرکے سلاخوں کے پیچھے کردیا گیا ۔بعد میں مقدمے کا فیصلہ کرنے اور تعزیرات نافذ کرنے کے لئے حکومت نے انہیںعدالت سنٹرل جیل سرینگر میں شفٹ کی ۔عوام نے جب یہ بات سنی تو وہ عدالت کی کاروائی جاننے کے لئے سنٹرل جیل سری نگر کی طرف جوق در جوق روانہ ہوئے ۔وہ لوگوں کی بدقسمتی تھی یا حکومت وقت کی نااہلیت اور دشمنانہ طرز عمل،کیا سمجھ کر اور کن حالات میں بلکہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ محض ایک انتقام گیرانہ اور سفاکانہ کارروائی ہو ،وہاں تعینات ڈوگرہ سپاہ نے فائرکھول دیا جس میں لگ بھگ تیس کے قریب افرد جامِ شہادت نوش کرگئے ۔زندہ بچنے والے باقی لوگوں نے لاشوں کو اٹھاکر جامع مسجد کے صحن میں لایا جہاں مقتدر ائمہ نے اُن شہداء کی نماز جنازہ پڑھائی۔
اس کنفیوژن اور بد حواسی کے عالم میں جب لوگ گھروں کو واپس لوٹ رہے تھے تو بہوری کدل مہاراج گنج جہاں پچانوے فی صد کشمیری پنڈت بُہروں (پنساریوں) کی دکانیں تھیں،دکاندار دوکانوں کے تھڑوں پر کھڑے ہوکر استہزایہ انداز میں افراتفری میں بھاگ رہے اُن لوگوں سے ہنس ہنس کر اور ہاتھ ہلا ہلا کر ٹھٹھول کرنے لگے :’’کیوں آئے حقوق اور آزای لے کر؟؟؟‘‘اس بے عزتی پر چند نوجوان جوش میں بھی آگئے اور طیش میں بھی، انہوں نے کچھ دوکانوں کا سامان تہس نہس کردیا جس کا بعد میں بہت بڑی ہوا کھڑا کرکے اُسے لو ٹ مار کا نام دیا گیا ۔
بہر حال میں یہ عرض کرنا چاہ رہا ہوں کہ کہتے ہیں ’’بویا نہ جُوتا اللہ نے دیا پُوتا ‘‘ صدیوں کی غلامی،لو ٹ کھسوٹ ، ظلم وستم ،بے گاری اور استحصال کے بعد جب ایک کشمیری مسلمان ذہنی طور طلب ِآزای کی جدوجہد میں عملی طور سے میدان ِعمل میں کودنے کے قابل بنا اور اپنی جان کی قربانی دینے کے لئے مستعد و متحد ہو ا،اُس وقت وہ بھول گیا کہ جب شخصی راج سے آزادی کی شمع ابھی اُس کے ذہن و دل میں روشن بھی نہ ہوئی تھی ،جب استحصال کے خلاف احتجاج کرنے کے نعروں سے بھی وہ ناواقف تھا ،جب کوتوال اس کے کھیتوں کی کمائی اس سے چھینتا تھا ،جب گھاس پھوس ،کچے پھل اور جڑیں کھا کھاکر انتہائی بے کسی ،کسمپرسی اور خستہ حالی میں اپنی اور اپنے بچوں کی جان بچاتا تھا اور بغیر علاج اور دوا دارو کے کیڑے مکوڑوں کی طرح مرجاتا تھا ،جب اُسے انسان کے درجے سے گھٹاکر ڈھورڈنگر سے بھی کم تر سمجھ یخ بستہ وادیوں اور پہاڑوں کی جانب بے گار پر دھکیلا جاتا تھا ،جب اُس کی ،اُس کے بچوں کی ،اُس کے خاندان کی ایک انسان کی حیثیت سے کوئی شناخت ،کوئی پہچان ہی نہیں تھی ۔اُس وقت بھی ——–صرف اور صرف اس کے لئے کوئی اور قربانی کا بکرا بنا تھا ،کوئی اور اُس کی خاطر مرا تھا ۔اس کے حقوق کی لڑا ئی لڑتے کوئی اور شہید ہوا تھا اور وہ———ایک کشمیری نہیں بلکہ ایک غیر ملکی تھا ۔۔۔جی ہاں ! ایک غیر مسلم ،غیر ملکی ،ایک انگریز جس کا نام رابرٹؔ تھارپ تھا ۔
