محمد امین گورکھو 1929ء میں شہر خاص عالی کدل سرینگر میں پیدا ہوئے۔ تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود اُنہوں نے کپڑوں کو رنگنا اور پشمینہ کی خرید و فروخت کو ہی ترجیح دی۔ سیاسی زندگی کا آغاز اُنہوں نے نیشنل کانفرنس میں شمولیت کر کے کیا اور 1953ء تک اسی تنظیم سے وابستہ رہے۔ گورکھو کے تمام رشتہ دار میر واعظ یوسف شاہ کے ساتھ وابستہ تھے اورنیشنل کانفرنس سے اُن کی وا بستگی پربہت ناراض تھے لیکن گورکھو صاحب نے اُن کی رنجیدگی کو کبھی خاطر میں نہ لایا۔ 1953 ء میں ہی محازذرائے شمارے کے رُکن بنے اور1975ء تک ریاستی عوام کے حصول حق خود ارادیت کے لئے برسر جدوجہد رہے۔ 1975ء کے اندرعبداللہ اکارڈ کے بعد وہ سیاست سے کنارہ کش ہوئے۔ گورکھو صاحب شروع سے ہی بے باک اور نڈر تھے۔ نیشنل کانفرنس کے ز یادہ تر کارکنان شیخ عبداللہ سے سوال کرنے سے ہچکچاتے تھے لیکن گورکھو بے دھڑ ک سوالات کیا کرتے تھے۔ اُنہوں نے شیخ کی نظر بندی کے دوران اُن کے نام کئی خطوط لکھے اور ہمیشہ ان کوجوابی خطوط ملتے ۔اس خط وکتابت کو اُنہوں نے آخری دم تک محفوظ رکھا۔ ان خطوط سے گورکھو صاحب کی بے باکی جھلکتی ہے۔ 1957 ء میں گورکھو صاحب کو لگا کہ کچھ غلط ہو رہا ہے۔ چناںچہ اُنہوں نے اس بابت خط لکھ کر شیخ صاحب سے جواب طلبی کی۔ شیخ صاحب نے شکوک وشبہات دور کرنے کی کوشش کی لیکن گورکھو صاحب مطمئن نہ ہوئے۔ اس کے بعد شیخ صاحب نے دوسرے کارکنان کو خطوط لکھے جن میں اُنہوں نے مسلمانوں کی کسمپرسی کا رونا رو کر اپنی صفائی پیش کرنے کی کوشش کی لیکن اس سے گورکھو صاحب کے شکوک کا ازالہ نہ ہوسکا۔ اس کے باوجود بھی خط و کتابت کا یہ سلسلہ بند نہ ہوا۔
12 ؍اپریل 1972 ء کو شیخ صاحب نے ایک اور خط لکھا جس میں سقوط ڈھاکہ سے حالات بدلنے کی بات کی کہی گئی تھی۔ اس خط سے گورکھو صاحب کا ماتھا ٹھنکا،یہ خط دہلی کے کوٹلہ لین والے سب جیل سے لکھا گیا تھااور اس نے محاذ کی صفوں میں ہلچل مچادی۔ محاذیوں کو لگا کہ شیخ صاحب سودا بازی کے لئے راہ ہموار کر رہے ہیں۔ اس پیش بینی کے باوجود جب اکارڈ ہوا تو یہ لوگ کچھ نہ کر پائے۔ جب 1977 ء میں نیشنل کانفرنسیوں نے ’’الہ کرے گا وانگن کرے گا ‘‘ کا نعرہ لگایا تو گورکھو صاحب خون کے آنسوروئے۔ اس کے بعد جب مولانا مسودی نے جنتا پارٹی کا پرچم لہرایا تو گورکھو صاحب صرف ہائے افسوس کر پائے۔ گورکھو صاحب نے8؍ دسمبر2005 ء کو وفات پائی۔ محاذ رائے شماری کے قایم مقام صدر ایڈوکیٹ غلام نبی ہاگرو مرحوم نے گورکھو صاحب کی وفات پر روزنامہ’’ گریٹر کشمیر‘‘ میں ان کو خراج عقیدت ادا کرتے ہوئے بے باک اور صف ِاول کا وہ مجاہد قرار دیاجوکبھی اپنے موقف سے منحرف نہ ہوا۔
نوٹ : کالم نگار ’’گریٹر کشمیر‘‘ کے سینئر ایڈ یٹر ہیں فون نمبر9419009648