19؍جنوری1990ء کو جگموہن کو ایک بار پھر جموں کشمیر کا گورنر بنایا گیا اور اسی رات سی آر پی ایف نے چوٹہ بازار کا محاصرہ کیا اور مجاہدین کو گرفتار کرنے کے لئے گھر گھر تلاشی لی۔ اس تلاشی کے دوران خواتین کے ساتھ زیادتی کئی گئی ۔ یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی اور اگلے دن یعنی 21 جنوری کو شہر کے مختلف علاقوں سے احتجاجی جلوس نکالے گئے۔ لال چوک میں یہ چھوٹے چھوٹے جلوس ایک بہت بڑے جلوس میں ضم ہوگئے۔ یہ پر امن جلوس آزادی کے حق میں نعرے بلند کرتا ہوا چوٹہ بازار کی طرف روانہ ہوا۔ بسنت باغ میں اس جلوس کوسی آر پی ایف اور جموں کشمیر پولیس نے روکا۔ جلوس پر اندھا دھند گولیاں برسائی گئیں۔ چشم دید گواہوں کے مطابق 52؍ افراد موقع پر ہی شہید ہوئے ۔ جب بسنت باغ میں قتل عام ہورہا تھا ، جب لوگ لاشوں تلے چھپ کر اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کر رہے تھے تو ایک 25 ؍ سالہ جوان ایک سپاہی کی طرف لپکا جو اپنی بندوق سے نہتے لوگوں پر گولیاں برسا رہا تھا۔ یہ عبدالرئوف وانی تھا۔ انہوںنے اس سپاہی کی بندوق پکڑی ، بندوق کا رخ اب رؤف کے سینے کی طرف تھا۔ سپاہی نے پوری میگزین ان کے سینے پر خالی کردی۔ رئوف نے ابدی زندگی کا آغاز کیا۔ وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوئے۔ 50 ؍سالہ محمد الطاف قریشی جو جلوس میں موجود تھے اور معجزاتی طور بچ گئے، ر ئوف کی بہادرانہ کارنامے کو حیرت سے دیکھ رہے تھے۔ ان کے مطابق اگر رؤف بندوق کا دہانہ اپنے سینے کی طرف نہ موڑتا تو شہدا ء کی تعداد بہت زیادہ ہوتی۔ اگلی صبح ا ن کے برادر اکبر پرویز احمد وانی پولیس کنٹرول روم گئے۔ انہوں نے رئوف کے سینے میں32 ؍سوراخ گن لئے۔ ان کو سرائے بالا میں سپرد خاک کیا گیا۔ جگموہن اپنی کتاب My Frozen Turbulence in Kashmir میں چوٹہ بازار کی تلاشی سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہیں۔ ان کے مطابق یہ حکم ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے بہت ہی غصے میں دیا تھا۔ وہ مزید لکھتے ہیں کہ اس دن صرف دس افراد مارے گئے لیکن داندرکھاہ (صدیق آباد ) کے مزار شہدا ء میں اس دن دس شہیدوں کو سپرد خاک کیا گیا۔ اس کے علاوہ سرائے بالا میں بھی کچھ شہیدوں کو دفنایا گیا۔ مایسومہ تھانے میں ایف آئی آر درج کیا گیا لیکن 2005ء میں اس کو داخل دفتر کیا گیا۔ پو لیس کا کہنا ہے کہ جو لوگ اس قتل عام میں ملوث تھے، وہ لاپتہ ہیں۔ قوم نے رئوف کی عظیم قربانی کو فراموش نہ کیا۔2006 ء میں جموں کشمیر کولیشن آف سول سوسائٹی نے رئوف کو پس از مرگ رابرٹ تھارپ ایوارڈ سے نوازا۔ رئوف آج بھی ہزاروں دلوںکی دھڑکن ہیں۔
رئوف سرائے بالا کے غلام احمد وانی کے ہاں 22اکتوبر1969 ء میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم بسکو اسکول سے حا صل کی۔ شہید کشمیر اشفاق مجید وانی بھی اسی اسکول میں تھے۔ ایک ہی محلے میں رہنے والے اور ایک ہی اسکول میں تعلیم حاصل کرنے والے دونوں دوست جذبۂ حریت سے لبریز تھے۔ دونوں کو 1987 ء الیکشن کے فوراً بعد گرفتار کیا گیا۔ رئوف کو 21؍ دن تک شرمناک ٹارچر سے دوچار کیا گیا۔ رئوف کے قریبی ساتھیوں کے مطابق وہ بھی اشفاق مجید وانی کی طرح اسلامک ا سٹوڈنٹس (آئی ایس ایل ) سے وابستہ تھے ۔1987 ء میں گرفتاری سے پہلے جب رئوف صرف 18 سال کے تھے ، انہوں نے وزیر باغ میں ایک سکھ مزدور جس کے سر میں گولی لگی تھی، کو بچانے کے لئے اپنی جان کی بازی لگادی۔یہ 1984 ء کاوہ پر آشوب دور تھا جب سکھوں پر آپریشن بلیو سٹار کے پس منظر میں زمین تنگ کر دی گئی تھی۔ رئوف کی ہمشیرہ ظل ہما کے مطابق 21 ؍ جنوری کو رئوف نے جلوس میں شرکت کے لئے باضابطہ اجازت لی۔ اجازت ملتے ہی انہوںنیا وضوکیا اور دوڈ کر جلوس میں شامل ہوئے۔ ان کے والد اور ہمشیرہ نے انہیں لوگوںکی بھیڑ میں گم ہوتے ہوئے دیکھا۔ اس کے بعد انہوں نے رئوف کو صرف خوابوں میں دیکھا۔
نوٹ : کالم نگار ’’گریٹر کشمیر‘‘ کے سینئر ایڈ یٹر ہیں ۔
فون نمبر9419009648