رابرٹ تھارپؔ(Robert thorp)مہاراجہ رنبیر سنگھ کے دورِ حکومت میں وادیٔ کشمیر میں سیر و شکار کے لئے آیا تھا لیکن یہاں اُس کی توجہ جلد ہی کشمیری مسلمان عوام کی دُکھ درد والی منہ بولتی تصویر کی جانب مبذول ہوگئی ۔اُس نے محسوس کیا کہ حکومت کے ظلم و ستم خاص طور سے کشمیری مسلمان دہقان کے لئے کچھ زیادہ ہی بڑھ گئے ہیں اور یہ مجبور و مقہور کسان حکومت کے ہندو اہل کاروں کے زور و زبردستی کا ہدف بنا ہوا ہے ۔مالیہ کی وصولیابی میں کسان سے حکومت آدھی فصل اور ہندو اہل کار کے حکم سے تین چوتھائی وصول کی جاتی تھی ۔جائز و ناجائزذخیرہ اندوزی کے بعد کسان اور اُس کے بچوں کے پاس صرف ایک مہینے کا راشن بچتا تھا ،نتیجتاً وہ گھاس پھوس اور درختوں کی جڑیں کھا کھاکر یا گلگت کے یخ بستہ بر ف زاروں میں بے گار پر جاکر ڈوگرہ سپاہ کے لئے راشن پہنچاتے ہوئے اپنی زندگی کی معیاد پوری کر لیتا تھا ۔اُس سے بیگار اس انداز سے لی جاتی تھی جیسے وہ ایک انسان نہیں حیوان ہو ۔گھاس کے چپل پہن کر برف میں دو ڈھائی سو کلومیٹر پیدل جانا اور وہ بھی جب تن پر فرن کے نام پر ایک چیتھڑا ہو ۔مرتا وہ ضرور تھا مگر کوئی ریکارڈ نہیں رکھا جاتا اور اگر اتفاقا ًوہ زندہ بھی بچ جاتا تھا تو ڈوگرہ سپاہ اس کو حیوانوں کی طرح چینی کتوں کے عوض بیچ ڈالتے تھے۔آج کل ٹیولپ گارڈن ،روز گارڈن ،نشاط و شالیمار اور دیگر گلستانوں کی سیر کرنے والے ،نسیم باغ کے خواب آگیں ماحول میں خواب شریں کے مزے لینے والے ،صحت افزاء مقامات کے سرکاری کوارٹروں میں داد عیش دینے والے ،شہر کے مختلف دیدہ زیب مقامات پر خوبصورت بنگلوں اور کوٹھیوں میں رہنے والے ،آرام دہ سرکاری گاڑیوں میں سفر کرنے والے ،پچانوے فی صد بڑے بڑے عہدہ دار ،ہیڈ آف دی ڈیپارٹمنٹ ، سیکریٹری اور ڈائریکٹر ،کالجوں اور یونیورسٹی کے پرفیسر ،ڈاکٹر ،انجینئر ،منسٹر اور سیاست دان ،پولیس ،میڈیکل وغیرہ کے عہدہ داروں کو خاص طور پر یہ باتیں بھولنی نہیں چاہئیں ۔رابٹ تھارپؔ نے حکومت ہند (برطانیہ راج)کی نوٹس میں یہ بات لائی اور بعد ازاں لندن ؔ کے بیشتر اخباروں کے ذریعے کشمیری مسلمانوں کی حالت زار اور دل دوز داستانیں دنیا کے سامنے رکھ دیں جس کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہیں ہوا کیونکہ معاملہ مسلمانوں کا تھا اور عنانِ حکومت دشمنان ِ اسلام کے ہاتھ میں تھی ۔سن 1867ء میں اُسے مہاراجہ کی طرف سے ملک چھوڑنے کا نوٹس ملا مگر اُس نے کوئی پرواہ نہیں کی اور نوٹس کو صرف ایک دھمکی سمجھا ، مگر دوسرے ہی دن اُسے چار پائی کے ساتھ باندھ کر شہر بدر کیا گیا ۔بڑا ڈھیٹ تھا کسی صورت میں واپس آگیا ۔اگلے دو تین دن کے بعد اُس کی آواز ہمیشہ ہمیشہ کے لئے زہر کھلا کر خاموش کردی گئی ۔شیخ باغ (لال چوک گھنٹہ گھر فارسٹ لین) میلنسن گرلز سکول کے دائیں طرف عیسائی قبرستان میں اُس نوجوان برطانوی شہری کی تنہا قبر گھنے سایہ دار درختوں کے نیچے آج بھی کشمیری مسلمانوں کی غفلت اور بے توجہی کی شکایت کررہی ہے ۔افسوس کہ 13؍جولائی کو ہر سال اکثر کشمیری مسلمان مزار شہدا ء پر جاکر شہداء کی قبروں پر گل پوشی کرتے ہیں مگر ایک بھی مسلمان بچے ، بڑے یا بوڑھے کی توجہ اُس برطانوی جوان کی طرف مبذول نہیں ہوتی جو ہماری جدوجہد کا حقیقت میں ایک پیش رو (Pioneer)تھا ۔وادیٔ کشمیر کی اُس ظلم و استحصال اور قہر و جبر کی بستی میں جہاں انسان کی کوئی قدر و قیمت نہیں تھی ،کے اولین شہید کو کوئی نہیں پوچھتا ،کوئی اس گور ِ غریباں کو یاد نہیں کرتا ،کوئی دو پھول نہیں چڑھاتا اور کوئی آکے شمع نہیں جلاتا ——–افسوس ؎
پئے فاتحہ کوئی آئے کیوں کوئی آئے شمع جلائے کیوں
کوئی چار پھول چڑھائے کیوں میں تو بے کسی کا مزار ہوں
(ظفرؔ)
…………………….
رابطہ:- پوسٹ باکس :691جی پی او سرینگر -190001،کشمیر
موبائل نمبر:-9419475995