آغا سید احمد شالہاری1908ء کے آس پاس استور گلگت میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد صاحب کا نام سید حیدر رضوی تھا جو زڈی بل سرینگر کے جانے مانے عالم شیخ عبد العلی کے استاد تھے۔ وہ اپنے استاد محترم کے ساتھ ستور گئے اور ان کے کہنے پر وہاں ہی اشاعت دین کے لئے رُکے رہے۔ بعد میںانہوں نے استور کے راجہ کی بیٹی سے شادی کی اور اپنے والد نسبتی سے کئی جاگیریں ملیں۔ آغا سید احمد وہیں پیدا ہوئے اور ابتدائی تعلیم بھی وہی حاصل کی۔ انہوں نے شر وع سے ہی تحریک میں حصہ لیا اور 1947ء میں گلگت مسلم کانفرنس کے صدر تھے۔ تقسیم برصغیر کے کچھ پاہ پہلے وہ اپنے آبائی گاوں شالہار آئے اور یہیںمستقل سکونت اختیار کی۔1947ء کے بعد مسلم کانفرنس حکام کے عتاب کا شکار ہوئی اور کچھ عرصے کے بعد اس تنظیم کا وجود گویا مٹ گیا۔ آغا صاحب چونکہ تحریک حریت سے وابستہ تھے، وہ خاموش تماشائی بنے نہ رہ سکے۔ انہوں نے پو لٹکل کانفرنس میں شمولیت کی۔ کچھ وقت کے لئے وہ اس تنظیم کے قائم مقام صدر بھی رہے۔ 1958 ء میں وہ گرفتار ہوئے اور تین سال تک سرینگر کے سنٹرل جیل میں مقید رہے۔ 10؍اگست 1961ء کو وہ جیل سے رہا ہوئے لیکن تنظیم کی حالت دیکھ کر انہیں بہت دکھ ہوا۔ انہوں نے محسوس کیا کہ قیادت اپنے بنیادی موقف سے انحراف کر چکی ہے۔ تین سال بعد آغا صاحب کے شکوک اس وقت حقیقت میں بدلے ے سامنے آئے جب تنظیم کے ایک رہنما غلام محمد میر نے سر عام قیادت پر بنیادی موقف سے انحراف کرنے کا ا لزام لگایااور کہا کہ قیادت اس بنا پر تنظیم کو چلانے کا حق کھو چکی ہے۔ چناںچہ آغا صاحب نے سیاست سے کنارہ کشی کی اور خدمت خلق میںمصروف ہوگئے۔ وہ سیاسی قیدیوں کے افراد خانہ کا خاص خیال رکھتے تھے کہ آغا صاحب کا شمار کشمیر کی معروف شخصیات میں ہونے لگا ۔ لوگ ان کی بے لوث اور انتھک خدمات سے خاصے متاثر تھے۔آغا صاحب بے باک، نڈر اور انتہائی دیانتدار تھے۔ تجارت پیشہ ہونے کے باوجود انہوں نے بڑی سادگی سے اپنی زندگی گزاری۔ آغا صاحب 1996ء میں فوت ہوئے اور آبائی مقبرہ شالہار میں دفن ہوئے۔ ان کے بیٹے سیدقلب ِحسین رضوی اپنے والد محترم کی طرح فیاض اور سخی تھے۔
نوٹ : کالم نگار ’’گریٹر کشمیر‘‘ کے سینئر ایڈ یٹر ہیں
فون نمبر9419009648