لڑکپن سے ہی مجازؔ پر شیخ محمد عبداللہ کے خلاف رائے عامہ منظم کرنے کا جنون سوار تھا۔ 19جون1953 کو ان کایہ خواب شرمندۂ تعبیر ہوا۔پولیٹکل کانفرنس کا قیام عمل میں آیا اور مجاز اس کے ممبر بن گئے۔23 سال کی عمر میں مجازؔ شعلہ بیان مقرر بن چکے تھے اور دور دراز کے لوگ اُن کی تقریر سننے آیا کرتے تھے۔ پولیٹکل کانفرنس اگر ہر دلعزیز تنظیم بنی تو اس میں مرزا مجاز نے اہم رول نبھایا۔ مجاز صرف گفتار کے غازی نہ تھے۔ ایک دن اسپیشل فورس کی ایک ٹیم نے کانفرنس کے ہیڈ کوار ٹر لال چوک سری نگرپر چھاپہ مارا تو مجاز نے پولیس کا راستہ روک کر چھاپے کو ناکام کردیا لیکن مجاز کو اس بہادری کی بہت بڑی قیمت چکانی پڑی۔
کچھ دن بعد مجاز رینہ واری میں گرفتار ہوئے۔ شیخ غلام قادر گاندربلی شہر خاص رینہ واری تھانہ صرف اسپیشل فورس کے چھاپے کو ناکام بنانے والے مجازؔ کو دیکھنے گئے۔9؍اگست کو شیخ محمد عبدللہ کو معزول کرکے گرفتار کر کے بخشی غلام محمد ریاست کے وزیر اعظم بنائے گئے۔ اس کے ردعمل میں وادی کے طول و عرض میں مظاہروں کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوا۔ اسی دوران جواہر لال نہرو کشمیر کے دورے پر آئے، پولیٹکل کانفرنس کے کارکنان نے ریگل چوک میں ٹھیک اُس وقت مظاہرہ کیا جب نہرو اور بخشی وہاں سے گزرے۔ بخشی نے مظاہرین کی گرفتاری کا حکم دیا۔ اُن کو کوٹھی باغ تھانے میں بند کیا گیا۔ باقی کارکنان کی معمولی (رسمی)پٹائی کے بعد مجازؔ کو بے رحموں کے حوالے کیا گیا جنہوں نے ان پر اتنے دنڈے برسائے گئے کہ وہ بے ہوش ہوئے اور منہ سے خون اگلنے لگا۔ اُن کو ہسپتال لے جایا گیا لیکن وہ کبھی مکمل طور تندرست نہ ہو سکے۔ ان کو بار بار سینے کے علاج کے لئے ہسپتال میں بھرتی ہونا پڑتا اور آخر 1957 میں صرف 27 سال کی عمر میں انتقال کرگئے۔ جب وہ فوت ہوئے ان کے بیٹے کی عمر صرف چھ ماہ تھی۔ اُن کے والد مرزا غلام محمد نے اشکبار آنکھوں سے اپنے بیٹے کے جنازے میں شرکت کی۔ مجاز کو آبائی مقبرہ ممہ خان کاٹھی دروازہ، رینہ واری شہر خاص میں سپرد خاک کیا گیا۔
نوٹ : کالم نگار ’’گریٹر کشمیر‘‘ کے سینئر ایڈ یٹر ہیں ۔
فون نمبر9419009648