خواجہ غلامحی الدین رہبر کے دادا غفورالدین منہاس کٹھوعہ جموں کے باشندے تھے لیکن انہوں نے ہجرت کر کر بتہ مالنہ سرینگر میں سکونت اختیار کی۔ رہبر صاحب 1904 ء میں فیروزالدین منہاس کے ہاں پیدا ہوئے۔ پڑھنے لکھنے کا شوق ہوتے ہوئے بھی انہیں اپنا تعلیمی سفر مختصر کرنا پڑا۔ وہ صرف پرائمری تک ہی پڑھ پائے لیکن اس کے باوجود ان کے زوردار قلم کی کاٹ نے شخصی راج کے حکام کی نیندیں حرام کردیں۔ اسکول چھوڑتے ہی وہ ملازمت کی تلاش کرنے لگے۔ کسی طرح وہ مہاراجہ کے بینڈ میں ملازم ہوئے۔ وہاں ان کی ملاقات شہر خاص کلا ئی اندر کے سکندر خان سے ہوئی اور جلد ہی یہ ملاقات گہری دوستی میں تبدیل ہوئی۔ سردیوں میں یہ بینڈ دربار مو کے ساتھ جموں منتقل ہو جاتا۔ جموں میں ان دو گہرے دوستوںں نے مسجد بنانے کا منصوبہ بنایا جس کی اطلا ع بینڈ مامسٹر کو ہوئی۔ چناںچہ مہاراجہ نے اس کی پادا ش میں ان دونوں کو دد دد سال کی سزا سنائی ۔ رہائی کے بعد یہ دونوں لاہور چلے گئے اور برٹش آرمی میں ملازم ہوئے لیکن رہبر صاحب کے مقدر میں تاریخ اور تحریک کشمیر میں کلیدی رول نبھانا تھا۔ وہ واپس آئے اور اپنے ساتھ ایک کیمرہ بھی لے آئے۔ اسی کیمرہ سے انہوں نے 13؍ جولائی کے دلدوز واقعات کو قید کرلیا اور اس طرح کشمیر کے رہبر صاحب پہلے فوٹو جرنلسٹ بن گئے۔ یہ فوٹو آج بھی تاریخ کشمیر کا اہم حصہ ہیں۔ اس قتل عام کا ان پر اتنا اثر ہوا کہ وہ شخصی راج کے خلاف باغی ہوئے ۔ ان کو تین ماہ کی قید اور دو سو روپے جرمانے کی سزا ہوئی۔ چونکہ وہ جرمانہ ادا نہ کر پائے اس لئے ان کے گھر کا تمام اثاثہ ضبط کیا گیا۔ اس سزا نے رہبر کو اور بھی مضبوبط بنایا ۔ 1932 ء میں انہوں نے اخبار ’’رہبر‘‘ کی اشاعت شروع کی اور پہلے ہی سال گرفتار ہوئے۔ ان کی مسلسل گرفتاریوں سے’’ رہبر‘‘ کی اشاعت متاثر ہوئی ۔ چناںچہ انہوں نے ’’رہبر ‘‘ کی اشاعت کو جاری رکھنے کی ذمہ داری دینا ناتھ مستؔ کو سونپی۔ رہبر صاحب مرحوم ان چند لوگوں میں شامل ہیں جنہوں نے مسلم کانفرنس کوتوڑ کر نیشنل کانفرنس بنانے کی کھلم کھلا مخالفت کی۔ انہوں نے مسلم کانفرنس کی تشکیل نو میں بھی اہم کردار نبھایا۔ تحریکی سرگرمیوں اور ’’رہبر‘‘ کی اشاعت کے لئے وہ بار با رگرفتار ہو تے رہے۔1934ء میں رہبر ؔ کو ریاسی جیل میں قید کیا گیا، بعدازاں وہ 1948، 1959 اور1965 ء میں گرفتار ہوئے لیکن کبھی بھی اپنے اٹل سیاسی موقف سے نہ ہٹے۔ 1965 ء کی جنگ کے بعدرہبر ؔصاحب نے اپنے قلم کا بھر پور حق ادا کیا۔ 11؍جنوری1986 ء کو رہبر صاحب انتقال کر گئے۔ وطن کے اس عظیم سپوت کو ہاؤسنگ کالونی راولپورہ سری نگر میں میں سپردخاک کیا گیا۔ رہبر صاحب کو 1989 ء میں ’’آزاد کشمیر‘‘ حکومت نے پس از مرگ تحریک حریت آزادی ایوارڈ سے نوازا۔ یہ ایوارڈ ان کے فرزند ارجمند نے حاصل کیا۔ اس طرح رہبر صاحب کشمیر کے پہلے صحافی بنے جن کو اس ایوارڈ سے نوازا گیا۔ آج کل رہبرؔ صاحب کے فرزند شاہد اقبال رہبر کی ادارت ونظامت میں ہفت روزہ ’’رہبر ‘‘ باقاعدگی کے ساتھ شائع ہورہاہے۔
نوٹ : کالم نگار ’’گریٹر کشمیر‘‘ کے سینئر ایڈ یٹر ہیں ۔
فون نمبر9419009648