خواجہ عبدالغفار ڈار 1916ء میں موضع آسوز تحصیل کولگام کے خواجہ عبدالقادر ڈار کے ہاں پیدا ہوئے۔ آٹھویں جماعت پاس کرنے کے بعد وہ پنجاب مولوی فاضل کر گئے۔ دوران تعلیم کشمیری طلبہ نے ایک سماجی تنظیم ’’بزمِ کشاہ مرہ ‘‘کا قیام عمل میں لایا۔ خواجہ عبدالغفار ڈار اس انجمن کے سیکرٹری مقرر ہوئے ۔ یہ اُنجمن کشمیری طلبہ کی فلاح و بہبود کے لئے کام کرتیْ تھی۔خواجہ صاحب1931ء کی تعطیلات میں گھر آگئے ۔ انہی دنوں بجبہاڑہ میں مہاراجہ کے ظلم و ستم کے خلاف ایک جلسہ ہوا۔ مولوی عبدلواحد صاحب نے مہاراجہ کو للکارا اور ڈار صاحب نے ایک انقلابی نظم پڑھی۔ شام کو گھر جاتے جاتے انہیں اطلاع ملی کہ ڈوگرہ پولیس نے مولوی صاحب اور ان کے خلاف گرفتاری کے وارنٹ جاری کئے ہیں۔ گرفتاری سے بچنے کے لئے ان دونوں کو روپوش ہونا پڑا۔ مولوی صاحب مظفرآباد میں گرفتار ہوئے جہاں ڈوگرہ سپاہیوں نے ان کا شرمناک جسمانی ٹارچر کیا کہ مولوی صاحب اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھے۔ ڈار صاحب پہاڑوں کو عبور کر کے کسی طرح پنجاب پہنچ گئے۔مولوی فاضل کی تعلیم مکمل کرکے واپس کشمیر آئے اور آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے ترجمان ہفتہ روزہ’’اصلاح‘‘ کے معاون مدیر بنے۔ کچھ وقت کے بعد ہی وہ اس کے انچارج مدیر بنے۔ وہ مسلم کانفرنس سے وابستہ تھے، اس لئے ایمرجنسی انتظامیہ نے اصلاح پر پابندی عائد کردی اور ایک بار پھر ڈار صاحب کے خلاف وارنٹ گرفتاری جاری کیا گیا۔ اخبار’’ اصلاح‘‘ کشمیر کاز کو اُجاگر کرتا تھا ۔ اس لئے حکام نے اس پر پابندی عائد کردی۔ ڈار صاحب نے ایک بار پھر پولیس کو چکمہ دیا۔ انہوں نے بھیس بدل کر سرحد پار کی اور ’’آزاد کشمیر‘‘ کی حکومت میں ان کو ڈپٹی انفارمیشن آفیسر مقرر کیا گیا۔ ڈار صاحب آخری عمر تک مختلف ممالک میں جاکر مسلٔہ کشمیر اُجاگر کرتے رہے۔ انہوں نے اپنی کتاب’’ داستانِ کشمیر‘‘1988 ء میں لکھی جس میں عوام کو متحد رہنے کی تلقین کی ہے اور دردمندانہ انداز میں کہا کہ ع مل کے دنیا میں رہوں مثل حروف کشمیر
کاف شین کے ساتھ شین میم کے ساتھ
م ے کے ساتھ ے رے کے ساتھ
ڈار صاحب2013 ء میں راولپنڈی میں فوت ہوئے اور وہیں پہ مدفون ہیں۔
نوٹ : کالم نگار ’’گریٹر کشمیر‘‘ کے سینئر ایڈ یٹر ہیں ۔
فون نمبر9419009648