عبدلخالق بند1917ء دسمبرکاچک کوٹ اونتی پورہ میں حاجی عبدالعزیز کے ہاں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم مایسومہ سرینگر میں حاصل کی۔ اس کے بعد لاہور یونیورسٹی سے میٹرک کا امتحان پاس کیا اور اولین دور سے ہی یعنی 1937 میں شیخ محمد عبداللہ کی قیادت والی مسلم کانفرنس میں شمولیت کی۔ اس کے ساتھ ہی گرفتاریوں کا لا متناہی سلسلہ شروع ہوا۔ بند صاحب نے اپنی زندگی کے13 ؍ سال زندان میں گزارے۔ 1953میں ان کو ایک بار پھر گرفتار کیا گیا لیکن انہوں نے اپنا سیاسی موقف نہ بدلا۔انہوں نے قیدوبند کے صعوبتوں کو خندہ پیشانی سے برداشت کیا اور وزیر اعظم بخشی غلام محمد کی دنیوی پیشکشوں کو ٹھکرایا۔ وہ ٹھیکہ داری کرتے تھے اور رفتہ رفتہ وادی کے معروف ٹھیکے داروں میں ا نکا شمار ہونے لگا۔ 1955ء میں جب محاذ رائے شماری کا قیام عمل میں لایا گیا تو انہوں نے اس میں شمولیت کی۔ وہ الحاق پاکستان کے زبردست حامی تھے ۔ وہ نہ صرف ترال میں بلکہ پورے جنوبی کشمیر میں محاذ کے روح رواں بنے۔ سابق ڈی جی پولیس من موہن کجھوریہ جب ایس پی اسلام آباد تعینات ہوئے تو پورے ضلع میں جبر و قہر بپا کیا۔ مولوی مسعودی، محی الدین قرہ، شام لال یچھا، غلام محمد شاہ، ڈاکٹر مبارک احمد وغیرہ سیاسی افراد پر مشتمل ایک جتھا اسلام آباد گیا اور کوچک منزل میںفروکش ہوا۔ بعد میں یہ جتھا ڈپٹی کمشنر سے ملا اور پولیس کی زیادتیوں کو ان کی نوٹس میں لایا۔ اس دوران بند صاحب نے کارکنان کو لام بند کیا ، ان کو حوصلہ دیا او ر آخر حکام کو نرمی برتنی پڑی۔ ڈپٹی کمشنر نے مرکزی جامع مسجد اسلام آباد میں جلسہ کرنے کی اجازت دے دی۔1975ء میں جب محاذ رائے شماری کو زندہ درگور کیا گیا تو بند صاحب نے زبر دست احتجاج کیا۔ انہوں نے نیشنل کانفرنس کے احیائے نو اور محاذ رائے شماری کی تحلیل کی زور دار مذمت کی اور اس اقدام کو قوم سے غداری کے مترادف قرار دیا۔ انہوں نے شیخ محمد عبداللہ کے سامنے جھکنے سے انکار کردیا اور اپنے نظریہ اور اصولوں کی لاج رکھ لی۔ حکام نے ان کے حق میں فریڈم فائٹر الاؤنس واگزار کیا لیکن انہوں نے اسے قبول نہ کیا۔ کالم نویس تبسم کاشمیری کے مطابق اس روح فرسا واقعہ کے بعد صوفی محمد اکبر نے جب محاذ آدادی کا قیام عمل میں لایا تو بند صاحب نے بھی اس میں شمولیت کی۔ بند صاحب کے لئے آزمایشوں کا دور محاز رائے شماری کے خاتمے کے ساتھ ختم نہیں ہوا۔ 1993ء میں ن کا اکلوتا بیٹا عبدلرشید بند قاضی گنڈ میں آرمی کے ہاتھوں شہید ہوا۔ بند صاحب 2؍ دسمبر2007 کو و اصل بحق ہوئے، ان کو آبائی مقبرے میں سپرد خاک کیا گیا۔
نوٹ : کالم نگار ’’گریٹر کشمیر‘‘ کے سینئر ایڈ یٹر ہیں
فون نمبر9419009648